• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی میں حکومت کو لبرل سمجھ رہی تھی اور لڑکیوں کے موٹر سائیکل چلانے پہ خوش تھی کہ سینیٹ میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادی پہ پابندی لگانے کا بل یہ کہہ کر نامنظور کردیا گیا کہ یہ غیر اسلامی ہے۔ مجھے یاد آیا کہ قائد اعظم نے 1929میں ہندوستان اسمبلی میں یہ قانون پاس کروایا تھا کہ لڑکی کی شادی کی عمر 14سال سے کم نہ ہو۔ پھر ایوب خان کے زمانے میں عائلی قوانین کے مطابق لڑکی کی شادی کی عمر 16سال مقرر کی گئی۔ اب جب کہ صوبہ سندھ میں صوبائی اسمبلی نے لڑکی کی شادی کی عمر 18سال مقرر کردی تھی تو توقع تھی کہ پورے ملک میں ایسا ہی قانون بنے گا۔ روشن خیال رضا ربانی کے ہوتے ہوئے بھی یہ بل پاس نہیں کیا گیا۔ اس وقت میں ایسے فیصلے پہ کفِ افسوس مل رہی تھی۔ میرے پاس ایک نوجوان سفارش کے لئے آیا۔ پوچھا ’’تمہاری عمر کتنی ہے۔‘‘ بولا بیس سال پوچھا ’’کیا شادی شدہ ہو۔‘‘ بولا ’’جی 3بچے ہیں۔‘‘ پوچھا کہاں سے ہو۔ بولا ’’مٹھی سے‘‘ میں نے خود ہی کہدیا ’’یقیناً‘‘ اب تمہاری بیوی کی عمر 16برس ہوگی۔ ’’شرما کے کہنے لگا۔ آپ نے درست کہا۔ پوچھا ’’کچھ پڑھے لکھے ہو۔‘‘ آٹھ کلاس تک پڑھا پھر ماں باپ نے خالہ زاد بہن سے شادی کردی۔
یہ حقیقت پورے تھرپارکر میں ہے ۔ خاص کر دیہات میں بارہ سال کی لڑکی کی عموماً شادی کردی جاتی ہے۔ ہر سال بچہ پیدا ہوتا ہے یا تو پیدا ہوتے ہی مرجاتا ہے یا دو چار مہینے کا ہوکر فوت ہوجاتا ہے۔ ادھر زیادہ تر مائیں بھی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ ہر چند اس علاقے میں بہت سی این۔جی۔اوز کام کررہی ہیں۔ جواب یہی ملتا ہے۔ ’’یہ ہمارے علاقے کا دستور ہے۔‘‘ طبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو 12سال کی عمر میں لڑکی کی پوری طرح جسمانی بلوغت نہیں ہوئی ہوتی اور پھر تھر پارکر جیسا علاقہ جہاں جوار کی روٹی اور سرخ مرچ کی چٹنی عام غذا ہو، جہاں بکری کے دودھ کی چائے پی جاتی ہو۔ وہاں جسمانی ساخت کتنی کمزور ہوتی ہوگی۔ جب ڈپٹی کمشنروں سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ یہاں تو عائلی قوانین کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ ہندو کمیونٹی کے لئے تو ابھی تک قانون بنا ہی نہیں ہے۔ مسلمان آبادی میں بھی صرف پڑھے لکھے لوگ شادیوں کی رجسٹریشن کرواتے ہیں، وہ بھی صرف دس فیصد لڑکیاں جو پڑھی لکھی ہوں، ان کی عمر 20برس کے قریب ہوتی ہے۔ اس عمر کو بہت سمجھا جاتا ہے۔ فوراً شادی کردی جاتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر سے پوچھا ’’وہ جو گندم پڑی پڑی سڑجاتی ہے اور تقسیم نہیں کی جاتی ۔ اس کی ذمہ داری کس پر ہوتی ہے ۔ کہا مقامی حکومتوں پر، قبیلہ پروری میں یہ جھگڑے رہتے ہی ہیں۔‘‘
میں یہ لکھ رہی تھی، طاہرہ عبداللہ کا فون آیا، ٹی وی کھولیں۔ چارسدہ یونیورسٹی پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے۔ اب قلم اور گلا خشک ہوگیا۔ یہ کیسا نیا سال چڑھا ہے کہ ادھر تھر پارکر میں 72بچے اور ادھر چار سدہ میں 22نوجوان زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ ابھی تو کہا جارہا تھا کہ اس سال دہشت گردوں کو ختم کردیا جائے گا۔ صرف وزیرستان تو پورا پاکستان نہیں ہے۔ وہ دہشت گرد جو ننگرہار سے قبائلی علاقے اور پشاور سے چارسدہ تک کا فاصلہ طے کرکے آئے۔ ہماری ایجنسیوں کو خبر تک نہیں ہوئی۔ اکیلے راحیل شریف تو سارے ملک میں پھیلے اور سرحد پار سے روزانہ آتے جاتے دہشت گردوں کا قلع قمع نہیں کرسکتے یہ اتنی ساری ایجنسیاں کس کام کی ہیں۔ کیا مولویوں کو جمعہ کا خطبہ تیار کرکے دینے سے، دیہات میں پھیلی شیعہ سنی منافرت ختم کی جاسکتی ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل میںعورتوں کی نمائندگی صرف ایک عورت کرتی ہے اور وہ بھی شایدجماعتِ اسلامی کی ہوتی ہے۔ کیا کوئی اور مذہبی روشن خیال تعلیم یافتہ خاتون دستیاب نہیں ہوتی۔ ویسے بھی خواتین کی نمائندگی کا تناسب صحیح طریقے پر ہونا چاہئے۔ ویسے تو پاکستان اسلامی ریاست قرار دیا جاچکا ہے۔ اس میں نظریاتی کونسل کی ضرورت اور اہمیت ہی نہیں ہے۔ اب جب کہ چار سدہ جیسے وحشت ناک حادثات ہوں تو نہ کوئی جلوس اس کے خلاف نکلتا ہے اور نہ نظریاتی کونسل زبان کھولتی ہے۔
کوئی بیان دینا ہو تو بغیر تصدیق کئے دیا جاتا ہے۔ ابھی تو شرمین کی فلم آسکر کے لئے نامزد ہوئی ہے۔ قطعی انعام تو نہیں دیا گیا۔ ہم نے ڈنکا بجانا شروع کردیا ہے۔ یہ اچھی اور ہمت آور بات ہے کہ عزت کے نام پر قتل ہونے کے موضوع کو فلم کے لئے منتخب کیا جائے۔ ہماری اسمبلی میں بیٹھے ممبران کیا اس دن قرارداد پیش کرکے، اس طرح پاس نہیں کرواسکتے تھے جیسے اپنی تنخواہوں کا بل ایک دن میں مشترکہ طورپر پاس کروالیا تھا یا پھر تھر پارکر کے علاقے میں، شہباز شریف کی طرح غریب لوگوں کے لئے گھر بنانے کی منظوری قائم علی شاہ دے دیتے۔ یہیں تھرپارکر میں چھوٹی صنعتوں کے فروغ کےلئے صوبائی مرکز قائم کرکے، عورتوں کو مصروف کرکے، ان کی آمدنی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ کئی دفعہ کہا گیا ہے کہ صرف ایک ارب روپے سے جو کہ منظور ہوچکے ہیں پورے تھر پارکر کو میٹھا اور صاف پانی مہیا کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسکیم منظور ہوئے تین سال ہوچکے ہیں۔ عملدرآمد کون کرے، میرے بچے تھر پارکر میں اسی گندے پانی کے باعث مررہے ہیں۔ یہ ہمارے بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام والے آخر تھر پارکر پر توجہ کیوں نہیں دیتے۔ جب عالمی سطح پر کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں مردہ بچے پیدا ہونے کی شرح سب سے زیادہ ہے تو ہم عالمی اداروں کو غلط کہہ کر چپ ہوجاتے ہیں۔
تازہ ترین