• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لائبہ نعمان
لائبہ نعمان | 23 مارچ ، 2018

23مارچ 1940 والا پاکستان

یوم پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے ۔ اس دن قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا گانہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی تھی۔وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور اسی دن 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا۔ جس کے نتیجہ میں ملک دنیا کا پہلا اسلامی جمہوریہ بنا۔ 23 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے علاحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے


اس قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔

 23مارچ 1940 والا پاکستان
قائداعظم خطاب کرتے ہوئے

مولانا ظفر علی خان اور قائد اعظم محمد علی جناح مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنما چودھری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔ حضرت مجدد الف ثانی بر صغیر میں پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا ۔ پھر شاہ ولی اللہ ، سر سید احمد خان علامہ اقبال اور دیگر علمائے کرام نے نظریہ پاکستان کی وضاحت کی ۔ بر صغیر میں مختلف مسلم ادارے اسی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوئے اور کئی تحریکیں اسی نظریے پرچار کے لیے معرض وجود میں آئیں ۔

 23مارچ 1940 والا پاکستان
قائداعظم لوگوں کے ساتھ

قائد اعظم نے قرار دار لاہور 23، مارچ 1940ء کے صدارتی خطبے میں اسلام اور ہندو مت کو محض مذاہب ہی نہيں بلکہ دو مختلف معاشرتی نظام قرار دیا ۔ ہندو اور مسلمان نہ آپس میں شادی کر سکتے ہيں نہ ایک دستر خوان پر کھانا کھا سکتے ہيں ۔ ان کی رزمیہ نظمیں ، ان کے ہیرو اور ان کے کارنامے مختلف ہيں ۔ دونوں کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے قائداعظم نے کہاکہ : ’’میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہيں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہيں‘‘

مارچ، 1909ء میں ہندو رہنما منرو ا راج امرتسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موقع پر خطاب کرنے کی دعوت دی ۔ علامہ اقبال نے نہ صرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کر دیا بلکہ آپ نے مہمان خصوصی بننے سے بھی انکار کر دیا ۔ آپ نے فرمایا: ’’میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیاز مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی شخصیت کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے مفید ہے ۔ “

 23مارچ 1940 والا پاکستان
قائداعظم اور لیاقت علی خان سمیت دیگر مسلم لیگی ارکان

اگر تاریخ دیکھیں تو تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ، 1940ء کے جلسے کو قرار دیا جا سکتا ہے ۔ آج کل کچھ لوگ پاکستان کے صوبوں کے ناموں میں اضافے پر بحث کررہے ہیں ۔۔ جوکہ بہت غلط ہے پاکستان کا نظریہ ایک پرچم کے سائے میں متحد رہنا ہے۔پاکستانیوں کا نظریہ ایک ، دین و قرآن ایک ، بہت سی باتیں ایک ہیں اور تجزیہ کار صوبائی تقسیم میں مزید اضافہ ملک کے لیے بہتر تصور نہیں کرتے ۔

قیام پاکستان کا مقصد‘ اسلام کی سربلندی قائم کرنے کیساتھ ساتھ پاکستان میں قیام پذیر دیگر مذاہب کو بھی انکی مذہبی آزادی کےساتھ زندگی بسر کرنے کی آزادی دینا تھا اور انتہاءپسندی کا مکمل خاتمہ کرکے خطے میں مستقل امن کا قیام ممکن بنانا تھا۔