• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 
لاغر جسم کا آہنی آدمی :اسٹیفن ہاکنگ

زمین، آسمان،چاند، سورج، سمندر، پہاڑ، چٹیل میدان،سر سبز و شاداب وادیاں، بہتے جَھرنے، گِرتے آبشار… انسان کے لیے کائنات کے یہ تمام مظاہر ایک سَربستہ راز ہیں۔ جو افراد قُدرت کے ان رازوں سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی مخصوص میدان میں کوئی اہم دریافت کرتے ہیں، وہ ’’سائنس دان‘‘ کہلاتے ہیں۔ 

عہد بہ عہد ہونے والی ترقّی کو نظر میں رکھتے ہوئے اگر آج کی جدید زندگی پر ایک نگاہ ڈالی جائے، تو معلوم ہو گا کہ ہماری زندگیوں میں سائنس براہِ راست دخل انداز ہے اور یہ’’دخل اندازی ‘‘ہمیں ناگوار بھی محسوس نہیں ہوتی۔ 

یوں تو ایسے سائنس دانوں کی ایک طویل فہرست ہے کہ جنہوں نے اپنے کام سے ایک دُنیا کو متاثر کیا۔ علمِ کیمیا کا بانی، جابر ابنِ حیّان جامع الکمالات شخص تھا۔ کیمیا تو اُس کی دِل چسپی کا محض ایک میدان تھا، وگرنہ اُس نے فلکیات، جغرافیہ ، طب اور فلسفے میں بھی ناقابلِ فراموش جوہر دِکھائے۔ طب میں ابنِ سینا کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ 

اُن کی کتاب ’’القانون‘‘ طبّی علوم میں ایک سنگِ میل سمجھی جاتی ہے۔ البیرونی کو سائنس، ریاضی، جیومیٹری، جغرافیے اور علمِ فلکیات پر عبور تھا۔ 

چشموں سے پانی نکلنے کا سائنسی جواز البیرونی نے پیش کیا۔ سمندر کی گہرائی ناپنے کا طریقہ بھی البیرونی سے منسوب ہے۔ حالیہ چند صدیوں میں سائنسی تاریخ کے عظیم ترین ناموں میں سے ایک برطانوی سائنس داں، سر آئزک نیوٹن ہے۔’’قانونِ کششِ ثقل‘‘نیوٹن ہی کی ایجاد ہے۔ 

نیوٹن نے پانی سے چلنے والی گھڑی بھی ایجاد کی اور سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز قرار دیا۔ یہ نیوٹن ہی تھا، جس نے سب پہلے یہ ثابت کیا کہ سفید رنگ کی روشنی سات رنگوں کی آمیزش سے تیار ہوتی ہے۔ 

جرمن سائنس داں، البرٹ آئن اسٹائن کا شمار بھی طبیعات کے عظیم ترین سائنس دانوں میں ہوتا ہے اور ’’نظریۂ اضافت‘‘ یاــ" "Theory of Relativity کو اُن کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ 

نیز،Grand Unification Theory بھی آئن اسٹائن کے اہم سائنسی کارناموں میں سے ایک ہے۔ پاکستانی سائنس داں، ڈاکٹر عبدالسّلام کا شمار بھی دُنیا کے نام وَر طبیعات دانوں میں کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے بنیادی طور پر Unification of Fundamental Forces پر کام کیا۔ دُنیا نے اُن کے کام کو سراہا اور اُنہیں طبیعات میں غیر معمولی تحقیق کی وجہ سے نوبیل پرائز سے بھی نوازا گیا۔

موجودہ عہد کے سائنس دانوں میں سب سے نمایاں نام’’ اسٹیفن ولیم ہاکنگ‘‘ ہے۔ وہ8جنوری 1942ء کو اوکسفرڈ، برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام، فرینک ہاکنگ اور ماں کا ایزوبل ہاکنگ تھا، جو اسکاٹش تھیں۔ گرچہ اُن کے مالی حالات مستحکم نہ تھے، لیکن پھر بھی اسٹیفن ہاکنگ کے والدین نے علم سے ناتا جوڑے رکھا۔ والد نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے طب اور والدہ نے اقتصادیات، سیاسیات اور فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ 

حصولِ علم کا یہ شوق اسٹیفن ہاکنگ میں بھی منتقل ہوا۔ انہیں لندن کے بائرن ہاؤس اسکول میں داخل کروایا گیا۔ ہاکنگ کی عُمر 8برس کی تھی کہ اُن کے والد کو ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار میڈیکل ریسرچ‘‘ میں پیراسائٹالوجی کے شعبے کا سربراہ بنا دیا گیا اور اُن کا گھرانا وہاں سے سینٹ البانز، ہرٹفورڈ شائر منتقل ہو گیا۔ 

تاہم، وہاں قیام کے دوران اُلجھنیں حائل رہیں۔ ہاکنگ کو سینٹ البانز ہائی اسکول میں دوبارہ سے تعلیم کا سلسلہ شروع کرنا پڑا۔ اگلے برس انہیں ہرٹفورڈ شائر کے ایک گاؤں میں واقع، ریڈلٹ اسکول میں ایک سال کے لیے داخل کروا دیا گیا۔ ہاکنگ نے 1952ء میں سینٹ البانز سے الیون پلس (گیارہ سے بارہ برس کے بچّوں کا تعلیمی درجہ) کا امتحان پاس کیا۔

بچپن میں ہاکنگ کھیل کُود میں بھرپور حصّہ لیتے۔ سائیکل چلانا اور فُٹ بال کھیلنا ،اُن کا محبوب مشغلہ تھا۔ اُنہیں دوڑ لگانے کا بھی بہت شوق تھا اور وہ روزانہ چار سے پانچ کلومیٹر تک دوڑ لگاتے۔ والد کی خواہش تھی کہ اسٹیفن ہاکنگ برطانیہ کے مشہور ویسٹ منسٹر اسکول سے اسکالر شپ کے تحت تعلیم حاصل کریں۔ 

تاہم، اسکالر شپ کے لیے منعقد ہونے والے امتحان کے دِن اسٹیفن ہاکنگ کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ والدین کی مالی حیثیت اتنی مضبوط نہ تھی کہ وہ اسٹیفن ہاکنگ کے اسکالر شپ حاصل کیے بغیر ہی مذکورہ تعلیمی درس گاہ کے بھاری اخراجات اور مصارف برداشت کر سکتے۔ نتیجتاً اسٹیفن ہاکنگ بہ دستور سینٹ البانز ہی میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ سینٹ البانز کے پورے عرصے میں اسٹیفن ہاکنگ کو ایسے دوستوں کی رفاقت میسّر آئی کہ جو نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حصّہ لیتے۔ 

یہ سرگرمیاں مختلف سائنسی ایجادات سے لے کر مختلف مذہبی مباحث پر مشتمل ہوتیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے چھے سال بیت گئے۔ اس دوران ہاکنگ اپنے دوستوں کی صحت مندانہ سرگرمیوں کا مکمّل حصّہ رہتے ہوئے سائنس، مذہب اور فطرت سے متعلق سے اُٹھائے گئے بنیادی سوالوں سے مسلسل نبرد آزما رہے۔ اب طبیعت جستجو، امکانات اور آفاق کی وُسعتوں کی تلاش پر مائل ہو چلی تھی۔1958ء اور اس سے اگلے کئی برس اسٹیفن ہاکنگ کے لیے نئی دریافتوں کے سال ثابت ہوئے۔ 

اپنے زرخیز اور شاداب ذہن کی بہ دولت اور اپنے ریاضی کے استاد کی معاونت سے ہاکنگ نے Recycling Process یا استعمال شدہ اشیا کو دوبارہ کارآمد بنانے کے طریقے کے تحت پُرانی گھڑیوں کے مختلف ٹکڑے، پرانے ٹیلی فون سوئچ بورڈز اور چند دیگر ناکارہ اشیا کی مدد سے ایک کمپیوٹر تیار کیا۔ گرچہ نصابی سرگرمیوں میں ہاکنگ کی کارکردگی مثالی نوعیت کی نہ تھی۔ 

لاغر جسم کا آہنی آدمی :اسٹیفن ہاکنگ

تاہم، اُن کے تجسّس اور ایجادات کے شوق کو دیکھتے ہوئے اسکول میں اُنہیں’’آئن اسٹائن‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اپنے ریاضی کے استاد کی بھرپور توجّہ کے باعث ہاکنگ نے خود بھی ریاضی کو یونی ورسٹی کی سطح پر سنجیدگی سے پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ 

تاہم، والد نے اس فیصلے کی اس بنیاد پر حمایت نہ کی کہ ریاضی دانوں کے لیے ملازمت کے مواقع وسیع نہ تھے۔ چناں چہ انہوں نے ہاکنگ کو طب کی طرف متوجّہ کیا۔ اُن کی یہ خواہش بھی تھی کہ اُن کی طرح اُن کا بیٹا بھی یونی ورسٹی کالج، اوکسفرڈ سے مزید تعلیم حاصل کرے۔ ہاکنگ نے والدکی یہ بات تو مان لی، لیکن طب پڑھنے پر آمادہ نہ ہوئے۔

چُوں کہ اُس وقت وہاں ریاضی نہیں پڑھائی جاتی تھی۔ لہٰذا، ہاکنگ نے طبیعات اور کیمیا کا انتخاب کیا، حالاں کہ ہیڈ ماسٹر نے ہاکنگ سے کہا بھی کہ وہ ریاضی کی تعلیم کے لیے ایک سال انتظار کر لے۔ تاہم، 1959ء میں اُنہیں اسکالر شپ مل گئی۔ کالج کی زندگی نے ہاکنگ پر مثبت اثرات مرتّب کیے۔ اُنہوں نے ایک بار پھر مختلف کھیلوں میں حصّہ لینا شروع کر دیا۔ خاص طور پر’’یونی ورسٹی کالج بَوٹ کلب‘‘ کے رُکن کے طور پر ہاکنگ نے دِل کے سارے ارمان نکالے۔ 

وہ اکثر بَوٹس کو ایسے زاویوں سے دوڑاتے کہ وہ ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہو جاتیں۔ پھر اُنہوں نے ’’یونی ورسٹی آف کیمبرج‘‘ میں نظری طبیعات اور علمِ کونیات (Cosmology) کے مضامین کے ساتھ داخلہ لینے کا فیصلہ کیا، جس کی ایک شرط فرسٹ کلاس آنرز ڈگری بھی تھی۔ہاکنگ پر کبھی کبھار بد دِلی کا دورہ بھی پڑ جاتا تھا اور ایسی صُورت میں کسی کام میں اُن کا جی نہ لگتا۔ 

یونی ورسٹی آف کیمبرج کے امتحان کی تیاری بھی بد دِلی کا ایک ایسا ہی دورہ ثابت ہوئی۔ امتحان سے عین ایک رات پہلے وہ بغیر کسی تیاری کے بہت اطمینان کے ساتھ سوتےرہے۔ نتیجہ آیا، تو وہ مطلوبہ معیار کا نہ تھا۔ تاہم، اتنا بُرا بھی نہ تھا کہ اُسے بالکل ہی نظر انداز کر دیا جاتا۔ اب زبانی امتحان لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہاکنگ کو اندازہ ہو چلا تھا کہ اُنہیں زبانی امتحان میں سُست اور کاہل الوجود طالبِ علم سمجھا جائے گا۔ 

ممتحن نے ہاکنگ سے اُن کے مستقبل کے عزائم دریافت کیے۔ ہاکنگ نے جواب میں کہا کہ ’’اگر آپ مُجھے فرسٹ کلاس سے نوازیں گے، تو مَیں کیمبرج کا رُخ کروں گا اور اگر سیکنڈ کلاس دیں گے، تو مَیں آوکسفرڈ ہی میں ٹھہرنا پسند کروں گا۔ لہٰذا مُجھے توقّع ہے کہ آپ فرسٹ کلاس سے نوازیں گے۔‘‘ ممتحن سمجھ گئے کہ وہ جس طالبِ علم سے مخاطب ہیں، وہ دیگر طلبہ سے کہیں آگے ہے۔ 

بالآخر ہاکنگ فرسٹ کلاس آنرز کی ڈگری لے کر1962ء میں کیمبرج یونی ورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لیے داخل ہوئے۔ ہاکنگ کی خواہش تھی کہ اُن کا سپروائزر فریڈ ہائل کو مقرّر کیا جائے، جو برطانیہ کے نام وَر ماہرِ فلکیات تھے۔ وہ ’’بِگ بینگ تھیوری ‘‘ کے ناقد تھے اور یہ اصطلاح بھی اُن ہی کی وضع کردہ تھی۔

یہی وہ سال بھی تھا کہ جب ایک تقریب میں ہاکنگ کی ملاقات جین وائلڈ سے ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے۔ پی ایچ ڈی کے دوران ہی1963 ء میں ایک روز ہاکنگ اچانک سیڑھیوں سے گر گئے۔ اُنہیں اسپتال لے جایا گیا، جہاں معائنے میں یہ بات سامنے آئی کہ اُنہیں ’’اے ایل ایس‘‘ (Amyotrophic Lateral Sclerosis) یا ’’موٹر نیورون‘‘ نامی جان لیوا مرض لاحق ہے اور وہ دُنیا میں محض دو برس کےمہمان ہیں۔ 

تاہم، معالجین نے اُنہیں اپنا تعلیمی سفر جار ی رکھنے کی ہدایت کی، مگر اب زیست اُن کے لیے ایک سخت امتحان بن کر رہ گئی تھی، لیکن پھر اُنہوں نے سوچا کہ گُھٹ گُھٹ کر مرنے سے بہتر ہے کہ کچھ کر کے دُنیا سے کوچ کیا جائے۔ 

خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہاکنگ کی بیماری سُست رَوی کا شکار ہو گئی اور خود ڈاکٹر بھی اس بات پہ حیران تھے۔ ہاکنگ اپنے سپروائزر، ڈینس ولیم اسکائما کے تحریک دِلانے پر اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کی طرف پلٹ آئے اور اپنے لیکچرز کے ذریعے سائنس کے چند مروّجہ اصولوں کی تردید کی۔ چُوں کہ اُن دِنوں ماہرینِ طبیعات میں ’’بِگ بینگ‘‘ اور ’’تخلیقِ کائنات‘‘ جیسے موضوعات پر مباحث عام تھے۔ سو، اُن کی شُہرت میں یکایک اضافہ ہو گیا۔

1965ء میں ہاکنگ نے اپنا تحقیقی مقالہ مکمّل کیا اور اسی سال اُن کی زندگی میں جین وائلڈ بہ طور اہلیہ داخل ہوئیں۔ جین سے شادی، ہاکنگ کے لیے شادمانی کا باعث بنی اور اس سے اُن کے تین بچّے، رابرٹ، لوسی اور ٹام پیدا ہوئے۔ 1966ء میں ہاکنگ کا مقالہ منظور کر لیا گیا اور انہیں اطلاقی ریاضیات اور نظری طبیعات میں ڈاکٹریٹ کی سند دی گئی اور یہ موت سے برسرِ پیکار ایک شخص کا عظیم کارنامہ تھا، جس کی چہار اطراف سے تحسین کی جانے لگی۔ پھر انہیں Gonville and Caius College سے ریسرچ فیلو شپ ملی اور یہ بھی ہر لحاظ سے ایک ناقابلِ یقین کارنامہ تھا۔ 

دریں اثنا، مشہور ترین ریاضی داں، جان کاؤچ ایڈمس کے نام سے منسوب ’’ایڈمس پرائز‘‘ اُن کی نذر کیا گیا۔ ’’بلیک ہولز‘‘ ہاکنگ کی تحقیق کا خاص موضوع تھے اور انہوں نے ایک ایسے بلیک ہول کا بھی سُراغ لگایا تھا کہ جس سے روزانہ نئے سیّاروں کا ظہور ہوتا ہے۔

اس بلیک ہول کی دریافت کے ساتھ ہی ہاکنگ نے یہ بھی معلوم کیا کہ اس سے خارج ہونے والی شعاعیں کائنات میں تغیّر و تبدّل کا سبب بن رہی ہیں۔ ہاکنگ کی اس دریافت کو طبیعات دانوں نے نہ صرف تسلیم کیا، بلکہ اسے ’’Hawking's Radiation ‘‘ کا نام بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ نظریۂ اضافت اور کونیات بھی اُن کا تخصیصی میدان تھے۔

کچھ عرصے بعد بیماری کی شدّت اُن پر غلبہ پانے لگی۔ سب سے پہلے اُن کے ہاتھوں کی انگلیاں مفلوج ہوئیں، پھر بازو، پھر جسم کا بالائی حصّہ، پھر نچلا حصّہ مفلوج ہوا اور آخر میں وہ بولنے سے بھی محروم ہو گئے۔ 1960ء کے عشرے کے اختتام تک وہ ایک وہیل چیئر کے محتاج ہو کر رہ گئے اور یہ ساری قیامتیں ہی کیا کم تھیں کہ ایک دِن اُن کی گردن دائیں جانب ایسی ڈھلکی کہ اُسے پھر سیدھا ہونا نصیب نہ ہو سکا۔ 

گرچہ ہاکنگ سہارے کے بغیر چلنے پھرنے سے معذور تھے اور اُن کی گفتگو بھی مشکل سے سمجھ میں آتی تھی، لیکن انہوں نے اس عالم میں بھی آفاق کی وسعتوں اور افلاک کی گردشوں کو اپنے مشاہدے کا موضوع بنائے رکھا۔ اب ہاکنگ نے پینروز کے ساتھ مل کر نظریۂ ٖاضافت کو مزید وضاحت سے پیش کیا۔ ان دونوں کی تحقیق کا نچوڑ 1970 ء میں سامنے آیا اور سائنس کی دُنیا میں اسے دِل کھول کر سراہا گیا۔ 

اس کے بعد دُنیا کی اعلیٰ سائنسی درس گاہوں میں اسٹیفن ہاکنگ کو بہ طور پروفیسر مدعو کیا جانے لگا اور وہیل چیئر کو چلنے پھرنے اور ایک مشین کو بول چال کا ذریعہ بنانے والے اسٹیفن ہاکنگ کو زندگی ہی میں ایک دیومالائی شخصیت قرار دے دیا گیا۔

اسٹیفن ہاکنگ کو دَورِ حاضر کا آئن اسٹائن بھی قرار دیا گیا۔ ماہرینِ طبیعات کا ماننا ہے کہ ہاکنگ کی سائنسی دریافتوں نے دُنیا کا چہرہ بدل کر رکھ دیا۔ اُن کی تصانیف کی تعداد 15ہے اور ان کی ایک کتاب "A Brief History of Time" (وقت کی مختصر تاریخ) چار سال سے زاید عرصے تک ’’بیسٹ سیلر بُک‘‘ میں شمار کی جاتی رہی۔ کائنات کے اَسرار و رموز، خلائی وسعتوں، مادّہ، توانائی، تاب کاری، روشنی اور اضافت جیسے مشکل موضوعات کو بیان کرنے کے لیے ہاکنگ نے خلائی سفر بھی اختیار کیا۔ 

بارہ اعلیٰ ترین درس گاہوں نے اسٹیفن ہاکنگ کو اعزازی ڈگری عطا کی اور اس سے اسٹیفن ہاکنگ کی نہیں، بلکہ اُن درس گاہوں کی توقیر میں اضافہ ہوا ہے۔ ہاکنگ نے 1994ء میں دوسری شادی کی۔ گرچہ وہ اپنی 76برس کی عُمر میں سے لگ بھگ 55برس موذی اور جان لیوا بیماری سے نبرد آزما رہے، تاہم اُن کی حسِ مزاح پوری طرح برقرار رہی۔ 2014ء میں "The Theory of Everything" کے عنوان سے اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی اور کارناموں پر ایک فلم بھی بنائی گئی۔ 

اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی معذوروں اور صحت مندوں دونوں ہی کے لیے یکساں طور پر لائقِ تقلید ہے۔ بلیک ہول جیسی خطرناک شے پر کام کرنے والا اُمید، اُمنگ، روشنی، حرارت اور ہمّت کا مُرقّع اسٹیفن ہاکنگ زندگی سے مایوس اور وسائل سے محروم افراد سے اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ ’’اگر تم کسی حل نہ ہونے والی مشکل ( بلیک ہول ) میں بھی گرفتار ہو گئے ہو، تو امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو کہ باہر نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور ہوتا ہے۔‘‘14 مارچ 2018ء کو جب لاغر جسم کے آہنی آدمی نے دُنیا سے منہ موڑا، تو ایک دُنیا اُن کی جُدائی پر غمگین اور محزون ہو گئی۔ 

وہ تمام اقوام اور ممالک جہاں سائنس اور سائنس دانوں کا احترام ہے، ترقّی اور کام یابی کی اعلیٰ منازل طے کر رہے ہیں۔ کاش ہماری ’’مملکتِ بے مثال‘‘ میں بھی سائنس اور سائنس دانوں کا وقار اور احترام نظر آنے لگے، تو شاید ہمارے ہاں بھی اسٹیفن ہاکنگ جیسے نابغۂ روزگار جنم لینے لگیں اور وہ ہمارے وطن کو سائنسی ترقّی میں بامِ عروج تک پہنچا دیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین