• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی ایم ایف نے 15مارچ2018کو اپنے اسٹاف مشن کی جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ 2013میں 6.7ارب ڈالر کے تین سالہ قرضے کے پروگرام کے نتیجے میں جو معاشی استحکام حاصل ہوا تھا وہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے چنانچہ مستقبل میں معیشت میں بہتری کے امکانات خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے بیرونی شعبے میں عدم توازن کے بڑھنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کمزور ہورہی ہے۔ اس رپورٹ سے ایک ہفتہ قبل آئی ایم ایف کے نمائندے نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت 2013سے معاشی اصلاحات کا جو سلسلہ پاکستان میں شروع کرایا گیا تھاوہ پرگرام کی مدّت ختم ہونے کے بعد سست کردیا گیا ہے،روک دیا گیا ہے یاان اصلاحات کی واپسی کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔ اس نمائندے نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ امریکہ دراصل آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوہی نہیں سکتا کیونکہ آئی ایم ایف کے مجموعی حصص میں امریکہ حصہ صرف17فیصد ہے۔ اس ضمن میں چند گزارشات پیش ہیں۔
(1) 26ستمبر2008کو امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ امریکہ آئی ایم ایف سے کہے گا کہ وہ پاکستان کو قرضے فراہم کرے۔ اس کے بعد آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے ہماری تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ منظور کیا۔ موجودہ حکومت کے دور میں 2013میں پاکستان کےوزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہم امریکہ کی سفارش پر آئی ایم ایف سے قرضے کا حجم بڑھوائیں گے۔ یہ قرضہ بھی جلد ہی منظور ہوگیا۔
(2) آئی ایم ایف کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ اس کے تین سالہ قرضے کی مدّت میں پاکستان کو معاشی استحکام نصیب ہوا تھا مثلاً (الف) آئی ایم ایف کے قرضے کی اقساط مالی سال 2014سے پاکستان کو ملنا شروع ہوئی تھیں۔ اس قرضے کی شرائط کے نتیجے میں مالی سال 2015 مالی سال 2016 اور مالی سال 2017میں برآمدات مسلسل گرتی رہیں۔ (ب) بجٹ خسارے میں کمی دراصل قومی تعلیمی پالیسی2009سے انحراف کرتے ہوئے2015سے تعلیم کی مدمیںکئی ہزار ارب روپے کم مختص کرنے، چاروں صوبوں کی جانب سے ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقوم کو پوری طرح خرچ نہ کرکے کئی سو ارب روپے کی فاضل رقوم دکھلانے بجلی، گیس و پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرنے، ٹیکسوں کی وصولی کے ضمن میں اکائونٹنگ جادوگری دکھلانے اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی مرہون منت تھی۔(3)مالی سال 2015-16 میں جاری حسابات کا خسارہ 4.8ارب ڈالر تھا جو مالی سال 2016-17میں بڑھکر12.1ارب ڈالر ہوگیا لیکن اس مالی سال کے دوران آئی ایم ایف نے دانستہ متوقع جاری حسابات کے خسارے کو کم کر کے بتلایا تاکہ اس کے تین سالہ قرضے کے پروگرام کو کامیاب بتلایا جاسکے۔
آئی ایم ایف نے مارچ2018میں جاری کردہ رپورٹ میں پاکستانی معیشت کے ضمن میں جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے۔ان کی طرف ہم گزشتہ کئی برسوں سے ان ہی کالموں میں بھی توجہ دلاتے رہے تھے حالانکہ ان برسوں میں آئی ایم ایف پاکستانی معیشت کی کارکردگی پر عمومی طور پر مطمئن نظر آتا رہا تھا۔ ہم نے عرض کیا تھا :
(1) موجودہ حکومت معیشت کو کمزور بنیادوں پر استوار کررہی ہے چنانچہ کچھ عارضی بہتری تو نظر آئے گی مگر 2018میں معیشت مشکلات کا شکار ہوگی (جنگ 24 اپریل2014)
(2) پاکستان قرضوں کو اپنے وسائل سے ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا(جنگ17اکتوبر2015)
آئی ایم ایف کا قرضوں کا تین سالہ پروگرام ستمبر2016کو ختم ہوا۔ اس کے فوراً بعد ہم نے لکھا تھا:
(1) پاکستان کا بیرونی شعبہ زبردست مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔(جنگ 20اکتوبر2016)
(2) پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر زبردست دبائو پڑے گا۔(جنگ 30دسمبر2016)
(3) خدشہ ہے کہ پاکستان 2018 میں ایک مرتبہ پھر نجاتی پیکیج کے تحت آئی ایم ایف سے نئے قرضے کے حصول کے لئے درخواست پیش کرے گا (جنگ27جولائی2017)
اس تلخ حقیقت کو اب تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ پاکستانی معیشت کو جن زبردست چیلنجز کا سامنا ہے ان کی ذمہ داری، وفاقی حکومت، چاروں صوبائی حکومتوں، سیاستدانوں ، ریاست کے تمام ستونوں، اسٹیٹ بینک، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور نیب سمیت متعدد حکومتی شعبے کے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی ان کڑی و ناروا شرائط کا بھی بڑا دخل ہے جو وہ استعماری طاقتوں کے ناجائز مفادات کے تحفظ کے لئے عائد کرتا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے اپنی حالیہ رپورٹ میں مالی سال 2022-23تک کے لئے معیشت کے شعبے کے امکانات کے بارے میں انتہائی منفی باتیں کی ہیں جو اس کی گزشتہ رپورٹوں سے بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔ یہ رپورٹ دراصل امریکی صدر ٹرمپ کے 22 اگست2017کے پاکستان مخالف بیان کا تسلسل ہے۔ اس بیان کے فوراً بعد حیران کن طور پر پاکستان میں بھی یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ آئی ایم ایف سے نیا قرضہ لیا جائے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے اس کی سفارش پر قرضے کے لئے رجوع تاکہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں امریکہ’’مزید اور کرو‘‘کی آڑ میں پاکستان سے وہ مطالبات بھی منواسکے جو قومی سلامتی سے بھی متصادم ہوں۔ موجودہ حکومت نے بحر حال فیصلہ کیا کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لئے بغیر دوسرے ذرائع بشمول عالمی کیپیٹل مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرے گا۔ امریکہ ایسا نہیں چاہتا تھا چنانچہ اس نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے یہ قرارداد منظور کرالی کے جون2018سے پاکستان کو ’’گرے لسٹ‘‘ میں شامل کردیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ سے روپے کی قدر پر دبائو بڑھے گا، سرمایہ کاری کا ماحول خراب ہوگا اور عالمی مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کی پاکستان کی کوششیں متاثر ہونگی۔ آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں پاکستان کو یہ منفی مشورہ دیا ہے کہ وہ سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد سست کردے حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اسٹرکچرل اصلاحات کریں تاکہ برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کے ساتھ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی ، قومی بچتوں اور ملکی سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ ہو۔
اب قوم کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔’’نیو گریٹ گیم‘‘ کے مذموم استعماری مقاصد کے حصول کے لئے عالم اسلام کی پہلی جوہری طاقت پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے ہم دو سے زائد برسوں سے ان ہی کالموں میں تواتر سے لکھتے رہے ہیں کہ ہمارے کچھ قوانین، پالیسیاں اور اقدامات جن سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اقتصادی دہشت گردی کے زمرے میں بھی آتے ہیں چنانچہ ان سب کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہم نے اپنے 26 فروری2018 کے کالم میں اس ضمن میں اپنے 8نکات دہرائے تھے۔ قومی سلامتی اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے ان نکات کو لازماً نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنانا ہوگا۔

تازہ ترین