(گیارہویں قسط)
کلیسا کی سیر
اس تابناک تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کنیسۃ القیامہ کو دیکھنے کیلئے اپنے ان نوجوان گائیڈوں کے ہمراہ پہنچ گئے ۔چرچ کے سامنے خاصابڑا دالان ہے ۔جس میں تمام گائیڈ اپنے اپنے گروہ کے سامنے اپنی اپنی بیش قیمت معلومات انڈیل رہے تھے ۔ یہ کنیسہ اس طرح عمارتوں کے درمیان گھرا ہوا ہے کہ اس کی شان و شوکت اندر کی تاریکی کی طرح محجوب ہوکر رہ گئی ہے ۔ہمارے سامنے ہی حجرے سے ایک پادری صاحب زرق برق لباس میں ملبوس نمودار ہوئے جو زیارت سے مشرف ہونے والے حضرات کو الوداع اور آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔ اس کنیسہ کی سامنے والی دیوار پر عیسائی تصورات کے مطابق حضرت عیسی کی شبیہ اور نیچے فرش سے ذرا اوپر ایک پتھر کی سل نصب تھی جس پر زائرین اکڑوں بیٹھ کر اپنی پیشانیاں رگڑ رہے تھے۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب سے اتار نے کے بعد لٹایا گیاتھا۔ اس چبوترہ پر جہاں ان کی نعش پڑی رہی مختلف عیسائی زائرین سجدہ کرتے ہیں تو کچھ اس کے بوسے لیتے ہیں تو کچھ وہاں اپنی نذریں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں نہ حضرت عیسیٰ کو پھانسی دی گئی، نہ ہی قتل کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دشمنوں سے محفوظ حالت میں اٹھا لیا( وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم۔ نساء۵۷) انقرہ سے ملنے والے انجیل کے قدیم مخطوطہ نے تو عیسائی صفوں میں کھلبلی مچا دی کہ قدیم نسخے میں حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق وہی باتیں ہیں جو قرآن میں مذکو ہیں۔ پھر گائیڈ ہمیں ایک بالا خانے میں لے گیا یہ جگہ وسیع بالکونی کی سی شکل رکھتی ہے ۔سامنے عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب پر چڑھائے جانے کی مزعومہ تصویر تھی گائیڈ نے بتایا عیسائی عقائد کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیا تھا ۔ ہم ایک طرف کھڑے رہے کیونکہ مسیحی زائرین اس دیوار کا تبرک حاصل کرنے کیلئے اپنی باری کے منتظر تھے ہم نیچے اتر کر عمارت کے عقبی حصے میں آگئے ۔نیم تاریکی میں آگے بڑھے تو ایک چھوٹاسا حجرہ نظر آیا جس کے مختصر دروازے میں داخل ہونے کیلئے زائرین ایک لمبی قطار لگائے ہوئے تھے بتایا گیا کہ اس حجرے میں وہ قبر ہے جہاں عیسیٰ علیہ السلام تین دن تک دفن رہے ۔اورپھر بروایت بائبل دوبارہ زندگی پاکر جبل زیتون کی طرف روانہ ہوگئے تھے اس حجرہ میں بیک وقت چند آدمی داخل ہوسکتے ہیں ۔ ہم چرچ ہال کے وسیع ہال کی دہلیز سے مڑگئے کہ وہاں رسم عبادت جاری تھی ۔ گائیڈ اب ہمیں غار نما ایک کمرے میں لے گئے، جس میں لوبان جلنے کا دھوں اس کثرت کے ساتھ تھا کہ دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ ہم نے جلد از جلد باہر نکلنے میں عافیت سمجھی ۔ کنیسۃ القیامۃ اپنی اصل کے اعتبار سے قدامت پسند عیسائیوں کی آماجگاہ ہے لیکن اس کے اندر حجرہ نما چھوٹے چھوٹے کئی اور عبادت خانے بھی ہیں ۔ ایک پر مصری قبطیوں کی چھاپ دیکھی اور دوسرے پر ارمنی عیسائیوں کی ۔ اس طرح دل کی تنگی کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے کنیسۃ القیامۃ کاوزٹ مکمل کرکے باہر آئے تو سکون کا سانس آیا یہی فرق ہے کسی مسجدکی زیارت میں اور کسی چرچ یا خانقاہ کاوزٹ کرنے میں (ولکن اکثرھم لا یعقلون )باہرنکلے تو اس کنیسہ کی اوپر والی منزل کے چھجے پر ایک سیڑھی نظر آئی جس کے متعلق بتایاگیاکہ چار سو سال سے یہیں پڑی ہوئی اور کوئی اسے ہلانے کی جرات نہیں کرسکتا کیونکہ یہاں عیسائیوں کے کم ازکم سات فرقے موجود ہیں ۔ اسی طرح اس کلیسا کو بھی ایک مسلمان خاندان کھولتااوربند کرتاہے ، کوئی فرقہ دوسرے فرقے پر اعتماد نہیں کرتا۔بہرحال یہ بھی عجوبہ لگا۔کنیسہ سے نکل کر دالان میں آئے تو ہمارے ایک گائیڈ فلسطینی نوجوان کو ہاں متعین یہودی پولیس نے حراست میں لے لیااور اسے تفتیش کے لئے سامنے والی بلڈنگ میں لے گئے ۔ساتھیوں نے مجھے بتایا تو میں بھی اس کے پیچھے چلاگیااور اسے چھوڑنے کا کہاپہلے تو انہوں نے انکارکیامیں نے اپنانام اور ملک کابتایاتو وہ بات کرنے پر آمادہ ہوگیااسے حراست میں لینے کاسبب بتایاکہ یہ آپ سے پیسے لے گا ؟ میں نے پولیس کوبتایاکہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی ایگریمنٹ نہیں ہے ،ہم جو بھی دیں گے یہ لے لے گایاتم ہی بتاؤ کہ یہ اپنا وقت نکال کر ہمیں کلیسا دکھانے ساتھ آئے ہیں۔ انہیں کچھ دینا چاہیئے یانہیں تب وہ خفیف ساہوا اور اسے میرے ساتھ بھیجنے پر آمادہ ہوگیا۔آگے آکر ہمارے گائیڈنے کچھ اورچیزیں دکھائیں اور وعدہ کیاکہ وہ ہفتے والے دن بھی ہمارے ساتھ رہے گا۔واپس ہم جب ہوٹل میں پہنچے تو لندن سے دو اور ساتھی ہمارے گروپ میں آشامل ہوئے تھے۔ اگلی صبح نمازتہجد کیلئے حسب معمول ہم بیت المقدس چلے گئے۔ آج امام یوسف صاحب نے فجرکی جماعت فجرکرائی ۔ نماز کے بعد ان سے ملاقات اور تعارف ہوا۔ انہوں نے بھی مولاناعبدالہادی کی خیریت دریافت کی ۔کافی پرانی یادیں تازہ کیں ۔ نمازکے بعد وہ ہمارے ساتھ باہرتک آئے ہم نے مغرب کی جانب منہ کرکے تصاویربنائیں کہ پیچھے سے قبۃ الصخراء نظر آرہاتھا ۔ ہم اشراق تک مسجد میں تلاوت وغیرہ میں مشغول رہے ۔واپس ہوٹل پہنچ کر ناشتہ کیااور کچھ دیر کیلئے آرام کیا۔ پھر چل پھر کر اس علاقے کو دیکھا فلسطینی بھائیوں سے میل ملاقات کی ایک گروسری شاپ سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدیں ۔بارہ بجے واپس ہوٹل پہنچا تو ساتھی نمازظہر کیلئے مسجد اقصی جانے کیلئے پابرکاب تھے ۔ نمازظہر کے لیے ہم باب دمشق سے یروشلم شہر میں داخل ہوئے ۔چکنے پتھروں سے بنے ہوئے چلتے چلتے ہم باب الناظر سے مسجداقصی میں داخل ہوئے ۔اور باجماعت نماز ادا کی۔ وضو کیلئے باب السلسلہ کی طرف گئے، دروازے کی بائیں جانب ٹوائلٹ تھے ، ان کا بھی وہی حال تھا جو باب حطہ کے ٹوائلٹوں بلکہ عموما ً ہمارے ہاں کی ٹوائلٹوں کا ہوتاہے ۔نہ صابن ،نہ ٹوائلٹ پیپر اور نہ کوئی تولیہ ، میں نے باہر بنی ہوئی دوکانوں سے کچھ خریداری کی ۔ چند چیزیں وہاں رکھ دیں اوروضو بنا کر باہر آئے ،اور صحن گنبد صخراء کے پلیٹ فارم میں موجود تاریخی کتبات دیکھتے رہے ۔بڑاعجیب سا احساس ہورہاتھا کہ اس جگہ پر صدیوں سے تاریخ کا پہرہ ہے ۔
مولانا محمد علی جوہر کی قبر
سوچ رہاتھا کہ سنا ہے مسجد اقصی میں تحریک آزادی ہند کے عظیم رہنما مولانا محمد علی جوہرؒ کی قبر بھی ہے ۔لیکن وہ کس قبرستان میں ہوگی ۔یہ معلوم کرنا پڑے گا لیکن یہ کیا ہوا ؟باب السلسلہ کے بائیں جانب بنے برآمدوں میں چلتے چلتے اچانک نظر پڑی تو وہاں لکھاہوا دکھائی دیا ۔ھٰذا الضریح المبارک المجاھد الھندی الکبیر مولانا محمد علی جوہر تغمدہ اللہ برحمتہ(یہ قبر مبارک ہندکے بڑے مجاہد مولانا محمد علی جوہر کی ہے ۔ اللہ کی رحمت ان پر سایہ فگن رہے )دل اچانک اس انکشاف پر باغ باغ ہوگیا ۔ مولانامحمد علی جوہر(1878۔1931ء) رامپور میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مولانا عبدالعلی بھی عظیم مجاہدتھے ۔مولانا نے الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا اور1998میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجوئیشن کیا ۔آپ نے اردو صحافت کے ساتھ ساتھ انگریزی صحافت میں بھی نام پیدا کیا ۔انہوں نے اپنے قلم کے زور سے ہندوستان میں ایک بڑا مقام پیدا کیا ۔ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کی انگریزی اتنی اعلی کیسے ہے تو وہ جواب دیتے میں نے ایک دیہات سے سیکھی ہے دیہات سے مراد لندن کے نواحی قصبے کی آکسفورڈ یونیورسٹی ہے ۔مولانامحمد علی نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے ہندوستانیوں کے رگوں میں حریت کا جذبہ اس قدر سرایت کردیا تھا کہ ان کی تحریروں سے ہر کوئی باشعور و محب وطن ہندوستان انگریزوں کے خلاف لازما ًسر بکف نظر آتاتھا ۔1919کی تحریک خلافت کے بانی آپ ہی تھے ۔1930میں گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن گئے وہاں آپ نے ولولہ انگیز خطاب کیا اور کہا اگرتم ہندوستان کو آزادی نہیں دو گے تو میں غلام ہندوستان میں دفن بھی نہیں ہوں گا ۔ کانفرنس ناکام ہوئی ۔ اس کانفرنس میں فلسطین کے مفتی اعظم بھی موجود تھے انہوں نے مولاناجوہرکے یہ الفاظ یاد رکھے اور جب مولانافوت ہوگئے ،روایت کے مطابق 1930میں مولانا محمد علی جوہر اپنے بھائی شوکت علی کے ہمراہ لندن آئے ہوئے تھے 4جنوری1931(بمطابق14 شعبان 1349ھ)کو وہیں وفات پائی، مگر وصیت کرگئے کہ انہیں غلام ہندوستان میں نہیں بیت المقدس میں سپرد خاک کیاجائے ۔ مفتی اعظم نے ان کی میت کوفلسطین بھجوانے کے انتظامات کیے ۔ رمضان المبار کاپہلا جمعہ تھا جب ان کی میت فلسطین پہنچی ۔نمازجمعہ میں ان کے جنازے کا اعلان ہوا اور تدفین کیلئے وہاں موجود مدرستہ البنات کا یہ حصہ تجویز ہوا ۔یہ بھی کہاجاتاہے کہ ، مدرسے کا یہ حصہ اردن کے ہاشمی خاندان کے افراد کی تدفین کیلئے خاص تھا لیکن مولاناجوہر کیلئے بھی یہی حصہ تجویزہوا۔ یوں مولانامحمد علی جوہر قیامت تک لیے بیت المقدس میں سلادئیے گئے جو ایک بڑا اعزاز ہے ۔ مصر کے قومی شاعر احمد شوقی نے اس موقع پر ایک نظم کہی جس میں مولانامحمد علی کی زندگی کو سمو کررکھ دیا اے سرزمین قدس !تجھے مبارک ہو کہ تیری آغوش میں آنے والا مہمان تیرے لیے کوئی اجنبی نہیں ہے ، اس نے تیرے فرزندوں کی امانت کی حفاظت کی ہے وہ مشرق کے عوام کے حقوق کیلئے برسر پیکار رہا۔ اسلام اس کا اوڑھنا بچھونا تھا ۔ نیل کی لہریں اسے ہمیشہ یاد رکھیں گی ۔ ترک اسے کبھی نہیں بھول سکتے ۔اور ہندوستان اسے ہمیشہ یادرکھے گا۔کہ وہ موت تک اس کی آزادی کیلئے بے قرار رہا ۔تیری خاک میں دفن ہونے والا یہی مرد جری ہے اللہ تعالی اس بطل جلیل کو آخرت میں اپنی فیاضیوں سے نوازے علامہ اقبال کیا خوب کہہ گئے ہیں۔
خاک قدس او را بآغوش تمنا درگرفت
سوئے گردوں رفت ز آں راہ پیغمبر گزشت
جالی کے دونوں طرف چند اور مدفونین کے نام بھی درج تھے جن میں الحسینی خاندان کی چند شخصیتیں شامل تھیں جالی میں سے جھانکا تو تین چار قبریں نظر آئیں ۔مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی ۔چند قدم اور آگے بڑھے تو ایک بڑا کتبہ نظر آیا۔ یہ شاہ حسین مرحوم کے دادا عبداللہ بن حسین بن علی کا مدفن تھا وہ عبداللہ بن حسین جنہوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر القدس کے آخری محافظین یعنی سلطنت عثمانیہ کے خلاف شورش میں حصہ لیاتھا۔ عرب مورخین کہتے ہیں کہ امیر عبداللہ انگریزوں سے دھوکہ کھاگئے ۔ ان سے وعدہ کیا گیاتھا کہ عثمانی سلطنت کے ختم ہوتے ہی سرزمین شام ، فلسطین اور عراق عربوں کے حوالے کردی جائے گی لیکن اندرون خانہ یہود سے بھی وعدہ کرلیا کہ انہیں فلسطین کی حکومت ملے گی ۔ یہود کے ساتھ وعدہ پورا کیا گیا لیکن عربوں کو شرق اردن تک محدود کردیاگیا۔اہل فلسطین امیر عبداللہ کی سیاست سے خوش نہیں تھے اس لیے ایک فلسطینی نے مسجد کے احاطے میں امیر عبداللہ کواپنے خنجر سے گھائل کرکے مغربی دیوار سے متصل قبرستان میں پہنچا دیا۔ عربوں کی بغاوت میں اس بے چینی کا بھی دخل تھا کہ جو سلطان عبدالحمید کے ہٹائے جانے اور پھر کمال اتاترک کی قیادت میں ترک قومیت کے احیا اورعرب رعیت کے ساتھ مخاصمانہ رویے کی بناپر پیدا ہوچکی تھی ۔بہرحال عربوں کی یہ بغاوت اہل فسلطین کے لیے مصائب و آلالم کی ایک طویل رات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔مغربی دیوار کاآخری دروازہ باب القوامہ ہے اور اس سے قبل باب الناظر جس سے ہم داخل ہوکرنماز کیلئے آئے تھے۔