• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو اس وقت پانی کے شدیدبحران کا سامنا ہے اور اس میں اضافے کے قوی خدشات موجود ہیں۔بھارت کی جانب سے پاکستانی دریاؤں پر مسلسل ڈیموں کی تعمیر، بارشوں کی کمی، آبی ذخائر کا فقدان، درجہ حرارت بڑھ جانے سے برف باری میں کمی اور آبادی میں ہونے والے اضافے کے باعث گھریلو سطح پر پانی کا استعمال بڑھ جانا وہ عوامل ہیں جو پانی کے بحران کو روز بروز سنگین تر بنارہے ہیں۔ پاکستان زرعی معیشت کا حامل ملک ہے۔ فصل خریف کی کاشت کا وقت سر پر ہے جس کے لئے پانی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مختلف آبی ذخائر سے 62 ہزار کیوسک پانی چھوڑے جانے کے بعد تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح 1389.45 فٹ ریکارڈ کی گئی ہے جو کہ ڈیڈ لیول سے محض 90.95فٹ بلند ہے اسی طرح منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 1061.60 فٹ بتائی گئی ہے یہ بھی ڈیڈ لیول سے صرف 21.61فٹ بلند ہے ۔ان دونوں ڈیموں میں پانی کی آمد کے مقابلے میں اخراج ضرورت سے بہت کم ہے ۔یہ صورتحال آمدہ فصل کے لئے فکرکا باعث ہے کیونکہ ابھی مون سون کی بارشوں میں بھی کم از کم دو ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ مون سون کے سیزن میں دریاؤں کا لاکھوں کیوسک پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے اور 70 سال کے عرصے میں ہم صرف منگلا اور تربیلا دو ڈیم ہی بناپائے ہیں حالانکہ ملک بھر میں سیکڑوں چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جانے کی گنجائش موجود ہے اور اس کے لیے تمام ضروری اقدامات ہماری قومی بقا کا تقاضا ہیں۔ تاہم فوری طور پر ضرورت اس امر کی ہے کہ محدود ذخیرہ آب کو انتہائی سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے اور ایک ایک قطرے کو ضائع ہونے سے بچانے کا اہتمام کیا جائے۔زیر زمین پانی کو بھی جس کی سطح بتدریج کم ہورہی ہے، بہت سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے اور لوگوں کو میڈیا کے ذریعے پانی کے محتاط استعمال کے بارے میں آگہی فراہم کی جائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین