• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طالب علموں کی ذہانت کی پیمائش میں اساتذہ کے کردار کی اہمیت

طالب علموں کی ذہانت کی پیمائش میں اساتذہ کے کردار کی اہمیت

ماہر نفسیات نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ کلاس کے ماحول اور خاص طور پر استاد کی شخصیت اور اس کا طالب علموں کی جانب رویہ، طالب علموں کو متاثر کرتا ہے ایک دلچسپ تجربے میں ایک ماہر نفسیات نے ایک کلاس کے طلبہ کی ذہانت کی پیمائش کی اس کے بعد تجربہ کنندہ نے کلاس کے ٹیچر کو طالب علموں کے اسکور بتائے اور کہا کہ یہ طالب علموں کو نہ بتائے جائیں لیکن یہ اسکور ذہانت کی پیمائش پر مبنی نہ تھے بلکہ تجربہ کنندہ نے خود ہی فرضی طور پر لگا دئیے تھے کچھ عرصے بعد جب طالب علموں کی ذہانت کی دوبارہ پیمائش کی گئی تو دیکھا کہ ان طالب علموں کی ذہانت میں اضافہ ہوا ہے جنہیں تجربہ کنندہ نے زیادہ ذہین قرار دیا تھا جو پوشیدہ اور فرضی تھا اور ان طالب علموں کی ذہانت میں کمی ہوگئی جنہیں تجربہ کنندہ نے کم ذہین کہا تھا چونکہ طالب علموں کو اسکور نہیں بتائے گئے تھے اس لئے اس تجربے سے تجربہ کنندہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ٹیچر نے ان طالب علموں پر زیادہ توجہ دی اور ان کی کارکردگی کو سراہا جنہیں تجربہ کنندہ نے ذہین قرار دیا تھا اور ان طالب علموں کو نظرانداز کیا جنہیں تجربہ کنندہ نے کم ذہین ظاہر کیا تھا یعنی استاد یہ خیال کرتا ہے کہ ایک طالب علم ذہین ہے تو وہ اس کے ساتھ بہتر طرح پیش آتا ہے جس کے نتیجے میں طالب علم کی ذہانت میں اضافہ ہوجاتا ہے اس تجربے سے ثابت ہوتا ہے کہ استاد کے خیالات، رویے اور توقعات کا طالب علم کی صلاحیتوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ 

اس کے معنی یہ ہوئے ایک نوآموز کو اگر حوصلہ افزائی نہیں ملے گی تو وہ اپنی صلاحیتوں کو محسوس نہیں کرسکے گا اور ہوسکتا ہے کلاس روم اور استاد کے رویے سے وہ طالب علم جو آگے بڑھ سکتا ہے وہ احساس کمتری میں مبتلا ہوجائے۔ 

لیکن یہ بھی مشاہدے میں آیا کہ طلبہ مختلف انداز میں سوچتے ہیں اور انہیں مختلف محرک کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً کوئی حادثہ، کوئی خبر اور کوئی اطلاع اگر طالب علموں کو موصول ہوتی ہے تو تمام طالب علموں کے ذہن ایک ہی جیسے سوچ اور مرحلوں سے نہیں گزرتے یعنی تمام طالب علموں کا ردعمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔

ذہانت کی پیمائش کا تجربہ: اب دیکھنا یہ ہے کہ آج کا استاد اس قدر تربیت یافتہ ہے یا اسے بھی آئوٹ باکس پڑھنے اور کتاب دوستی کا جنون ہے جو خود بھی ذہین ہوا ہو اور وہ سمجھ سکے کہ مختلف طالب علموں کی کلاس کو کس طرح پڑھایا جائے جس سے تعلیم کا پیغام ہر سطح کے طالب علم کو درست پہنچے۔ 

اس میں دیکھنا یہ ہے کہ کوئی استاد طالب علم کسی چیز کے سیکھنے کے معاملے میں اپنے کتنے حواس کا استعمال کرتا ہے بعض طالب علموں کی بصارت کام نہیں کرتی لہٰذا وہ سن اچھا لیتا ہے مغرب میں اس لئے سلائیڈ اور آواز دونوں طریقوں سے پڑھایا جاتا ہے اگر دونوں کو ملا کر پڑھایا جائے تو زیادہ بہتر نتیجہ سامنے آئے گا۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ طالب علموں کو بھی ان طریقہ ہائے کار میں شامل کیا جائے لیکن پاکستان میں تعلیم پر اس طرح کی محنت نہیں کی جاتی ہے۔ کیونکہ حواس کا استعمال نہ سمجھا جائے تو یہ پتہ نہیں چلتا کہ استاد کی ناسمجھی سے شاگرد کن فوائد سے محروم رہ گیا کیا پاکستان میں کثیر حواس کا طریقہ کسی نجی اسکول میں بروئے کار لایا جاتا ہے جہاں کثیر حواس کے ذریعے سیکھنے کے عمل لرننگ MULTISENSORY کو فروغ دیا جاتا ہے وہاں طالب علموں کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں یہ ایسے فائدے ہیں جن کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

کیا استاد کی شخصیت اثر انداز ہوتی ہے:جیسا کہ مذکور ہے کہ بعض طالب علموں کی بصارت سے زیادہ سماعت زیادہ بہتر ہوتی ہے یعنی کسی تصور کی وضاحت کی جائے تو طالب علم سن کر فوراً سمجھ لیتا ہے بعض طالب علموں کو کاغذ اور پینسل کے ذریعے خاکہ بنا کر سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے اسی لئے بعض طالب علم جیومیٹری میں بہت اچھے ہوتے ہیں بعض تاریخی واقعات دلچسپی سے سنتے ہیں وہ تاریخ میں بہت اچھے ہوتے ہیں۔ 

کچھ سمجھ کر یاد کرتے ہیں اور کچھ رٹا لگا کر یاد کرلیتے ہیں بعض طالب علموں کو عمل کرکے دکھایا جائے تو وہ فوراً سمجھ جاتے ہیں۔ تاہم وہ طالب علم جو صرف دیکھنے اور سننے کی تکنیک ہی پر ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں شاید وہ انفارمیشن کو اتنے بہتر طریقے سے نہ سمجھ سکیں۔ اس لئے یہ ماہرین تعلیم کی مشترکہ رائے ہے کہ تعلیمی عمل میں معلم یا استاد، تعلیمی ماحول اور تدریسی مواد کے ساتھ استاد کی شخصیت بھی نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے استاد کا مشفقانہ یا غیرمشفقانہ رویہ طالب علم خاص طور پر اسکول کے دنوں کے لئے دور رس نتائج رکھتا ہے۔ 

استاد کے رویے کی تعمیر میں اس کے ابتدائی زندگی والدین، قریبی ماحول، تعلیم و تربیت، حلقہ احباب اور خصوصاً اس کے تعلیمی نظریات نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن آج کے جدید دور میں استاد کا کردار کم ہوتا جارہا ہے اور کلاس دوم میں کمپیوٹر یا سلائیڈ دکھا کر پڑھایا جاتا ہے مغرب میں والدین اور ماہرین تعلیم پریشان ہیں کہ بچوں کو لکھنا نہیں آتا بعض طالب علم بالکل پڑھ نہیں سکتے اس لئے ماہرین اس خرابی کو دور کرنے کے طریقے تلاش کررہے ہیں۔

طالب علم کی ذہنی سطح کو سمجھنا ضروری ہے: طالب علموں کے رویے اور ان کی نفسیات کو جاننا بھی ضروری ہے محض کمرہ جماعت، کتاب استاد اور طالب علم کے مابین استاد اور شاگرد کے درمیان تعلقات کو مکمل طور پر پورا نہیں کرتے جو تعلیم حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹیچر، معلم یا استاد کوئی نام بھی رکھ لیجئے اسے طالب علم کی ذہنی سطح کو سمجھنا ضروری ہے۔ 

طالب علموں کے ساتھ اساتذہ کا مباحثہ اور مسلسل مکالمہ ضروری ہے۔ حاکمانہ تدریس متروک ہوچکی ہے۔ اب دوستانہ اور احترام کا ماحول طالب علموں کو آگے بڑھا سکتا ہے لیکن رٹا طریقہ کار بالکل درست نہیں۔ امتحانات کا طریقہ کار بھی ٹھیک نہیں۔ نصاب کی تدوین بھی ازسرنو کرنی ہوگی ان عناصر کے بارے میں عالمی سطح پر بھی سوچا جارہا ہے۔ 

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جہاں بہت سے فوائد فراہم کئے ہیں اس نے طالب علموں کو گھر اور معاشرے سے الگ بھی کردیا ہے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ اساتذہ ہمیشہ مباحث کا مرکزی موضوع نہ بنیں بلکہ طلبہ کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے گھر اور اپنے طبقے کے تجربات اور واقعات کو شامل بحث کریں۔ 

میں نے خود ایک اسکول میں مضمون نگاری میں عنوان دیا ’’ہم غریب کیوں ہیں‘‘ بچوں نے ایسی باتیں لکھیں جس سے ظاہر ہوا کہ وہ طبقاتی آویزیشن کو سمجھتے ہیں اور ان کو مالداروں کے مقابلے میں اپنی کم مائیگی کا احساس ہے۔ یہ ایک مثبت سوچ تھی جو حقائق پر مبنی تھی۔ سچ کو پوشیدہ نہیں رکھا جاسکتا۔ اس لئے استاد اور شاگرد کے درمیان رشتہ حقائق، سچائی اور نیکی پر مبنی ہونا چاہئے۔

تازہ ترین