• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عزت کروانی ہے تو سیاست میں اخلاقیات کو مدنظر رکھیں

سینیٹ کے انتخابات کے بعد سیاسی پارٹیوں کی ساری توجہ اب پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب پر مرکوز ہو گئی ہے اور امیدواروں کی نامزدگی اور کامیابی کیلئے جوڑ توڑ شروع ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ ن 33نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری ہے۔ اس کی اتحادی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف) ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور فنکشنل مسلم لیگ کے علاوہ فاٹا ارکان کی روایتی حمایت کے ساتھ بادی النظر میں اسے 104کے ایوان میں مناسب عددی اکثریت حاصل ہو سکتی ہے جو ان دونوں عہدوں پر اس کے امیدواروں کی کامیابی کے لئے کافی ہے لیکن سینٹ کے ریٹائر ہونے والے ارکان کی جگہ نئے ارکان کے انتخاب میں ووٹوں کی خرید وفروخت کے حوالے سے غیر اخلاقی، غیر قانونی ہتھکنڈوں کے جو مظاہر دیکھنے میں آئے ان کے پیش نظر تجزیہ کاروں کا یہ کہنا درست ہے کہ نیا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کون اور کس جماعت سے ہو گا،اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ پیپلزپارٹی 20نشستوں کے ساتھ سینیٹ میں اب دوسری بڑی پارٹی ہے۔ اسے جیت کے لئے مزید33ارکان کی حمایت درکار ہے بظاہر یہ ہدف اتنا آسان نہیں لیکن پارٹی کے لیڈر پرامید ہیں کہ وہ یہ ہدف حاصل کرلیں گے۔ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو کھل کر چیلنج دیا ہے کہ ن لیگ اگر اکثریتی پارٹی ہے تو اپنا چیئرمین بنا کر دکھائے۔ آنے والے عام انتخابات کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ان کا یہ بیان مخالفین کے اعصاب شل کرنے کا ایک نفسیاتی حربہ ہے لیکن یہ بات اب صیغہ راز میں نہیں رہی کہ سینیٹ کے انتخابات میں چاروں صوبائی اسمبلیوں کے قابل لحاظ تعداد میں ارکان نے پارٹی ڈسپلن توڑتے ہوئے مبینہ طورپر پیسے لے کر مخالف پارٹیوں کے امیدواروں کو ووٹ دیئے۔ پنجاب اسمبلی کے کم سے کم ایسے 12ارکان کے بارے میں پارٹی کی سطح پر تحقیقات شروع ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے 20ارکان نے اپنے ووٹ بیچے۔ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ہمارے 12ارکان نے اپنے ووٹروں کے خون کا سودا کیا، فاٹا کے ایک رہنما بھی ووٹوں کی خرید و فروخت کا الزام لگا رہے ہیں ایسے میں اگر کوئی پارٹی دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ جوڑ توڑ کے ذریعے سینٹ میں اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی تو کسی کو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ سیاست میں نیک نیتی کے ساتھ مختلف الخیال پارٹیوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم سے اس طرح کے سمجھوتے ہوتے رہتے ہیں اور اتحاد بنتے رہتے ہیں لیکن دولت اور سرمائے کے استعمال سے ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے کسی کی شکست اور کسی کی فتح یقینی بنانا سیاست میں اخلاقی زوال کی بدترین مثال ہے بدقسمتی سے ہماری تقریباً ساری جماعتیں اس بیماری میں مبتلا ہیں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اسے جمہوریت پر بدنما داغ قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے اس کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو جیت ہی کو اہمیت نہیں دینی چاہئے اور جیت یا ہار سے قطع نظر سیاست صرف اخلاقی بنیادوں پر کرنی چاہئے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں سیاسی اخلاقیات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے جو اس معیار پر پورا نہ اترے اس سے قیادت کا حق چھین لیا جاتا ہے ہمارے ہاں بھی ایسی روایات قائم ہونی چاہئے۔ غیر اخلاقی سیاسی ہتھکنڈے جمہوریت کی خامی نہیں، سیاسی پارٹیوں میں پا ئی جانے والی خرابی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئےاجتماعی طور پراس کے خلاف کھڑی نہ ہوئیں تو عوام کے اعتماد سے محروم ہو جائیں گی اور یہ جمہوریت ہی نہیں ملک اور قوم کے لئے بھی بڑا نقصان ہو گا اس لئے سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور اور پروگرام پر عملدرآمد ا ور کامیابی کیلئے صرف جائز جمہوری طور طریقے اختیار کرنے چاہئیں اور ہارس ٹریڈنگ جیسی لعنت کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دینا چاہئے۔

تازہ ترین