تابناک تاریخ رکھنے والی، باکمال لوگ لاجواب سروس جیسی شہرت کی حامل، ماضی کی نمبرون ائیرلائن پی آئی اے کے تذکرے پر ہر محب وطن پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے، خاص طور پر جب آپ نے اس عظیم ادارے کا عروج اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، ایک ایسا کامیاب ادارہ جس نے امارات ائیر لائن سمیت آج کی کئی نامور فضائی کمپنیوں کی تشکیل کیلئے افرادی قوت اور تربیت فراہم کی، آج کرپشن، سیاسی بھرتیوں اور لوٹ مار کے باعث نت نئے اسکینڈلز کی زد میں ہے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پی آئی اے میں انتظامی اور مالی بحرانوں کے ساتھ منشیات کی اسمگلنگ کے پیش آنے والے پے درپے واقعات عالمی برادری کے سامنے ہماری خفت اور شرمندگی کاباعث نہ بنتے ہوں۔ ایک زمانہ وہ تھا جب پی آئی اے چین کو امریکہ سے منسلک کرنے کا واحد ذریعہ تھا اور آج قومی ایئرلائن سکڑتے سکڑتے29 بین الاقوامی اور 21 ملکی روٹس تک محدود ہوگئی ہے،کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے اربوں روپے کے فضائی روٹ کوڑیوں کے مول بک رہے ہیں، طیاروں کی کمی کے باعث نہ صرف پی آئی اے کی اندرون ملک پروازوں کا شیڈول بری طرح متاثر ہورہا ہے بلکہ مسافروں کی تعداد میں بھی واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ میں صرف مسائل نہیں بلکہ بہتری کیلئے تجاویز بھی پیش کرتا ر ہوں۔ میں نے اپنے کالم ’’پی آئی اے بحران کا ایک نکاتی حل‘‘ میں قومی ایئرلائن کی ازسرنو تجدید کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیںرائٹ پرسن ایٹ رائٹ پلیس کی پالیسی اپناتے ہوئے سب سے پہلے پی آئی اے کو سیاسی دبائو سے آزاد کرنا ہوگا۔ آج اس حقیقت سے کوئی انکاری نہیں ہوسکتا کہ پی آئی اے کو شدید خسارے کا سامنا ہے، میری ناقص معلومات کے مطابق پی آئی اے پر پرانا قرضہ (ڈیبٹ) لگ بھگ 218بلین روپے کا ہے، یہ وہ قرضہ ہے جو سابقہ حکومتوں کی منظوری سے لیا گیا اور پی آئی اے کو ماہانہ 2بلین مارک اپ کی صورت میں نقصان کا باعث بن رہاہے۔ اس وقت پی آئی اے میں 94فیصد حکومت کے شیئرز ہیں جبکہ 4فیصد دیگر حکومتی اداروں اور 2فیصد نجی سرمایہ کاری ہے۔ اب پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں کرنے والے چاہتے ہیں کہ پی آئی اے کے مزید 43فیصد شیئر مارکیٹ میں فروخت کیلئے پیش کردیئے جائیں، حالیہ خسارے کی صورتحال کے مدنظر میرے اندازے کے مطابق پی آئی اے کے شیئرز پانچ روپے سے زائد کوئی نہیں خریدے گا، کیا ہماری قومی پہچان کو اس طرح کوڑیوں کے مول فروخت کیلئے پیش کرنا چاہئے؟ اس سوال کا جواب کسی بھی محب وطن شہری سے پوچھا جائے تووہ یہی کہے گا کہ قومی ادارے کسی بھی ملک و قوم کی پہچان ہواکرتے ہیں، پاکستان کی پہچان سبز ہلالی پرچم میں ملبوس پی آئی اے کے طیاروں کو فضاؤں میں رواں دواںرکھنا ہم سب کا قومی فریضہ ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عالمی معیا ر کی نجی ایئرلائنز بنانے والے کبھی پی آئی اے کے ہی ملازم ہواکرتے تھے، آج اگر دیگر فضائی کمپنیوں کے مقابلے میں پی آئی اے پیچھے رہ گئی ہے تو اسکی وجہ صرف ہماری ناکارہ پالیسیاں ہیں، اگر نجکاری کے عمل کے نتیجے میں کوئی دوسرا پی آئی اے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتا ہے تو حکومت تمام وسائل کے باوجود کیوں قاصر ہے؟ میرے خیال میں کسی بھی ادارے کی کامیابی کا دارومدارنجکاری یا سرکاری ہونے پر نہیں بلکہ قابل لیڈرشپ، محنتی ورکرز اور سب سے بڑھ کر درست پالیسیوں کے نفاذ پر ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح پی آئی اے پر218 بلین روپے کا قرضہ حکومتوں کی منظوری سے چڑھا، یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے کو اس قرضے سے آزاد کرانا بھی اخلاقی طور پر حکومت ہی کی ذمہ داری ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پی آئی اے کو بھاری قرضوں کے چنگل سے چھڑانے کیلئے حکومت کو فوری طور پر لانگ ٹرم پالیسیاں مرتب کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئے اور اس کا اثر کسی صورت پی آئی اے کی موجودہ انتظامیہ یا آپریشنز پر نہیں پڑنا چاہئے۔ آج پی آئی اے کی کُل پروازوں میں 5اعشاریہ 7ملین افراد سالانہ بنیادوں پر سفر کرتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق پی آئی اے کی اندرون ملک پروازوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی شرح 70فیصد جبکہ بیرون ملک 25فیصد کے قریب ہے، پی آئی اے کو آپریشنل اخراجات کی مد میں ماہانہ ایک ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے، میرے خیال میں پی آئی اے کو مارکیٹ رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید تقاضوں پر استوار کرنا ہو گا جبکہ حکومتی سطح پر اوپن اسکائی پالیسی کے بجائے فیئر اسکائی پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جس سے پی آئی اے کے ساتھ مقامی ایوی ایشن انڈسٹری کو بھی فروغ مل سکتا ہے،گزشتہ دنوں ایک خبر میری نظر سے گزری کہ خود امریکہ میں امریکی فضائی کمپنیوں نے کانگریس میں اوپن سکائی پالیسی کے منفی اثرات پر ایک رپورٹ جمع کرائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی آئی اے اپنے شیئرز کو کوڑیوں کے مول بیچنے کی بجائے اپنے روٹس مکمل طور پر موثر انداز میں استعمال کرے، پی آئی اے کواپنے مسافروں کی سالانہ تعداد میں اضافے کیلئے اہداف کا تعین کرنا ہوگا، پی آئی اے کو بحران سے نکالنے کیلئے ایوی ایشن پالیسی پر نظرثانی کی جائے کہ پی آئی اے کے مقابلے میں دیگر عالمی ایرلائنز کے کرائے کم از کم تیس فیصد زائد ہوں جس سے ہمارا ٹیکس ریوینو بھی بڑھے گا اور پی آئی اے کا عالمی فلائٹس شیئر پچیس سے پچاس فیصد تک پہنچ سکتا ہے، اس طرح ہم ایک سال کے اندر ایک ارب روپے سالانہ نقصان کو ایک ارب سالانہ منافع میں بدلنے کے قابل ہوسکیں گے۔ پارلیمنٹ میںموجود عوامی نمائندوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے پی آئی اے جیسے قومی اثاثے کی حفاظت کیلئے اپنا کردار ادا کریں، یہ بہت ضروری ہے کہ موثر قانون سازی کرکے قومی اداروں میں میرٹ اور کوٹے کے مطابق بھرتی کا عمل یقینی بنایا جائے تاکہ کوئی بھی سیاسی، سفارشی اور راشی میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے خلاف قانون ملازمت حاصل نہ کرسکے، یہ میرا اپنا مشاہدہ بھی ہے کہ پسند ناپسند کی بنیاد پر اہم اداروں پر مسلط ہونے والوں کی تمام تر توجہ کارکردگی کی بجائے ذاتی مراعات کے حصول تک ہی محدود ہوتی ہے، ہمیں سیاسی کارکنان کو قومی اداروں میں کھپانے کے رحجان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں نجکاری کا خیال ذہن سے نکال کر قابل، محنتی اور مخلص ورکرز کی ایک ایسی ٹیم بنانے کی ضرورت ہے جو چیلنج سمجھ کر پی آئی اے بحران کے خاتمے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے، اس کیلئے پی آئی اے کو سزا و جزا کا نظام متعارف کرانا ہوگا، جو اچھا کام کرے اسکو سراہا جائے جبکہ پی آئی اے میں موجود بدعنوان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پی آئی اے کی ترقی و سربلندی کا خواب تب ہی شرمندہ تعبیر ہوسکے گا جب اعلیٰ انتظامیہ کو سیاسی دباؤ سے محفوظ رہتے ہوئے ادارے کے مفاد میں درست فیصلے کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998