بطور تاریخ کے طالب علم میرا ہمیشہ سے یہ ماننا رہا ہے کہ ہمیں کسی صورت اپنا ماضی بھولنا نہیں چاہیے بلکہ ماضی سے سبق حاصل کرکے نیک نیتی سے اپنی حالیہ پالیسیوں میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیے جسکی بنا پر ایک تابناک مستقبل یقینی بنایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ میری ترجیح ہوتی ہے کہ انسانی تاریخ کے اہم ترین واقعات و سانحات کو تاریخ کے آئینے میں کھنگالا جائے۔ آج فروری کی پندرہ تاریخ ہے اورمیں اس حوالے سے کچھ اہم سبق آموز واقعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہوں گا۔ آج سے ٹھیک 29برس پہلے ہمارے پڑوسی ملک افغانستان سے روسی افواج شکست فاش کھاکر رخصت ہوگئیں اور سپر پاور سوویت یونین کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ افغانستان آمد سے قبل سوویت یونین کی افواج ناقابل شکست تصور کی جاتی تھیں اور سویت یونین کی تاریخ یہ بتاتی تھی کہ اس نے آس پاس کے جس ملک پر قبضہ کرنا چاہانہایت آسانی سے کرلیا، امریکہ جیسی سپرپاور بھی براہ راست مدمقابل آتے ہوئے کتراتی تھی اورسرد جنگ پر اکتفا کرتی تھی۔ پاک افغان تعلقات کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو دونوں ممالک ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ایک دوسرے کے قریب ہیں، فطری طور پر افغانستان کو اپنے پڑوس میں نوزائیدہ مسلمان اکثریتی ملک پاکستان کا خیرمقدم خوشدلی سے کرنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی سے افغانستان کا رویہ روز اول سے پاکستان مخالف رہا ہے، اسکی ایک بڑی مثال عالمی تسلیم شدہ ڈیورنڈ لائن کا انکار کرکے دشمنی کو پروان چڑھانا ہے، ایسے موقع پر جب سوویت یونین نے دراندازی کی تو پاکستان نے اصولوں کی بنیاد پر طاقتور کے خلاف کمزور ہمسائے کی مدد کرنے کی ٹھانی، افغان عوام کی مدد کیلئے پاکستان نے لبیک کہا اور اپنی سرحدیں افغان مہاجرین کیلئے کھول دیں، پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امریکہ نے افغان جنگ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ تب کیا جب پاکستان کی حمایت سے سوویت یونین کے غرور کا سر نیچا ہونا شروع ہوگیا تھا اور پھر پندرہ فروری 1989ء کا وہ تاریخی دن آگیاج سوویت یونین نے اپنی شکست تسلیم کر کے افغانستان سے اپنی فوجوں کی مکمل واپسی کا عمل مکمل کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا۔پاکستان کا قائدانہ کردار جنیوا اکارڈ میں بھی تسلیم کیا گیا جس پر سوویت یونین، امریکہ، افغانستان اور پاکستان نے دستخط کیے۔ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں نہ صرف وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں سمیت متعدد ممالک آزاد ہوگئے بلکہ جرمنی کے دونوں حصے بھی ایک ہوگئے، آج ان ممالک کے عوام کے دلوں میں پاکستانی عوام کیلئے جو دوستانہ جذبات پائے جاتے ہیں اسکی اہم وجہ بھی پاکستان کا ماضی کا مثبت کردار ہے۔ افسوس کہ سوویت یونین کے جانشین روس نے تو اس شکست سے سبق سیکھ کر حقیقت پسندی کی راہ اختیار کرلی لیکن ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں افغانستان پر سوویت حملے سے پہلے تھے۔ روس نے امریکہ اور مغرب سے تعلقات میں بہتری لاکر اپنی ترجیح روسی عوام کی ترقی و خوشحالی قراردے دی اور افغان جنگ کے نتیجے میں متاثرہ روسی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوگئی، آج روس ایک بار پھر عالمی منظرنامے میں اپنی اہمیت منوانے کی پوزیشن میں آرہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان باہمی طور پر سوویت یونین کے خلاف کامیابی کی سالگرہ مشترکہ منائیں لیکن آج انتیس سال بیت جانے کے باوجود دونوں برادر ہمسایہ ممالک ایک دوسرے سے شاکی ہیں۔ پندرہ فروری کی تاریخ کو ایک اور اہم واقعہ 2003ء میں رونما ہوا جب دنیا بھر کے امن پسند عوام سپرپاور امریکہ کو عراق پر حملے سے باز رکھنے کیلئے سڑکوں پر امنڈ آئے، دنیا بھر کے مبصرین کا کہنا ہے کہ دنیا کے ساٹھ ممالک کے چھ سو سے زائد شہروں میں بیک وقت منعقد ہونے والے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں کا سلسلہ نہایت منظم انداز میں شروع کیا گیا، مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق شرکاء کی تعداد کا تخمینہ آٹھ ملین سے تیس ملین تک کا لگا یا گیا۔ جنگ مخالف مظاہروں کے انعقاد میں یورپ کے امن پسند عوام نے بھرپور حصہ لیا، روم میں تین ملین جبکہ میڈرڈ میں مظاہرین کی تعداد کا اندازہ ڈیڑھ ملین لگایا گیا،پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت سمیت دیگر علاقائی ممالک میں بھی عراق حملے کے خلاف مظاہرے کیے گئے، ان مظاہروں نے ثابت کردیا کہ دنیا بھر کے امن پسند عوام متحد اور متحرک ہیں، اس حوالے سے ایک نمایاں امریکی صحافی نے بالکل صحیح تجزیہ کیا تھا کہ پندرہ فروری کے فقید المثال مظاہرے اس امر کی عکاسی کرتے ہیں کہ دنیا میں دو سپرپاورز ہیں، ایک امریکہ اور دوسری عالمی رائے عامہ۔ افسوس، امریکہ نے عوامی رائے کا احترام نہ کرتے ہوئے مارچ 2003ء میں عراق پر حملہ کردیا اور پھر امریکہ کی طاقت بھی زوال کی جانب گامزن ہوگئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکی قیادت نے عراق پر نہیں بلکہ درحقیقت دنیا بھر کے امن پسند عوام پر حملہ کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں تیزی سے اپنا مقام کھوتا چلا جارہا ہے، سوویت یونین کی شکست کے بعد اکیلی سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ عالمی تنازعات کے حل کیلئے ثالث کی بجائے فریق بن گیاہے، عراق جنگ کی وجہ سے مڈل ایسٹ کا مستحکم خطہ عدم استحکام کا شکار ہواجسکا خمیازہ امریکہ سمیت تمام عالمی برادری کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔اب ذرا جنگی تنازعات سے ہٹ کر بات کی جائے توآج کینیڈا بھر میں نیشنل فلیگ ڈے منایا جارہا ہے، کینیڈا کا قومی پرچم پندرہ فروری 1965ء کو پہلی مرتبہ پارلیمنٹ ہِل پر لہرایا گیا، اس موقع پرسینیٹ کے اسپیکر ماریس بورگٹ نے اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ قومی اتحاد کی علامت کینیڈین پرچم بغیر کسی نسلی، لسانی، مذہبی تعصب کے تمام کینیڈین شہریوںکی نمائندگی کرتا ہے۔ آج پچاس سال بعدبھی کینیڈا عالمی امن، استحکام جمہوریت، انسانی حقوق، سماجی فلاح و بہبود اور دیگر مثبت اقدامات کے حوالےسے دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تاریخ کے ان تین بڑے واقعات میں ہمارے لیے کچھ سبق پوشیدہ ہیں۔ اول، طاقت کے زور پر قبضہ جمانے کا دور چلا گیا اور فاتح ملک کو ایک نہ ایک دن مقبوضہ علاقہ خالی کرنا پڑتا ہے، اسلئے بہتر یہی ہے کہ عوام کو اپنی مرضی سے امور مملکت چلانے کاجمہوری حق دیا جائے اور کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہا جائے۔ دوئم، ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ہمیشہ اصولوں کا ساتھ دینا چاہیے لیکن غیروں کی جنگ اپنی سرزمین پر لانے کے منفی اثرات سے بچاؤ کی حکمت عملی کا تعین کرنا بہت ضروری ہواکرتا ہے، اسی طرح عوامی رائے عامہ کا احترام نہ کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے، جو قیادت ہٹ دھرمی اور غرورو تکبر میں مبتلا رہتی ہے وہ ایک نہ ایک دن زوال پذیر ہوجاتی ہے۔ ہماری ایک اور بڑی غلط فہمی پاکستان کے قومی پرچم کے حوالے سے پائی جاتی ہے کہ سبز رنگ مسلمانوں اور سفید رنگ غیرمسلم اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے، میرا موقف ہے کہ قومی پرچم پوری پاکستانی قوم کی عکاسی کرتا ہے، قومی پرچم کو تقسیم کرنا درحقیقت پاکستانی معاشرے کو تقسیم کرنے کے مترادف ہے، ہمارے قومی پرچم میں سبز رنگ تمام پاکستانیوں اور سفید رنگ امن کی علامت ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں اور اپنی پالیسیاں عوامی امنگوں کے مطابق مرتب کریں، ہماری ترجیح ملکی معیشت کی پائیداری اور عوام کی فلاح و بہبود ہونی چاہیے، اگر ہم علاقائی و عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں تو ہماری ترجیح عالمی برادری سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کیلئے باہمی اعتماد سازی پر توجہ دینا چاہئے۔