• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے یہ خواب مسلسل گزشتہ چند ہفتوں سے آ رہا ہے۔ میں قبرستان میں ایک تازہ تیار قبر کے پاس کھڑا ہوں، میں قبر میں اترتا ہوں اور فرش پر لیٹتا ہوں۔ پھر مجھے سخت سردزمین کا احساس ہوتا ہے، اسی وقت آواز آتی ہے باہر آ جائو۔ اماں کو لحد میں اتارنا ہے۔ میں اپنی ماں کی یاد میں رونے لگتا ہوں اور آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ خواب جب پہلی دفعہ آیا تو اسی دن میں نے والدہ کو سپرد کیا تھا۔ میں نے اس خواب کا ذکر اپنے ایک دوست سے اگلے روز کیا۔ میرے دوست کو میرے دکھ اور غم کا اندازہ تھا۔ وہ بھی افسردہ سا ہوا۔ اور کہنے لگا اس راہ پر چل کر سب کو جانا ہے۔ تم نے اپنی والدہ کی جدائی کا اثر زیادہ ہی لے لیا ہے۔ تم اس مشکل گھڑی میں اکیلے ہو اور پھر جب وہ بستر مرگ پر تھیں تم ہی انکے پاس تھے، اسلئے یہ سب دکھ کا اثر ہے۔
میری ماں تقریباً پانچ ہفتےقبل انتقال فرما گئی تھیں۔ اسکے بعد سے لاچاری اور بے بسی ایسی کہ دن میں تاریکی کا احساس رہتا اور پھر ہر دوسرے دن وہ خواب اسی طرح نظر آتا اور باقی رات آنکھوں میں گزر جاتی۔ میری بیوی مجھے سوالیہ نظروں سے تکتی ہے وہ بھی دکھی ہے۔ وہ والدہ کی موت کے وقت ملک سے باہر سفر میں تھی۔ جب اس کواطلاع ہوئی وہ ابھی ایئر پورٹ سے نکلی نہ تھی ۔ وہ الٹے پائوں اسی جہاز سے واپس پلٹ آئی۔ اس نے مجھ سے درخواست کی تھی بی جی کو میرے آنے پر دفن کرنا میں ان کو رخصت کروں گی۔ اس وجہ سے تدفین میں چند گھنٹوں کی تاخیر بھی ہوئی۔ اس نے میری والدہ کو نہلایا اور ابدی زندگی کے سپرد کرنے کیلئے تیار کیا۔ وہ اس سارے عمل کے بعد شانت تھی۔ مگر میرا وجود بکھر رہا تھا۔میری ڈاکٹر بننے والی بیٹی ہم دونوں کو خالی آنکھوں سے دیکھتی ،اپنی تشویش کا اظہار چہرے سے کرتی۔ میں اس سے پوچھتا کیا میں بیمار ہوں وہ آہستہ سے کہتی کوئی مسئلہ ضرور ہے۔ کیا میں خوف کا شکار ہوں، پھر ہر دوسرے دن خواب کا آنا مجھے مسلسل کمزور کر رہا ہے۔ ایک دن ہفتے کا روز تھا لاہور کینٹ میںایک روحانی مہربان کی محفل میں جانا ہوا۔ یہ نشست نجی اپنی نوعیت کی ہوتی ہے۔ عام طور پر گفتگو حالت حاضرہ، معاملات زندگی، سلوک کی منزلیں اور سیاست کے نشیب و فراز پر ہوتی ہے۔ اس دن بھی گفتگو کچھ اسی طرح کی رہی۔ وہ سب کی بات توجہ سے سنتے اور پھر اپنے جواب سے کافی حد تک سوال کرنے والے کی تشفی کر دیتے ہیں۔ اس دن محفل کے اختتام پر میرے ایک مہربان نے ان سے میری بے کلی اور بے بسی کا ذکر بھی کردیا۔ انہوں نے حوصلہ دیا اور کہنے لگے، کچھ دن تو لگیں گے۔ میں ان سے خواب کا ذکر کرنا چاہتا تھا مگر میں بول نہ سکا۔ یہ میری بے بسی کی انتہا ہے کہ میں بند آنکھوں سے بھی ماں کو دیکھ نہیں سکتا۔
ایک وقت تھا کہ خواب سے خوف آتا اور آنکھوں میں رات گزر جاتی۔ اب کچھ دن سے خواب بھی خیال ہوا۔ اب میرا دل چاہتا ہے کہ خواب آئے اور میں قبر میں لیٹ کر زمین کی ٹھنڈک محسوس کروں۔ زمین کی سختی کا احساس ہو اور آواز آئے بی جی کو لحد میں اتارنا ہے۔
یہ سب کچھ کیسے ممکن ہو وہ بھی عجیب سی بات ہے۔ چند دن پہلے میرے دوست اور مہربان نے مجھے اسمارٹ فون پر ڈاکٹر مصطفیٰ اکار کی عربی نظم ’’ماں کے آٹھ جھوٹ‘‘ کے ترجمہ سے اقتباس روانہ کئے۔
’’ماں کے آٹھ جھوٹ‘‘
میری ماں نے ہمیشہ حقیقت بیان کی ہو، ایسا بھی نہیں، آٹھ مرتبہ تو اس نے مجھ سے ضرور جھوٹ بولا،
یہ قصہ میری ولادت سے شروع ہوتا ہے میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی۔ اتنا کھانا نہیں تھا جو سب کو کافی ہو جائے، ایک دن ہمارے گھر کہیں سے چاول آئے۔
میں بڑے شوق سے کھانے لگا وہ کھلانے لگی میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی پلیٹ کے چاول بھی میری تھالی میں ڈال دیئے، بیٹا یہ چاول تم کھا لو مجھے تو بھوک نہیں ہے…یہ اس کا پہلا جھوٹ تھا۔ اور جب میں قدرے بڑا ہوا تو ایک دن مچھلی پکڑنے گیا اس چھوٹی سی نہر سے جو ہمارے قصبے سے گزرتی تھی، یوں ہوا ، دو مچھلیاں میرے ہاتھ لگیں بھاگا بھاگا آیا اور جب کھانا تیار ہوگیا، دونوں مچھلیاں سامنے تھیں اور میں شوق سے کھا رہا تھا، دیکھا کہ ماں صرف کانٹوں کو چوس رہی تھی، میں نے یہ دیکھ کر کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تو وہ کہنی لگی۔تمہیں تو پتہ ہی ہے مجھے مچھلی کا گوشت پسند نہیں تم تو کھائو…اور یہ اس کا دوسرا جھوٹ تھا۔
پھر میرا باپ مر گیا اور وہ بیوہ ہوگئی اور ہم دونوں گھر میں اکیلے رہ گئے۔ کچھ دن میرا چچا بہت اچھا آدمی تھا ہمیں کھانا اور ضروریات زندگی لا کر دیتا رہا۔ ہمارے ہمسائے اسے آتے جاتے غور سے دیکھنے لگے۔ ایک دن انہوں نے ماں سے کہا، زندگی ہمیشہ اس طور پر گزاری نہیں جاسکتی، بہتر ہے کہ تم اس سے شادی کر لو، لیکن میری ماں نے چچا کو ہی آنے جانے سے منع کردیا، مجھے کسی ساتھی کی اور کسی کی محبت کی کوئی ضرورت نہیں ہے…یہ اس کا تیسرا جھوٹ تھا۔ جب میں کچھ اور بڑا ہوا اور بڑے مدرسے جانے لگا تو میری ماں گھر میں ہر وقت کپڑے سینے لگی اور وہ یہ کپڑے گھر گھر جا کر بیچتی تھی۔ سردیوں کی ایک رات تھی اور ماں ابھی تک گھر واپس نہیں آئی تھی۔میں تنگ آ کر اسے ڈھونڈنے باہر نکل پڑا میں نے اسے کپڑوں کا ایک گٹھڑ اٹھائے دیکھا۔ گلیوں میں گھر گھر دروازے کھٹکھٹا رہی تھی۔ میں نے کہا ، ماں چلو اب گھر چلو باقی کام کل کرلینا، کہنے لگی تم گھر جائو، دیکھو کتنی سردی ہے اور بارش بھی ہو رہی ہے۔ میں یہ جوڑے بیچ کر آئوں گی اور فکر نہ کرو میں بالکل ٹھیک ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہے…یہ اس کا چوتھا جھوٹ تھا۔
اور پھر میرا مدرسے سے آخری دن بھی آگیا۔ آخری امتحانات تھے ماں میرے ساتھ مدرسے گئی۔ میں اندر کمرہ امتحان میں تھا اور وہ باہر دھوپ میں کھڑی تھی۔ بہت دیر بعد میں باہر نکلا، میں بہت خوش تھا۔ ماں نے وہیں سے ایک مشروب کی بوتل خریدی اور میں غٹا غٹ پی گیا۔ میں نے شکر گزار نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کے ماتھے پر پسینے کی دھاریں چل رہی تھیں۔ میں نے بوتل اس کی طرف بڑھا دی۔ پیوناں ماں لیکن اس نے کہا تم پیو مجھے تو بالکل پیاس نہیں ہے… یہ اس کا پانچواں جھوٹ تھا۔
اور جب میں یونیورسٹی سے فارغ ہوگیا تو نوکری مل گئی میں نے سوچا مناسب وقت ہے کہ ماں کو کچھ آرام دیا جائے اس کی صحت پہلے جیسی نہیں تھی اس لئے وہ گھر گھر پھر کر کپڑے نہیں بیچتی تھی بلکہ بازار میں ہی زمین پر دری بچھا کر کچھ سبزیاں وغیرہ فروخت کر آتی تھی۔ جب میں نے اپنی تنخواہ میں سے کچھ حصہ اسے دینا چاہا تو اس نے نرمی سے مجھے منع کردیا، بیٹا ابھی تمہاری تنخواہ تھوڑی ہےاسے اپنے پاس رکھو جمع کرو، میرا تو گزارہ چل رہا ہے اتنا کما لیتی ہوں جو مجھے کافی ہو جائے… اور یہ اس کا چھٹا جھوٹ تھا۔
اور جب میں کام کے ساتھ ساتھ مزید پڑھنے لگا اور مزید ڈگریاں لینے لگا تو میری ترقی بھی ہوگئی، میں جس جرمن کمپنی میں تھا انہوں نے مجھے اپنے ہیڈ آفس جرمنی بلا لیا اور میری نئی زندگی کی ابتدا ہوئی۔ میں نے ماں کو کہا اور اسے وہاں میرےپاس آنے کو کہا، لیکن اسے پسند نہ آیا کہ مجھ پر بوجھ بنے، کہنے لگی کہ تمہیں تو پتہ ہے میں اس طرز زندگی کی عادی نہیں ہوں، میں یہاں پر ہی خوش ہوں …یہ اس کا ساتواں جھوٹ تھا۔اورپھر ماںبہت بوڑھی ہوگئی۔ ایک دن مجھے پتہ چلا اس کو سرطان ہوگیا ہے۔ مجھے اس کے پاس ہونا چاہئے لیکن ہمارے درمیان مسافتیں حائل تھیں۔ پھر جب اسے اسپتال پہنچا دیا گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا، میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ اس کے پاس وطن واپس آگیا۔ وہ بستر پر تھی مجھے دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکان آگئی۔ مجھے اسے دیکھ کر دھچکا سا لگا اور دل مسلنے لگا، بہت کمزور بہت بیمار لگ رہی تھی، یہ وہ نہیں تھی جس کو میں جانتا تھا، میر ی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ لیکن ماں نے مجھے ٹھیک طرح رونے بھی نہ دیا۔ میری خاطر پھر مسکرانے لگی۔نہ رو میرے بیٹے مجھے بالکل کوئی درد محسوس نہیں ہو رہا… یہ اس کا آٹھواں جھوٹ تھا۔اس کے بعد اس نے آنکھیں موند لیں اس کے بعد آنکھیں کبھی نہ کھولیں۔اس نظم نما تحریر نے کئی دن بے کل رکھا، مگر مجھے خواب سے نجات بھی ملی۔وہ خواب میرا جھوٹ تھا کہ ماں مر گئی ہے۔ ماں کی محبت، الفت اور شفقت کی تلافی نہیں اور اپنے سلوک کی معافی نہیں۔ یہ وہ بے بسی ہے جس کا مداوا بھی نہیں۔ اب جن حالات میں وطن عزیز کو دیکھتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ہمارا دیس وہ ماں ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں۔
کسی کو گھر ملا کسی کے حصے میں دکان آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصہ میں ماں آئی
تازہ ترین