اسلام ایک جامع، ہمہ گیر، مکمل ضابطۂ حیات اور مثالی دستورِ زندگی ہے۔یہ انسان کی دُنیوی اور اُخروی فلاح اورکامیابی کا ضامن ہے۔ اسلام نے انسانیت کو جو ضابطۂ حیات عطا کیا ہے، وہ نجات اور کامیابی کا راستہ ہے، جس پر چل کر انسانیت کامیاب و بامراد زندگی کی شاہراہ پر آسکتی ہے۔
تعمیرِ شخصیّت اور فلاحِ انسانیت کے اصولوں پر قائم اس شاہراہِ حیات پر چلنا انسان کے لیے اس لیے آسان ہے کہ اسلام دینِ فطرت اور دینِ انسانیت ہے۔اس کی تمام تعلیمات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اسلام کو دیگر مذاہب میں اس لحاظ سے ایک امتیازی مقام حاصل ہے کہ اس کے سوا دنیا کے دیگر مذاہب اور تہذیبیں ایسا ضابطۂ حیات پیش کرنے سے قاصر ہیں، جس میں فرد کی انفرادی زندگی سے پورے انسانی معاشرے کی اجتماعی زندگی تک، فرد اور معاشرے کی اصلاح کی ضمانت فراہم کی گئی ہو، جب کہ اسلام جو فلسفۂ حیات اور مثالی شریعت عطا کرتا ہے، اُس کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں کی تعمیر اور صورت گری یقینی امر ہے۔
اسلامی تہذیب و معاشرت اسلامی ضابطۂ حیات کی ترجمان اور انسانی فطرت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے،جب کہ مغربی تہذیب،اسلامی تعلیمات سے بغاوت کادوسرا نام ہے، اگر دونوں تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی،اس حوالے سے شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسولِ ہاشمی
مغربی تہذیب مادر پدر آزادی کا دوسرا نام ہے،یہ دین فطرت ،اور دین انسانیت سے بغاوت کا نام ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کا جدید معاشرہ والدین کے حقوق، بڑوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت ومحبت، رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تحسین سے عاری ہے۔اس کے برخلاف اسلامی تہذیب معاشرے کے ہر فرد سے بلا تمیز رنگ و نسل حسنِ سلوک اورحسن معاشرت سے عبارت ہے۔
مغربی تہذیب میں خاندانی نظام ،بوڑھے والدین ،ایثار و ہمدردی معدوم نظر آتی ہے۔وہاں کا خاندانی اور معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ سے عبارت ہے۔جب کہ اسلام حسن معاشرت اور حسن اخلاق کا دوسرا نام ہے۔اسلام معاشرے کے ہرفرد خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ،ہر ایک حقوق کا محافظ ہے۔ہر ایک سے حسن معاشرت کی تعلیم دیتا ہے۔
ارشاد نبویؐ ہے: آپس میں سلام کو رواج دو۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث۹۳ وسنن ترمذی رقم الحدیث ۲۴۸۵) دوسری جگہ ارشاد ہے: گفتگو سے پہلے سلام ہے۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث ۲۶۹۹)
لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے اور ملنے جلنے کی تحسین بیان کرتے ہوئے سرورِکائنات ﷺ کا ارشاد ہے، جو مسلمان عام لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی طرف سے ہونے والی تکلیف دہ باتوں پر صبر اختیار کرے تو یہ ایسے مسلمان سے بہتر اور افضل ہے جو الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر کرے اور لوگوں کی تکالیف پر صبر اختیار نہ کرے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث ۲۵۰۷)
پھر اسی معاشرتی اور تمدنی زندگی کے گزارنے کے سنہرے اصول کے طور پر ارشاد فرمایا: لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث ۲۹۸)دوسری جگہ ارشاد نبویؐ ہے: اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تمہارا خندہ روئی سے پیش آنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔( سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۵۶)
اسلامی معاشرت میں والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کی بڑی اہمیت ہے ،حتیٰ کہ باری تعالیٰ جو کائنات کا خالق و مالک ہے، اس کے حقوق کے بعد اگر کسی کا درجہ اور حق بنتا ہے تو والدین کا ہے اور کیوں نہ بنے جب کہ وہ اس کے دنیا میں آنے کے ظاہری اسباب ہیں، اسی لیے اسلامی تعلیمات اوراسلامی تہذیب میں والدین کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کے لیے ایک طرف قرآن مقدس کہتا ہے: ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے۔ تو دوسری جانب شارح قرآن ﷺفرماتے ہیں: باپ جنت کے دروازوں میں سے درمیانی دروازہ ہے۔(المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث ۲۷۹۹، وسنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۰۰)اور ارشاد ہے: باپ کی رضا میں اللہ کی رضا ہے اور باپ کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۸۹۹)
والدین کی نافرمانی سے متعلق ارشاد ہے: کیا میںلوگوں کو سب سے بڑے گناہوں کی خبر دوں؟ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا،کیوں نہیں اے اللہ کے رسولﷺ! یعنی ضرور بتائیے۔ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ رب العزت کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا،بڑے بزرگوں کے ادب واحترام کا پاس ولحاظ رکھنا اسلامی تہذیب کا اہم جزو ہے۔( صحیح البخاری، رقم الحدیث ۵۹۷۶، وسنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۰۱)ایک جگہ ارشاد ہے: جو نوجوان بھی کسی بوڑھے شخص کا اس کی عمر کی وجہ سے ادب واحترام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت ایسا شخص مقدر فرمائے گا جو اُس کا ادب واحترام کرے گا۔ (سنن ترمذی، رقم الحدیث ۲۰۲۲)دوسری جگہ ارشاد نبویؐ ہے: جو شخص ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔(سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۱۹)
پڑوسیوں اور محلے داروں کا خیال رکھنا اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا بھی قدیم معاشرے اور اسلامی تہذیب کی دین ہے۔ ارشاد ہے: وہ موٴمن ہی نہیں ہے جو خود پیٹ بھرکر کھائے اوراس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(المستدرک علی الصحیحین، رقم الحدیث ۷۳۰۷)ایک اور جگہ ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر اور اچھا پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے سب سے اچھا ہو۔(صحیح ابن حبان، رقم الحدیث ۵۱۸)عزیز وقریب،احباب ورشتے داروں سے تعلق بناکے رکھنا حسن ِمعاشرت ہے اور تعلق ختم کرلینا معاشرت کے خلاف ہے، اسی لیے قطع تعلق کرنے والے کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت وعید ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے: رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث ۵۹۸۴ )
معاشرت محبت سے قائم رہتی ہے، اگرمحبت کا عنصر مفقود ہوجائے تو معاشرت میںشگاف پڑجاتا ہے اور محبت کے اسباب میں قوی سبب ایثار وقربانی ہے، اسی لیے قرآن مقدس میں ایثار کو قابلِ تعریف وصف قرار دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: وہ حضرات (ایثار کے معاملے میں دوسروں کو)اپنے سے مقدم رکھتے ہیں، گو انہیں فاقہ ہی کیوں نہ ہو۔(سورۃ الحشر:۹)یہ قدیم اسلامی تہذیب اور مسلم سماج کی ان خوبیوں کی ادنیٰ سی جھلک تھی جو حسن معاشرت سے تعلق رکھتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ تہذیبِ جدید اور مغربی معاشرہ جرائم کے روک تھام کے بجائے انہیں فروغ دینے میں مصروف عمل ہے،اس ماحول میں اولاد کی تعلیم وتربیت تو دُور، ان کی تعلیم گاہوں میں ایسا ماحول پیدا کرتا ہے، جہاں اچھی تربیت ناممکن ہے، جب کہ صالح معاشرہ اور اچھے سماج کا جوہراچھی تعلیم اور اچھی تربیت ہے۔
اس کے برعکس اسلامی معاشرہ گناہوں اور جرائم کے سدباب کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے، لہٰذا سلف صالحین سے ورثے میں ملنے والا معاشرہ اور قرآن وسنت سے ماخوذ تہذیب میں بڑی اصولی راہیں ملتی ہیں، مثلاً معاشرہ شرم وحیا سے آراستہ ہو، حدیث نبویؐ ہے: حیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے۔(سنن نسائی، رقم الحدیث ۵۰۰۶) دوسری جگہ ارشاد نبوی ہے: حیا سے خیر ہی وجود میں آتی ہے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث ۶۱۱۷)
نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے: ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔(سورۃ النور:۳۰) زنا اور حرام کاری جیسے مکروہ اورقبیح عمل کی ممانعت کے لیے قرآن پاک کی تعلیم ہے: زناکاری کے قریب بھی نہ جاؤ، وہ بڑی بے حیائی ہے۔ ( سورۂ بنی اسرائیل:۳۲)
مردوزن کے اختلاط سے روکا گیا۔پھر انسانی فطری ضرورت کی تکمیل کے لیے نکاح کی بابرکت سنت بڑی اہمیت رکھتی ہے ،پھر اسے آسان سے آسان بنانے کی ترغیب پر توجہ دی گئی، ارشاد نبویؐ ہے: سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے جس میں اخراجات سب سے کم ہوں۔( شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث ۶۱۴۶)
نیز صالح معاشرے اور مہذب سماج کی تشکیل میں کلیدی حیثیت اور نہایت اہم رول تربیتِ اولاد کا ہے، اسی پر توجہ دیتے ہوئے ہدایت دی گئی ہے: اچھے ادب (اچھی تربیت) سے بہتر عطیہ اور ہدیہ کسی باپ نے اپنی اولاد کو نہیں دیا۔( سنن ترمذی، رقم الحدیث ۱۹۵۲)
افسوس صد افسوس ان روشن خیال اور تہذیب جدید کے متوالوں پر کہ ہم دونوں تہذیبوں میں جب تقابل کرتے ہیں تو جدید تہذیب اور ماڈرن معاشرے کی تباہ کاریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی نام نہاد خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں، جب کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کی بے شمار اچھائیوں اور خوبیوں کو نظر انداز کرتے ہیں، حالاں کہ ہر بابصیرت اور انصاف کی نگاہ رکھنے والا انسان جب دونوں تہذیبوں کا مطالعہ کرے گا تو مجبور ہوگا کہ اسلامی معاشرے اور اسلامی تہذیب کی عظمت کا اعتراف کرے۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو عقل وسمجھ عطا فرمائے اور مغربیت سے بچ کر اپنے پروردگار اور آقائے نامدار تاجدار مدینہ سرورِ دوعالم ﷺکے بتائے ہوئے اصولوں پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)