• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کی مدت مکمل ہونے کے حوالے سے دن گنے جارہے ہیں۔ شاید طے کیا گیا ہے کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیئے جائیں گے۔ ایک دن کی بھی کمی نہیں کی ہوگی تاکہ حکمران جماعت کے پاس عوامی سطح پر گلہ کرنے کی گنجائش نہ رہے۔ تاثر ہے کہ نگران دور حکومت کے پہلے دن سے ہی بے رحمانہ احتساب کے نام پر من پسند احتساب کا آغاز ہوگا۔ ایسا احتساب جس کی اولین ترجیح مسلم لیگ ن ہوگی۔ پوری حکمران جماعت کو ایسے شکنجے میں جکڑ دیا جائے گا کہ مسلم لیگ ن کے اندر سے ہی صدا بلند ہوگی کہ عام انتخابات کو موخر کردیا جائے۔ کیونکہ بہت سے ارکان اسمبلی ایسی صورتحال میں الیکشن لڑنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہوں گے۔ مسلسل میڈیا ٹرائل اور احتساب عدالت کی پیشیاں سیاست کا منظرنامہ ہی بدل دیں گی۔ نگران دور حکومت کے پہلے دن سے ہی مسلم لیگ ن کی مشکلات میں اضافہ ہونا شروع ہوگا۔ مزاحمتی بیانیے کا اصل ردعمل جون کے بعد آنا شروع ہوگا۔ لوڈشیڈنگ کا جن بوتل سے باہر آچکا ہوگا۔ بھرپور لوڈشیڈنگ عوام کی سیاست سے توجہ ہٹانے کے لئے کافی ہوگی۔ اس خاکسار نے دو سال قبل اپنے کالم میں لکھا تھا کہ حکمران جماعت بجلی کے جتنے بھی نئے ذرائع پیدا کرلے مگر نگران دور حکومت میں ہر صورت لوڈشیڈنگ ہوگی۔ مفاہمت اور اداروں سے بات چیت کی آخری کوشش عروج پر ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اداروں کے رویے میں تبدیلی بھی آئی ہے مگر آئندہ چند ہفتوں میں صورتحال مزید کشیدہ ہوگی۔
گزشتہ رات اسلام آباد کے پرانے دوستوں کے ہمراہ ایک نامور بزنس مین کے گھر اکٹھے ہوئے۔ کھانے کی میز پر حکمران جماعت کے پسندیدہ بیوروکریٹس، سینیٹ میں جانے والے ریٹائرڈ عسکری افسران اور دیگر باخبر شخصیات موجود تھیں۔ سب دوستوں کی گفتگو کا موضوع نوازشریف تھے۔ اس خاکسار نے سوال داغ دیا کہ کیا مسلم لیگ ن اور اداروں کے درمیان صلح کی گنجائش ہے۔ ایک سینئر افسر مسکرائے اور کہنے لگے کہ ہاں اگر صلح کا مینڈیٹ ایک شخص کے پاس ہو۔ میں نے فوراً کہا کہ کیا مسلم لیگ ن میں نواز شریف کے پاس صلح کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ انہوں نے دوبارہ جواب دیا کہ میں نے نواز شریف کی بات نہیں کی۔ بہرحال کھانے کی میز پر کئی موضوع زیر بحث آئے۔ مسلم لیگ ن کے خیرخواہ بیوروکریٹ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے بہت آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ شہباز شریف تمام معاملات ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے بقول (جو آج کل وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ایم پی ون اسکیل میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں) جب سے شہباز شریف کی سیاست شروع ہوئی ہے، اسے ہم نے ہار مانتا ہوا نہیں دیکھا۔ کہنے لگے کہ شہباز شریف کو اس وقت سے جانتا ہوں جب نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف صرف ممبر قومی اسمبلی تھے۔ شہباز شریف کی سادگی کی مثال دیتے ہوئے کہنے لگے کہ شہباز شریف بھائی کی وزارت عظمیٰ کے دور میں اپنی ذاتی گاڑی پر ایئرپورٹ چلے جاتے تھے اور اسی طرح واپس آجاتے تھے۔ یہ تو اب دہشت گردی نے اس قدر محدو د کردیا ہے وگرنہ ہم نے شہباز شریف کو اکثر ذاتی گاڑی میں سفر کرتے دیکھا۔ بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ریٹائرڈ بیوروکریٹ کہنے لگے کہ شہباز شریف کا اصل کیرئیر 1997کی وزارت اعلیٰ سے شروع ہوا۔1999میں نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ مگر شہباز شریف نے درمیانی راستہ نکالا اور سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا عہدہ بھی دلوادیا۔ اسی طرح جب مشرف نے مارشل لا لگایا تو شہباز شریف وزیراعظم ہاؤس میں سو رہے تھے اور وزیراعظم آفس کی جانب سے آرمی چیف کو ہٹانے کی پیش رفت سے لاعلم تھے۔ مارشل لا کے بعد پرویز مشرف تب بھی شہباز شریف سے بات چیت کرنے پر تیار تھا۔ اسی طرح سے کئی مثالیں موجود ہیں۔2015میں احتساب کی نئی لہر شروع ہوئی۔ اس وقت کے آرمی چیف نے بلاامتیاز احتساب کا نعرہ لگایا مگر بعد میں اداروں سے معاملات طے پاگئے۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن سمیت بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں شہباز شریف نے کشتی کو گرداب سے نکالا ہے تو ان دوستوں کی رائے ہے کہ شہباز شریف اب بھی مسلم لیگ ن کو اس بھنور سے نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر ریٹائرڈ عسکری افسران اس رائے سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاشبہ شہباز شریف کمال صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر ادارہ سمجھتا ہے کہ شہباز شریف کو بار بار آپشن دیا گیا مگر انہوں نے ہمیشہ نواز شریف کو چنا۔ اس لئے ادارہ سمجھتا ہے کہ سیاسی طور پر شہباز شریف وہ کریں گے جو نوازشریف چاہیں گے، ان وجوہات کی بنا پر اب شاید راولپنڈی ان سے کچھ طے نہ کرسکے۔ مگر دونوں بالا صورتحال میں مسلم لیگ ن آزمائش میں نظر آتی ہے۔چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں او ر ہر بات پر ضد اور اناؤں نے تخت سے تختہ کردیا ہے۔ آنے والے چند ماہ میں پاکستان کے مستقبل کی جو تصویر نظر آرہی ہے ،وہ بہت دھندلی ہے۔پاکستان کا ڈیفالٹر کر جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔داخلی جھگڑوں کا اثر خارجی معاملات پر پڑا ہے۔ آج پاکستان دنیا میں تنہا کھڑا ہے۔ چین جیسے خیرخواہ نے بھی سیاسی عدم استحکام اور ہماری آپس کی لڑائیوں سے تنگ آکر آنکھیں پھیر لی ہیں۔ ایران سے تعلقات سب کے سامنے ہیں۔ بھارت ہمارا روایتی حریف ہے اور افغانستان بھارت کا ہمنوا بنا ہوا ہے۔ ایسے حالات میں، میں بہت مایوس ہو چکا ہوں۔
آج نواز شریف کی نااہلی سے پہلے کی صورتحال دیکھتا ہوں تو کم از کم پاکستان ایسا نہیں تھا۔ نواز شریف کی بہت سی باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھ کر بہت غلطیاں بھی کی ہوں مگر اچھے کام بھی بہت کئے ہیں ۔موٹر وے پر سفر کرتا ہوں تو میاں صاحب کیلئےدعائیں نکلتی ہیں۔ ہاں اگر 1999کے بعد ملک بھر میں 10موٹر ویز بن جاتیں تو میں کہتا کہ نوازشریف نے کچھ نیا نہیں کیا بلکہ یہ ایسا کام ہے جو سب کرسکتے ہیں اور نواز شریف کے بعد بھی اس قسم کے منصوبے شروع ہوئے ہیں۔مگر M1،M2اورM3کو جہا ں نواز شریف چھوڑ کر گیا تھا حالیہ دور میں پھر وہیں سے آغاز ہوا ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ نواز شریف نے اس ملک کے لئے غیر معمولی کام کئے ہیں۔ نواز شریف کی مثال اس بیٹسمین کی سی ہے جو 30سال کے کیرئیر میں 15000ہزار سے زائد رنز اسکور کرتا ہے، جس میں سو سنچریاں اور بیس نصف سنچریاں شامل ہوتی ہیں۔ ہر میچ میں رنز کی اوسط43سے زیادہ ہوتی ہے مگر کیریئر کی آخری سیریز میں اس سے کہیں کہیں غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کی 30سال کی خدمات کو ہی فراموش کردیا جائے۔ مہذب قومیں اپنے سینئر سیاستدانوں کو خوبصورت موڑ پر خیرباد کہتی ہیں، مگر ہم.....
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین