میرے دروازے پر ایک حسن مجسم نغمہ سرا ہوا
جو کہ تمام نازنینوں کیلئے سراپا ہوش ربا تھا
ہر لمحہ وہ ایک دلربا بت کی صورت میں آتاہے
دل چھینتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے
ہر لمحہ محبوب ایک نئے لباس میں ظاہر ہوتا ہے
کبھی جوان تو کبھی پیر
خود ہی کوزہ، خود ہی کوزہ ساز، خود ہی کوزہ کی مٹی
خود ہی جام نوش کرنے والا رند
خود ہی اس کوزہ کا خریدار بن آتا ہے
خود ہی توڑ کر چلا جاتا ہے
یہ ہے مولانا روم کا ایک انداز۔ یوں لگتا ہے گویا عشق الٰہی میں ڈوبا ہوا ایک صوفی جوشاعری کی بھی انتہاپر ہے۔ میں نے جو اشعار درج کئے ہیں اس سے آپ شاید زیادہ اندازہ نہ کر پائیں کہ یہ اشارہ کس کی طرف ہے اس لئے ضروری ہے کہ آپ اس کو سمجھنے کے لئے مولانا رومی کا یہ کلام مکمل سنیں اور پڑھیں۔ سنیں اس لئے کہ اس کو ریاض الدین منشی نے خوبصورتی سے گایا ہے اور جب وہ اس حصے پر پہنچے ہیں کہ وہ خود ہی کوزہ، خود ہی کوزہ گر، خود ہی کوزہ کی مٹی، خود ہی اس کوزہ سے بنا جام کرنے والا رند، خود ہی اس کوزہ کا خریدار اور خود ہی اس کوزہ کو توڑنے والا ہے تو آپ جان لیں کہ یہ اشارہ اللہ ہی کی طرف ہے۔ یہ اللہ ہی ہے بقول رومی کہ جو کبھی آدمؑ کی صورت آتا ہے کبھی یعقوبؑ کی صورت میں اور کبھی یوسفؑ کی صورت میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ یہ سب بھی وہ ان ہی اشعار سے آتے ہی فرماتے ہیں۔ یہ ایسے ہی نہیں تھا کہ حضرت علامہ اقبال نے پیر رومی سے کہا مجھے بھی اس پیر رومی کا خیال ان دنوں یونہی نہیں آیا۔ گزشتہ ہفتے مولانا روم کا جنم دن گزرا ہے اور پوری دنیا میں رومی کو چاہنے والے ان کی یاد ایک ہی رنگ مستی میں منا رہے ہیں۔
مولانا روم جن کو گزرے یوں تو کئی صدیاں بیت گئیں لیکن جہاں ایک طرف یورپ و امریکہ میں ان کے چاہنے والے بڑھتے چلے جارہے ہیں وہیں ترکی و ایران میں ان پر بے پناہ کام ہورہا ہے، کتابیں لکھی جارہی ہیں اور ان کے اشعار کی تشریح کے ساتھ ساتھ ان کے کلام پر مبنی موسیقی اور پھر ناول تحریر ہورہے ہیں۔ ہم مگر شاید ایک الگ ہی دنیا میں رہتے ہیں، پاکستان کی سرزمین نامعلوم کیوں اس حوالے سے زیادہ تر بنجر ہی چلی آرہی ہے۔ پھر بھی اگر آپ یہاں مولانا رومی کے مقام کو جاننا چاہیں تو یو ٹیوب پر احمد جاوید صاحب کے لیکچرز دیکھیں جو اب زیادہ تر خورشید عبداللہ اپ لوڈ کر کے خلق کی دعائیں لے رہے ہیں۔
مولانا روم کی سوانح عمری کو اگر دیکھیں تو وہ جوانی میں ہی اپنے دور کے اکابرین میں شمار ہونے لگے تھے۔ فقہ اور مذہب کے بھی ایک بڑے عالم تھے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر علوم پر رومی کو پوری دسترس تھی۔عہد طالب علمی ہی میں پیچیدہ علوم کو سمجھنے کے لئے ان کے دور کے علما مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ اپنے والد سے مولانا اکثر دینی معاملات میں راہنمائی لیتے تھے لیکن ان کے انتقال کے بعد انہوں نے سیدنا برہان الدین سے روحانی تعلق قائم کیا اور اسی بنا پر انہوں نے مثنوی میں ان کا ذکر اپنے روحانی پیر کی حیثیت سے کیا ہے۔ مولانا کا یہ وہ دور ہے جس میں مولانا پر ظاہری علوم کا ہی غلبہ تھا۔ وہ سماع سے گریز کرتے تھے اور درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن پھر ان کی ملاقات شمس تبریز سے ہوگئی جس نے ان کی دنیا ہی بدل دی۔ کہتے ہیں مولانا اپنے شاگردوں کے ساتھ موجود تھے کہ ایک دن وہاں شمس تبریز کا گزر ہوا۔ مولانا کے گرد اس وقت کتابوں کے ڈھیر تھے۔ شمس نے گزرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ مولانا نے اپنی کتابوں کے ڈھیر کو دیکھا، اس مجذوب صفت درویش کو دیکھا اور کہا کہ یہ تم نہیں سمجھو گے۔
ان کا یہ فرمانا تھا کہ کتابوں کے ڈھیر میں آگ لگی گئی۔ مولانا روم حیران ہوئے۔ ششدر رہ گئے۔ انہوں نے شمس تبریز کی طرف دیکھا جو مسکرا رہے تھے اور حیرت زدگی میں پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ شمس نے جواب دیا یہ تم نہیں سمجھو گے اور وہاں سے چل پڑے۔ اس واقعہ سے مولانا روم کی حالت غیر ہوگئی۔ انہوں نے گھربار کو خیرباد کہا اور شمس تبریز کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد کی زندگی جو مولانا روم نے گزاری وہ شمس تبریز سے ملاقاتوں میں ان کے عشق کے تابع اور ان کی روحانی تعلیم کے زیر اثر گزاری۔ یہ کیسا اثر ہے کہ جو کلام انہوں نے مرتب کیا خواہ وہ مثنوی ہو یا دیوان شمس تبریز اور اس سب کا اثر اب تک پوری دنیا پر ہے۔ ایلف شفق کا ناول ’’محبت کے چالیس اصول ہو‘‘ یا مولانا روم کے کلام کی تشریح میں لکھی گئی شرحیں ہو ان سے متاثر ہونے والوں کی تعداد اب کروڑوں میں ہے۔
جو اشعار میں نے شروع میں درج کئے اس کے آگے تو مولانا روم لکھتے ہیں کہ؎
وہ کبھی یوسفؑ ہوا اور پھر اس نے مصر سے اپنی قمیض بھیجی جس کو یعقوب نے اپنی آنکھوں کو لگایا اور انکی بینائی واپس آگئی، نہیں یہ تو وہی ہے کہ جو آتا تھا اور جاتا تھا اور اسے ہر زمانے میں تم نے دیکھا اور پھر وہ تاجدار دنیاﷺ کی صورت میں آیا اور پھر اسی صورت میں چھا گیا۔