حالیہ دنوں چین کے پاکستان میں نئے سفیر جناب یاوژنگ اور نئے انڈین ہائی کمشنر جناب اجے بساریہ سے الگ الگ ملاقاتوں کے مواقع میسر آئے۔ سفارت کاری جس قدر ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے سفیر کو اتنی ہی نپی تلی اور محتاط گفتگو کرنی پڑتی ہے۔ پاک چائنہ دوستی تو ہمالیہ سے اونچی، بحرِ ہند سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے لیکن انڈیا سے متعلق معاملہ ذرا مختلف یا زیادہ احتیاط کا ہے بلکہ امن کی آشا عرصے سے زخمی ہوئی پڑی ہے۔ حالانکہ ہم پاکستانیوں کا کلچر جتنا انڈیا سے ملتا جلتا ہے اتنا کسی اور ملک سے نہیں ملتا۔
سات دہائیاں قبل کے بٹوارے کی تلخیاں بلاشبہ ہمارے شامل حال ہیں، رہتی کسر پے در پے جاہلانہ خونریزیوں نے نکال دی ہے۔ وطنِ عزیز کی خارجہ پالیسی پر بحث کی ابتدا اس نقطے سے کی جاتی ہے کہ کیا وجہ تھی کہ پہلے وزیراعظم لیاقت علی نے روسی دعوت کو مسترد کرتے ہوئے تگ و دو کر کے امریکی دعوت نامہ منگوایا یوں پاک امریکا تعلقات کی بنیادیں رکھی گئیں۔ معترضین آج بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمسائیگی کو چھوڑ کر سات سمندر پار دوستی کی پینگیں کیوں استوار کی گئیں۔
بلاشبہ حق ہمسائیگی کی بڑی اہمیت و افادیت ہے مگر فکری ہم آہنگی کے تناظر میں جمہوریت و آمریت کے فرق کو بھی پیشِ نظر رکھا جانا چاہیے۔ ہم علی وجہ البصیرت یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ نظامِ جبر سے دوستی عسکریت کی اپروچ کے مفاد میں ہے جبکہ جمہوری الذہن قیادت کی نظروں میں عوامی مفاد کھلی جمہوریتوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے میں ہے۔ پھر یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ ایک طرف دوستی کی بنیاد محض باہمی مفاد ہے جونہی یہ ٹکرائے گا دوستی کا مضبوط قلعہ تارِ عنکبوت بنا دکھائی دے گا جبکہ دوسری طرف باہمی مفاد کے علاوہ انسانی مفاد کی بھی کچھ قیمت ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق کی خاطر آواز اٹھانا بھی کم از کم اصولی طور پر ہی سہی کوئی نہ کوئی معنی رکھتا ہے کیوں نہ مفاداتی تعلقات بھی وہیں بڑھائے جائیں جہاں آپ کے انسانی، اخلاقی، نظریاتی، آئینی یا جمہوری مفادات بھی ہم آہنگی رکھتے ہوں۔ کیا اس میں توازن کی کاوش کرتے ہوئے بہتری کی نئی تجاویز نہیں لائی جانی چاہئیں۔
چین ہو یا پاکستان، خطے میں انڈین اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دو ممالک بالخصوص چائنہ نے ہمیشہ اس وسیع تر منصوبے میں ان کی شمولیت کو خوش آمدید کہا ہے۔ آج کی دنیا جس طرح وسیع تر بلاکس میں جمع ہو رہی ہے اس کے پیشِ نظر خود انڈیا کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ خطے میں وسیع تر اشتراک کے لیے بڑھ چڑھ کر سامنے آئے۔ وہ چا بہار سے زیادہ گوادر اور سنٹرل ایشیا تک رسائی کی اہمیت کو تسلیم کرے بلکہ یہ درویش تو اس سے بڑھ کر یہ کہے گا کہ سارک کو توانا و مضبوط بنانے کی سب سے بڑی ذمہ داری خود انڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ سارک جیسی علاقائی تعاون کی تنظیم کا قیام خطے کے لیے قدرت کی نوازش سے کم نہیں تھا۔ یہاں آباد دو ارب سے زائد انسانوں کی خوشیوں میں سارک بڑی معاونت کر سکتی ہے۔ ممبر اقوام کو اس کی مضبوطی کے لیے دوررس اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ جو بھی دوطرفہ تنازعات ہیں انہیں ڈپلومیسی کے ٹریک ٹو یا تھری میں ڈالتے ہوئے سارک کی ترقی کو اس کا اسیر نہیں بننے دینا چاہئے۔
پچھلے دنوں بھارتی سماجی کارکن پاکستان تشریف لائے تھے تو خورشید قصوری صاحب اور شامی صاحب کی وساطت سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ وہاں بحث نے کچھ گرمی پکڑی تو درویش نے کہا کہ ہم ٹھنڈی گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ پاک ہند تعلقات میں بہتری یا دوستی دونوں ممالک کے معاشی مفاد میں ہی نہیں خطے میں امن سلامتی اور ہمہ جہتی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس سے دہشت گردی انتہا پسندی یا جنونیت ہی کو چوٹ نہیں لگتی ہے بلکہ وطنِ عزیز پاکستان میں آئین و پارلیمان کی عظمت پر ایمان رکھنے والی جمہوری قوتوں کو بھی تقویت و توانائی میسر آتی ہے۔ بشمول جناب اجے بساریہ اکثر انڈین زعما سے ملتے ہوئے ہم نے ہمیشہ یہ چیز نوٹ کی ہے کہ وہ مذہبی تقسیم کے رجحان پر مبنی اظہار کو مستحسن خیال نہیں کرتے وہ یہ باور کرواتے ہیں کہ ہمارے یہاں اکثریت اقلیت کا ایسا کوئی ایشو نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ ہر دو ریاستوں کے ذمہ داران کو اقلیتی طبقات کے لیے زیادہ اپنائیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنے سماج میں خود کو کمتر یا کسی نوع کے احساسِ محرومی کا شکار خیال نہ کریں۔
بھارتی سفارت کاروں سے اپنی ملاقات میں ہم نے مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے ہندوستان کا تقابل موجود ہندوستان اور اس کی قیادت سے کرتے ہوئے اس فرق کی وجوہات سمجھنے کی کوشش کی۔ انڈین ہائی کمشنر اجے بساریہ نے ہمارا تعارف اپنے سفارت کار جناب گوراو اہلو والیا سے کروایا جو گزشتہ تین سالوں سے اسلام آباد میں بطور قونصلیٹ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح ہائی کمیشن کے پولیٹیکل سیکرٹری جناب اویناش کمار سنگھ سے ملوایا جو بنیادی طور پر میرٹھ کے رہنے والے ہیں اور چند ماہ قبل ان کی تقرری اسلام آباد میں ہوئی ہے۔ سجاد پیرزادہ کی معیت میں ہم نے ان سب اور دیگر مہمانوں کے ساتھ بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ اور اندرون دہلی گیٹ میں واقعہ قدیمی تاریخی شاہی حمام وزٹ کیا۔ تعجب ہوا کہ لاہور میں رہتے ہوئے ہم نے کیوں کبھی شاہی حمام کو وزٹ نہیں کیا جہاں اس وقت تجارت کی غرض سے پاک ہند اناج کی بوریاں کھول کر نمائش کے لیے رکھی گئی تھیں اور ہر بوری کے ساتھ پاک ہند کاشتکاری کے حوالے سے پوری تفصیل لکھی پڑی تھی۔
شاہی حمام لاہور میں ہمیں قریباً ایک سو کارڈز کا تحفہ ملا جو واقعی کسی بھی کتاب سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ ہر کارڈ کی ایک جانب پرانی یادوں کے دریچے کھولے گئے ہیں اور دوسری طرف اپنی آپ بیتی بیان کرنے والے کی تصویر یا منظر نامہ ہے۔ پاک و ہند میں موجود یہ ان لوگوں کی یادیں ہیں جنہیں پارٹیشن کے وقت پاکستان سے انڈیا یا انڈین خطوں سے پاکستان ہجرت کرنی پڑی۔ مہاجرین کی داستانیں بڑی دلچسپ اور دلخراش ہیں۔ جناب اجے بساریہ نے نہ صرف اس نمائش میں خصوصی دلچسپی لی بلکہ شاہی حمام کے تمام حصے انہماک سے ملاحظہ کیے۔ انہوں نے جہاں شاہی مسجد کی وسعت کو متاثر کن قرار دیا وہیں شاہی قلعہ کے دیوانِ عام اور شیش محل کو اپنائیت اور دلچسپی سے ملاحظہ کرتے اور سوالات پوچھتے رہے۔ قلعہ سے گورودوارہ ڈیرہ صاحب اور شاہی مسجد کی تصاویر لیتے ہوئے اذان کی آواز کو بھی بڑے احترام اور خاموشی سے سنا۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے اپنے نیک عزائم کا اظہار کیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)