• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین، روس اور امریکہ کے درمیان جوہری خوف برقرار رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ قابل بھروسہ میزائل ڈھال بنانے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے جو تینوں ممالک کے لئے ایک چیلنج ہے کیونکہ کوئی بھی میزائل ڈھال بنانے میں تاحال کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ پھر امریکہ کے اعلان شدہ ہتھیاروں سے بہتر یا امریکہ جیسے ہتھیار اور میزائل کے، اس کے مد مقابل قوتوں نے تجربات کرنا شروع کردیئے ہیں، اس لئے اچانک ایٹمی میزائل ڈھال بنانے کی کوششوں میں تیزی آگئی ہے اور یہ خیال کیا جارہا ہے کہ کوئی خوف موجود نہیں ہے جو کسی ملک کو اس پر حملے کرنے سے روک سکے۔ ماسکو اور بیجنگ نے حال ہی میں اپنی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے، روس نے 12 فروری 2018ء کو میزائل A-135 میزائل کا، جبکہ چین نے 5 فروری 2018ء کو Midterm میزائل کا مظاہرہ کیا جس کوDong Neg-3 (DN-3/hoog) DF-21 میڈیم رینج میزائل کہاجارہا ہے جن کی وجہ سے وہ تین Midterm دشمن کے طیاروں کو حملے سے پہلے روکنے والے ہوائی جہاز یا میزائل کے ذریعے فضا میں ہی تباہ کرسکتا ہے۔ DN-3 دشمن کے سیٹلائٹ کو بھی تباہ کرسکتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کے سائنس داں یہ کوشش کرر ہے ہیں کہ وہ ہمہ جہتی بیلسٹک میزائل بنائیں جو زمین سمندر اور فضا سے حملہ آور میزائل کو روک سکے۔ اس کے پاس کئی قسم کے میزائل ہیں خصوصاً راستے میں روکنے والا میزائل اور Thaad میزائل کے علاوہ اور بھی کئی کی موجود گی کی اطلاع ہے مگر اب اس پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ روس نے انتہائی تباہ کن ایٹمی ہتھیار تیار کرلئے ہیں اور یہ جدید ترین ایٹمی میزائل دُنیا میں کہیں بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں جبکہ ان میزائلوں کو امریکی دفاعی نظام بھی نہیں روک سکے گا۔ روسی صدر نے اپنے خطاب کے دوران ایٹمی ہتھیاروں کی ویڈیوز دکھاتے ہوئے کہا کہ اب امریکہ روس کو سلامتی اور تحفظاتی نظام کے حوالے سے کمتر سمجھنا بند کرے اور برابری کی سطح پر بات کرے۔ اس ویڈیو کو دیکھا جائے تو وہ آواز سے 20گنا رفتار سے یعنی چشم زدن میں دشمن پر جا گرتا ہے۔
ایک ویڈیو میں روس کے میزائلوں کو بحر اوقیانوس کو پار کرتے دکھایا گیا ہے۔ روسی صدر نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران کہا کہ روس نے آبدوز سے چھوڑے جانے والے ڈرون بھی تیار کر لئے ہیں جو ایٹمی حملے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں ۔ روسی صدر کے اس بیان اور خصوصاً روسی صدر پیوٹن کی طرف سے یہ اعلان کہ اس نے ناقابل تسخیر ہائپر سونک ہتھیاروں اور آبدوزوں کی نئی نسل تیار کرلی ہے، کے بعد امریکہ نے روس پر الزام لگایا کہ وہ عالمی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اگرچہ امریکہ نے خود 1972ء کا میزائل اور ہتھیار بنانے کا معاہدہ 2002ء میں ختم کردیا تھا۔ اس لئے اس کا یہ الزام غلط ہے، البتہ اُس کو یہ فکر دامن گیر ضرور ہوگئی ہے کہ روس اور چین اس پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں، اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اس نے جدید ہتھیا ر بنانے پر توجہ دینی شروع کردی ہے۔ امریکہ جو دُنیا کے کئی ملکوں میں خونریزی اور خانہ جنگی کو ہوا دیتا رہا ہے اور وعدہ خلافی کرتا رہا ہے ، یاد رہے کہ امریکہ نے روس کے سابق صدر گورباچوف سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سویت یونین کے ٹوٹنے اور 15ممالک کو آزاد کرنے کے بعد روس کو مزید مشکلات میں نہیں ڈالے گا تاہم اس نے یوکرائن کے ذریعے روس کو تنگ کرنا شروع کیا اور وہاں کافی گڑبڑ شروع کردی۔ روس نے کریمیا پر قبضہ کیا اور مشرقی یوکرائن میں جہاں روسیوں کی کافی بڑی آبادی ہے وہاں خانہ جنگی کرادی اور امریکہ نے یوکرائن کی منتخب حکومت کو گرا کر اپنی پسند کی حکومت بنا ئی، اس کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے بیشتر ممالک میں اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ وہ ہر طرح سے دُنیا پر اپنی بالادستی قائم رکھنے کا خواہاں ہے، 1989ء میں روس کی افغانستان میں پسپائی کے بعد وہ دُنیا کی واحد سپر طاقت بنا، اس نے اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے انسانوں کا خون بہانا، دُنیا کے ہر ملک میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھا اور مسلمانوں کو تو اُس نے خاص ہدف بنا یا، چنانچہ اب تک وہ سات مسلم ممالک کو تباہ کر چکا ہے۔ چین نے معاشی طور پر ترقی کرنا شروع کی تو امریکہ کو تشویش ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017ء میں ایسی اشیا جو وہ چین سے خریدتا ہے اُس کو اپنے ملک میںبنانے کی پالیسی وضع کی تاکہ چین پر انحصار ختم ہو، کیونکہ چین ایک پٹی اور ایک سڑک کا منصوبہ پیش کرچکا تھا، جس کو امریکہ نے اپنی بالادستی کے خلاف چیلنج کے طور پر لیا اور بھارت، آسٹریلیا، جاپان، منگولیا، ویت نام اور دیگر ممالک کو چین کے خلاف جمع کرنا شروع کردیا۔ ان میں سے ہر ملک نے اپنے اپنے طور پر چین کے خلاف دائرئہ کار بڑھانا شروع کیا ، مثال کے طور پر بھارت پاکستان کے خلاف اپنی بھرپور سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، وہ ایران اور اومان کی بندرگاہوں کو پاکستان کی گوادر بندرگاہ جو پاک چین اقتصادی راہداری کا اہم جزو ہے ،کو گھیرنے میں استعمال کررہا ہے۔ اس کے بعد چین اور پاکستان نے بھی اپنی بری، بحری اور فضائی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے دشمن کو خبردار کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ہر طرح کے حملے اور خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں، چنانچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان میزائل کی دوڑ تو نہیں جاری تاہم اگر بھارت میزائل کا تجربہ کرتا ہے تو پاکستان اس کے بعد بھارت کو بتا دیتا ہے کہ وہ بھی دفاعی نظام کے حوالے سے غافل نہیں، اس طرح چین نے امریکہ کے سائبر حملے سے بچائو کے لئے کوانٹم سیارہ Quantum Satellite کے ذریعے برتری حاصل کی ہوئی ہے جس کا توڑ امریکہ ایک سال سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود حا صل نہ کر سکا اس لئے وہ کافی فکر مند نظر آتا ہے، پاکستان کے ساتھ اس کا رویہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد کا بدل گیا ہے، اب پاکستان اور خود امریکہ اس رویہ میں بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں، البتہ پاکستان کی بھی یہ ہی ترجیح ہے کہ وہ ایٹمی حملے سے بچائو کیلئے کو ئی دفاعی نظام بنالے کیونکہ ایٹمی حملے سے محفوظ ہونے کیلئے ڈھال کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔

تازہ ترین