عام طور پر ان ملکوں کو نفع رساں سمجھا جاتا ہے جو ساحل سمندر سے گھرے ہوں یا طویل سمندری ساحل ان کے ملک کے قبضے میں ہوں، یا ارد گرد جزائر ہوں کیونکہ ان کو سمندری پیداوار حاصل کرنے میں آسانی ہوتی ہے دوسرے یہاںبند ر گاہیں قائم ہو جاتی ہیں جس سے بین الاقوامی تجارت میں سہولت اور سیاحوں کی آمد میں اضافہ اور زرمبادلہ کمانے کے مواقع مل جاتے ہیں۔ سمندر سے زمین بھی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی میں ہو رہا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کلفٹن میں سمندر غازی شاہ صاحب کے مزار تک آتا تھا اب اس سے سات آٹھ میل آگے تک زمین حاصل کر کے آباد کر لی گئی ہے۔ لیکن سمندر پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے جب سیلاب یا سونامی کا حملہ ہوتا ہے تو وہ انسان ،حیوان، شہر اور کھیت کچھ نہیں دیکھتا۔ بدین اور ٹھٹھہ میں سینکڑوں ایکڑ زرعی زمین سمندر برد ہو چکی ہے۔ اس کو روکنے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔
پاکستا ن کے پاس سندھ اور بلوچستان کے جنوبی علاقوں میں1064کلومیٹر سمندر کی پٹی ہے۔ اور 200میل کا سمندری علاقہ ہے۔ اس پٹی پر کئی چھوٹے لنگر گاہ تھے۔ کراچی کے جنوب میں دوبڑے جزیرے ہیں مگر پاکستان نے سمندری وسائل سے وہ کام نہیں لیا جو وہ لے سکتا تھا۔ 25برس تک ایک ہی بندرگاہ سے کام چلایا، پھر پورٹ قاسم کی بندرگاہ بنائی اور جنرل مشرف کے دور میں گوادر کو لنگر گاہ پورٹ میں تبدیل کیا گیا۔ اب پاک چین اقتصادی راہداری کی بدولت یہ ایک بین الاقوامی بندرگاہ کی شکل اختیار کر لے گا یہاں ہوائی اڈہ تو تعمیر کر لیا گیا ہے مگر اس کا رن وے پھسلن والا ہے۔ نیوی کے جہاز پسنی پر اترتے ہیں اور وہاں سے مسافروں کو کو سٹر کے ذریعے گوادر لے جایا جاتا ہے۔ اب اس کو ریل سے ملایا جا رہا ہے کراچی میں تو تجارتی شپ یارڈ کے لئے جگہ نہیں البتہ گوادر اور پورٹ قاسم پر ان کی تعمیر کے اچھے خاصے امکانات ہیں۔
اسٹولا کا جزیرہ جسے جزیرہ ہفت تلار ۔ ستا ڈپ یا سات پہاڑوں کا جزیرہ کہا جاتا ہے غیر آباد ہے۔ یہ قریبی ساحل سے 25کلومیٹر ،اور پسنی کی بندرگاہ سے 39کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی لمبائی 6.7کلومیٹر اور چوڑائی 2.3کلومیٹر ہے۔ یہ انتظامی طور پر پسنی کا حصہ ہے اور ضلع گوادر کا علاقہ ہے۔ پسنی سے موٹر بوٹ کے ذریعے یہاں پانچ گھنٹے میں پہنچا جاتا ہے۔ یہ تاریخی جزیرہ ہے سکندر اعظم نے اپنے امیر البحر کو بحیرہ عرب کے ساحل کی تفتیش کے لئے بھیجا مگر اس کے ملاح ان ڈرائونی کہانیوں سے ڈر گئے جو اس جزیرے سے منسوب تھیں۔ یونانیوں نے اس کو ’’نو سالہ ‘‘ کا نام دیا اس کی زمین سخت پلیٹوں پر مشتمل ہے اور سات پہاڑی چوٹیاں ہیں جس کی وجہ سے اسے ست تلار کہا جاتا ہے۔
غیر آباد اور الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے یہاں نایاب سمندری جان داروں کی کثرت ہے یہ پرندوں کے انڈا دینے کی بھی خاص جگہ ہے۔ یہاں بڑے اور موٹے چوہے بھی بکثرت ہیں جو پرندوں کے انڈے اور چوزے کھا جاتے ہیں۔ اس لئے اب یہاں سائبریا سے آنے والے پرندوں کی تعداد کم ہو گئی ہے یہاں کی زمین پتھریلی ہے اس لئے یہاں درخت نہیں ہیں۔پینے کے پانی کا کوئی معقول ذریعہ نہیں۔ گرین جلد والے کچھوے ہاکس بل کچھوے۔ اور سانپ خصوصاً’’وائر پر ‘‘ پائے جاتے ہیں۔ چوہوں کے ساتھ بلیاں بھی پائی جاتی ہیں جو ماہی گیر اپنے سامان کی حفاظت کے لئے لاتے ہیں پھر یہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ مئی سے ستمبر تک ماہی گیر یہاں مختلف قسم کی مچھلیاں، جھینگے ،کیکڑے وغیرہ پکڑنے کے لئے یہاں عارضی قیام کرتے ہیںان مہینوں کے علاوہ یہاں انسان نظر نہیں آتے۔
1982میں یہاں حکومت پاکستان نے گیس سے چلنے والا چھوٹا سا بیکن (اشارہ کنندہ ) لگایا اور 1987میں اس کو سورج کی روشنی والے سنگل میں تبدیل کر دیا۔ یہ جہازوں کی رہنمائی کے لئے لگایا گیا تھا۔ یہاں ایک چھوٹی سی مسجد ہے جو پیر خواجہ خضر کے نام سے منسوب ہے جس کو ماہی گیر شکار کے موسم میں استعمال کرتے ہیں۔یہاں ایک پرانے مندر کے آثار بھی ہیں جو کالی دیوی کا مندر کہلاتا ہے۔
مذہبی روایات کے مطابق حضرت خضر بھٹکے ہوئے مسافروں کی اور حضرت الیاس آبی مسافروں کی رہنمائی کرتے تھے اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں ۔لہٰذا نظر انداز کئے جانے والے جزیرے کو زائد مدت تک پرانی حالت میں نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کراچی سے گوادر تک بحیرہ عرب کے پورے ساحل کے سامنے اسٹو لا کے سوا اور کوئی جگہ ہی نہیں جہاں سے دہشت گردوں اور بحری لٹیروں کے جہازوں پر نگاہ رکھی جائے۔ اور فاصلے کی دور بینوں سے ان کا تعاقب کیا جائے۔ جزیرےکو دفاعی ممنوعہ علاقہ بناتے ہیں تو ماہی گیروں کا روزگار اور پرندوں کا ماسن چھن جائے گا۔ بحریہ کو اس کے متبادل کوئی منصوبہ بنانا چاہئے۔
حضرت مردان شاہ کی رحلت کے وقت یہ کہانی منظر عام پر آئی کہ حضرت پیر صبغت اللہ شاہ کو انگریزوں نے بغاوت کے جرم میں پھانسی دی اور نعش اپنے ساتھ لے گئے اور سمندر برد کر دی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ان کو ایک غیر آباد جزیرے میں دفن کیا اور ماہی گیروں نے وہاں ان کی قبر بنا دی اور یہ جزیرہ اسٹولا ہے۔ میری موجودہ پیر پگارا سے گزارش ہے کہ وہ برطانیہ سے اصل صورت حال معلوم کریں اور دفن کی جگہ کو معلوم کر کے باقیات آبائی قبرستان میں دفن کریں یا جزیرے میں ان کے شایان شان مزاربنائیں۔