تحریر:نرجس ملک
ماڈل:انعم
ملبوسات: فائزہ مینا کار
آرایش: لَش بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آئوٹ: نوید رشید
’’موسمِ بہار‘‘ کی متوالی، مترنّم دستک پر بس اِک ذرا کِواڑ کُھلنے ہی کی دیر ہوتی ہے، اُس کے بعد تو جیسے دھرتی پر چہار سُو ایک ایک کرکے پُھوٹتے شگوفوں، شگفتہ کلیوں، کُھل کے مُسکراتے رنگا رنگ گُلوں، رنگوں، رنگینیوں، روشنیوں، خوشبوئوں اور سرسبز شادابیوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگ جاتے ہیں۔
پیروں تلے بِچھی سبزے کی چادر، بدلیوں کے بیچ، کبھی اوٹ سے جھانکتی، بِکھرتی قوسِ قزح، شفق کی لالی، آسمانوں میں مَست مگن پنچھیوں کے نغمے، اُڑانیں، عِطر بیزمعطّر ہوائیں، فضائیں، آموں کے درختوں پہ مہکتا کچّا بور، ڈالیوں پہ کُو کُو کُوکتی کوئلیں، اِدھر سے اُدھر کُودتی پھاندتی گلہریاں، تنکا تنکا جوڑ گھونسلے بناتی چِڑیاں، باغوں میں اُودے اُودے، نیلے، پیلے، سُرخ و سبز پھول بُوٹوں کے لہراتے، گُنگناتے جُھنڈ، ’’مَیں رنگ شربتوں کا، تُو میٹھے گھاٹ کا پانی‘‘ کی مِثل رنگوں میں گُھلی، رنگوں سے بَنی حسین تتریوں، تتلیوں کی اِک پھول سے دوسرے پھول تک چک پھیریاں، اٹکھیلیاں اور اُن کے پیچھے پیچھے دوڑتے نَٹ کھٹ، معصوم، بھولے بھالے بچّوں کی پُھولتی سانسیں، گالوں کی سُرخی، مدھر جھنکار سی ہنسی، قلقاریاں.....اِس رنگیلی و نشیلی ’’بہار رُت‘‘ کا کون سا منظر، نظارہ ایسا ہے، جو سیدھا دل میں نہیں اُترا جاتا۔ یہی تو وہ رنگین، حسین ترین موسم ہے، جس میں اگر کہیں سیاہ بدلیوں، ساون کی چند بوندوں ہی کا امرت رَس بھی گُھل جائے، تو باہر کے ساتھ اندر کے سب موسموں پہ بھی صرف بہار ہی نہیں چھاجاتی، اِک سحر سا بھی طاری ہونے لگتا ہے۔
ایسے ہی تو افق لکھنوی نے نہیں کہا تھا ؎ ہیں چُوڑیوں کے جوڑ بسنتی کلائی میں…بَن کے بہار آئی ہے دستِ حنائی میں…مستی بَھرے دِلوں کی اُمنگیں نہ پوچھیے…کیا منطقیں ہیں، کیا ہیں ترنگیں نہ پوچھیے…ماتھےپہ حُسن خیز ہےجلوہ گُلال کا…بِندی سے اوج پر ہے ستارہ جمال کا…عکسِ نقاب زینتِ رخسار ہوگیا…زیور جو سیم کا تھا، طلاکار ہوگیا…رسوں کے لہلہاتے ہیں کھیت اِس بہار میں…نرگس کے پھول پھول اُٹھے لالہ زار میں…آواز ہے، پپیہوں کی مَستی بھری ہوئی…طوطی کے بول سُن کے طبیعت ہری ہوئی…کوئل کے جوڑے کرتے ہیں چہلیں سرور سے…آتے ہیں تان اڑاتے ہوئے دُور دُور سے…بُور آم کے ہیں یوں چمنِ کائنات میں…موتی کے جیسے گُچّھے ہوں زرکار پات میں…اُلفت بَھری جو ہنسی کی جانب نظر گئی…گویا بسنت کی راگ کی دُھن مست کرگئی۔
اور پھر فیض کی ؎ بہار آئی تو جیسے یک بار…وہ لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے…وہ خواب سارے، شباب سارے…جو تیرے ہونٹوں پہ مَر مٹے تھے…جو مِٹ کے ہربار پھر جیے تھے…نِکھر گئے ہیں گلاب سارے۔ اور فراز کے وہ اشعار ؎ ہوا میں نشہ ہی نشہ، فضا میں رنگ ہی رنگ…یہ کس نے پیرہن اپنا اُچھال رکھا ہے…بَھری بہار میں اِک شاخ پر کِھلا ہے گلاب…کہ جیسے تونے ہتھیلی پہ گال رکھا ہے…فراز عشق کی دنیا تو خُوب صُورت تھی…یہ کس نے فتنۂ ہجر و وصال رکھا ہے۔ اور منیر نیازی کی تو کیا ہی بات ہے ؎ کُھل گئے ہیں بہار کے رستے…ایک دِل کش دیار کے رستے…ہم بھی پہنچے کسی حقیقت تک…اِک مسلسل خُمار کے رستے… اُس کے ہونے سے یہ سفر بھی ہے…سارے رستے ہیں، یار کے رستے…جانے کس شہر کو منیر گئے…اپنی بستی کے پار کے رستے۔
سچ تو یہ ہے کہ شاید ہی کوئی بڑا قلم کار، لیکھک، نثرنگار، پَترکار، شاعر گزرا ہو، جِسے موسمِ بہار نے اپنا اسیر نہ کیا ہو، تو پھر بھلا کیسے ممکن ہے کہ رُت تو اِک بار پھرگدرائی ہو، مگر ناز، انداز، حُسن، زیبائی نہ ہو کہ جب تک دونوں کا ملن نہ ہو، حُسن کامل ہوتا ہے، نہ بات مکمل۔ تو لیجیے، بہار جوبن پر ہے، تو آج ہماری بزم بھی کچھ کم دل رُبا و دل نشیں نہیں۔
ذرا دیکھیے تو شنگرفی و کچناری رنگ میں حسین بنارسی کام دار پہناوا ہے، تو شفتالو رنگ کے ساتھ عنّابی کی آمیزش میں کِرنکل جارجٹ کے خُوب صُورت فراک کے بھی کیاہی کہنے۔ پیور اسپرنگ کلر میں جارجٹ کا کام دار روایتی شلوار قمیص، دوپٹا ہے، تو نیٹ میں گہرے نیلے رنگ کے ایمبرائڈرڈ اسٹائلش ڈریس کے اندازِ جداگانہ کی بھی کیا بات اور سُرمگیں شاموں سے ہلکے سُرمئی رنگ فراک کے ساتھ گہرے عنّابی رنگ کی ہم آمیزی کا تو بس کوئی مول ہی نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار کے آنچل میں یہ جو ہم نے اتنے بہت سے جگمگ تارے ٹانک دیئے ہیں، تو کہیں رُت خود ہی تو نہیں بول اٹھے گی ؎ نازو کرشمہ، عِشوہ و انداز اور ادا…مَیں اِک طرف ہوں، اتنے ستم گار اِک طرف۔