• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالم بالا،ساتواں آسمان
محلّہ جمہوریت
رہائش بمطابق آئین 1973ء
جمہوری ہم وطنو!
السلام علیکم! مجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے عالم بالا آئے ہوئے 15سال گزر گئے، کئی بار میرا دل چاہا کہ میری چھوڑی ہوئی روایت کے مطابق میرے بعد کوئی نیا جمہوری اتحاد بنے، کوئی نئی جمہوری تحریک چلے،مگر افسوس ہے کہ میرے گزر جانے کے بعد سے نہ ہی کوئی مؤثر سیاسی آل پارٹیز کانفرنس ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی موثر سیاسی اتحاد بنا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ہمیشہ پرامن تحریکیں چلائیں، کبھی دھرنا نہیں دیا، کبھی ٹی وی اسٹیشن پر حملہ نہیں کیا، کبھی ایوان وزیراعظم کا گھیرائو نہیں کیا ہمیشہ مہذب زبان استعمال کی اور پرامن طریقوں سے ہی حکومتوں کی تبدیلی کو ممکن بنایا اور تو اور میں نے کبھی بھی سیاسی معاملات انصاف کے ایوانوں یا پھر طاقت کی راہداریوں کے ذریعے طے نہیں کروائے میرا واحد سہارا صرف اور صرف عوامی قوت تھی۔
اے آئین کے وفادارو!
میں عالم بالا میں گزرے 15سال کی تفصیلی کہانی سنائوں تو کئی کتابیں لکھی جائیں(مجھے سن کر افسوس ہوا کہ میری لکھی ہوئی ڈائریاں ضائع ہوگئیں حالانکہ ان کی مدد سے پوری سیاسی تاریخ مرتب کی جاسکتی تھی)۔قصہ مختصر یہ ہے کہ گزشتہ 15سال کی دوستیوں اور رابطوں کے نتیجے میں کل عالم بالا میں پہلی بار پاکستان آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی، فیصلہ یہ ہوا تھا کہ کسی طالع آزما یا فوجی آمر کو کانفرنس میں مدعو نہیں کیا جائے گا۔ مسٹر جناح، مس فاطمہ جناح کے ہمراہ پنڈال میں آئے تو حسین شہید سہروردی اور ذوالفقار علی بھٹو نے استقبال کیا، جمہوری ائیر مارشل اصغر خان نے کانفرنس میں پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں مارشل لاء لگانے والوں کا جس طرح عالم بالا میں کھلا حساب کتاب ہوا ہے اسی طرح 1973کے آئین کے آرٹیکل 6کے تحت ان پر مقدمات چلا کر انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ میں نے مسٹر جناح سے خصوصی طور پر حقہ پینے کی اجازت لے رکھی تھی اور میں سٹیج پر مسلسل اسے گڑگڑارہا تھا۔ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو تقریر کے لئے بلایا گیا تو دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ سہروردی نے پرجوش انداز میں کہا کہ ایوب خان کو علامتی پھانسی ملنی چاہئے کیونکہ اس نے پاکستان بنانے والوں کو ایبڈو کرکے سیاست کے لئے نااہل کردیا۔ سہروردی نے جذباتی انداز میں کہا کہ اب عمران خان کو چانس ملنا چاہئے بعض جمہوری اور غیر جمہوری قوتیں اس کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔ سہروردی نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ کھل کر جمہوری راستے پر گامزن ہوجائے،اگر وہ ایمپائر کے اشارے اور دوسروں کی آشیرباد کا انتظار کرتا رہا تو پھر کبھی اپنی منزل تک پہنچ نہیں سکے گا۔ سہروردی نے بتایا کہ انہوں نے ایک دوست کے ذریعے عمران کو پیغام دیا ہے کہ وہ اداروں کے دفاع کی سیاست کی بجائے اپنا بیانیہ مزاحمتی باغیانہ اور سیاسی رکھے کیونکہ دفاعی بیانیہ سے عمرانی سیاست کو نقصان پہنچا ہے۔ سہروردی صاحب کے بعد میری باری آئی تو میں نے حقے کو ایک طرف کیا اٹھنے لگا تو خود جناح صاحب نے مجھے تھپکی دی مس فاطمہ جناح نے انہیں ایوب دور میںجمہوریت کی بحالی کے حوالے سے میری خدمات کا ذکر کر رکھا تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس وقت پاکستان میں 1973کے آئین کو تباہ کرنے اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کی کوشش کی جارہی ہے، میں نے واضح موقف اختیار کیا کہ اس وقت نواز شریف کا جمہوری بیانیہ ہی واحد راستہ ہے جس پر چل کر جمہوریت کی حقیقی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔ آخری تقریر جناح صاحب کی تھی، وہ کریون اے کا سگریٹ سلگاتے ہوئے سٹیج پر گئے اور کھل کر کہا کہ پاکستان بنانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ ہر شہری کو جمہوری حقوق ملیں، اقلیتوں کے ساتھ برابری کا سلوک ہو۔ محمد علی جناح نے کہا کہ آمروں نے پاکستان کی ترقی کو روکا، مشرقی پاکستان کو توڑنے کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے کہا کہ فوج اور عدلیہ کو یہ عزم کرلینا چاہئے کہ کچھ بھی ہو اب کسی طالع آزما کو پھر سے موقع نہیں دینا۔ انہوں نے پاکستانی ججوں کو نصیحت کی کہ وہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس شیخ عبدالرشید کی طرح غیر سیاسی، مدبرانہ رویہ اختیار کریں۔
پیارے دوستو!
آل پارٹیز کانفرنس کی روئیداد سنانے کا مقصد عالم بالا میں موجود جمہوری رویوں کی نشاندہی کرنا تھا، تاکہ ارض وطن پر بھی انہی رویوں کو فروغ ملے۔ عالم بالا میں ان دنوں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بہت لے دے ہورہی ہے۔ جناح صاحب اور بھٹو صاحب دونوں کا کہنا تھا کہ ہم ملک کو ماڈرن ا سٹیٹ بنانا چاہتے تھے مگر ہم پر دہشت گردی کو فنانس کرنے کا الزام لگ رہا ہے جو کہ انتہائی افسوس کی بات ہے۔ بھٹو صاحب نے ڈیوی ڈاف سگار سلگا رکھا تھا اسی دوران سیکرٹری خارجہ عزیز احمد کو بلا کر پوچھا کہ فوراً ایسا کیا کیا جائے کہ ہم پر سے یہ الزامات ختم ہوجائیں تو عزیز احمد نے فوراً جواب دیا کہ فوراً ایک کانفرنس بلا کر فوج ، عدلیہ اور اہل سیاست کو اکٹھے بٹھایا جائے اور طے کیا جائے کہ اب ریاستی پالیسی بدلی جارہی ہے، دہشت گردی سے متعلق کسی بھی سرگرمی کو اب سختی سے کچل دیا جائے گا۔ جناح صاحب بولے تو اس میں رکاوٹ کیا ہے ؟ بھٹونے کہا کہ ضیاء کے کچھ حامی ابھی تک گند ڈالتے رہتے ہیں اور پاکستان سے اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھ کر اسے دنیا کا نشانہ بنوارہے ہیں۔ جناح، بھٹو اور سہروردی نے اتفاق کیا کہ پاکستان کو یکسر پالیسی بدل کر دنیا کو واضح پیغام دینا چاہئے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور یہاں جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہوگا اس کے خلاف جنگ لڑی جائے گی۔ عالم بالا میں موجود جمہوریت پسندوں کا خیال ہے کہ پاکستانی جمہوریت کے لئے 2018کا سال خطرناک ہے۔ مارشل لاء کا امکان نہیں لیکن سویلین آزادیاں ، میڈیا کی آزادی اور بعض سیاسی سرگرمیاں مشکل کا شکار ہوں گی۔ سب کا اتفاق تھا کہ پاکستان کی بقاء اور خوشحالی کاواحد راستہ جمہوریت ہے سویلین بالادستی ہی جمہوریت کو یقینی بنائے گی، تاریخ کا پہیہ گھومے گا تو جمہوری آزادیوں کا گلا گھونٹنے والے خود شرمندہ ہوں گے۔ آپ کا بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان۔

تازہ ترین