مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
شعبان المعظّم قمری سال کاآٹھواں مہینہ ہے، شعبان کے معنی ’’جمع کرنا‘‘اور’’جداکرنادونوں آتے ہیں،چونکہ اہل عرب ماہ رجب میں آرام وسکون کے بعدماہ شعبان میں کمائی ودیگرامورکے لیے متفرق ہوجایاکرتے تھے ،اس لیے اسے ’’شعبان ‘‘کہاجانے لگا۔دورِجاہلیت میں اس مہینے کو’’عاذل‘‘اور’’موھب‘‘بھی کہاجاتاتھا،ہمارے ہاں شعبان المعظم کا لفظ بولاجاتاہے۔
احادیث میں آتاہے کہ رسول اللہﷺ رمضان کے بعد دیگرمہینوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ،کثرت سے روزے اسی ماہ مبارک میں رکھاکرتے تھے۔ یہ عظمتوں والامہینہ ہے۔نبی کریم ﷺ نے شعبان کواپنامہینہ اوررمضان کواللہ تعالیٰ کامہینہ قراردیاہے۔اس ماہ مبارک میں نبی کریم ﷺ کاکیامعمول تھا؟حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاآگاہ فرماتی ہیںکہ’’میںنے رسول اللہﷺ کوسوائے شعبان اوررمضان کے کبھی دومہینے لگاتارروزے رکھتے نہیں دیکھا۔‘‘
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں ’’رسول اللہﷺ رمضان کے بعدسب سے زیادہ ماہ شعبان میں روزے رکھتے تھے،کبھی توپورے شعبان کے اورکبھی شعبان کے کچھ دنوں کے روزے رکھتے۔‘‘نبی کریم ﷺ شعبان سے ہی رمضان کی تیاری شروع فرمادیتے تھے۔شعبان کی تاریخوںکویادرکھنے کاخوب اہتمام فرماتے۔یہ تھے سرکاردوعالم ﷺ کے معمولات۔
ہمیںبھی اس ماہ مبارک کی قدرکرنی چاہیے اوررمضان کی تیاری اسی ماہ سے شروع کردینی چاہئے۔اسی ماہ کی پندرہویں شب’’شب برأت‘‘کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں بندوں کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔اس رات کے بڑے فضائل وبرکات ہیں۔تقریباً دس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ’’ شعبان کی پندرہویں شب کومیںنے نبی کریم ﷺ کو آرام گاہ میںموجودنہ پایاتوتلاش میںنکلی دیکھاکہ آپﷺ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں۔پھرآپ ﷺنے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے، اس رات اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتا اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوںکے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔‘‘
دوسری حدیث میںہے’’اس رات میںاس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس میںتمہارے اعمال اٹھائے جاتے اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔‘‘
اسی طرح ایک روایت میںہے کہ’’ اس رات مخلوق(اہل ایمان) کی مغفرت کردی جاتی ہے، سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور، شرابی، قاتل، شلوارکوٹخنوںسے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میںبھی مغفرت نہیں ہوتی، جب تک کہ یہ اپنے گناہوں سےسچی توبہ نہ کرلیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میںمنقول ہے کہ اس رات عبادت کیا کرو اور دن میں روزہ رکھاکرو،اس شب سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتا اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہو؟ ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:
۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے،لیکن یادرہے کہ نبی کریمﷺ سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میںجنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لئے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔
۲۔اس رات میں نوافل، تلاوت، ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔ اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعے انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔یہ فضیلت والی راتیں گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلق استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں،ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔
۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریمﷺ ہرماہ ایام بیض کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے، لہٰذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔
باقی اس رات میں پٹاخے ،آتش بازی کرنا یہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے عبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔لہٰذاشیطان کی اتباع کی بجائے سنت کے مطابق اللہ کی عبادت کرکے اللہ کی رضا حاصل کریںاوران بندوں میںشامل ہوجائیں ،جن کی اللہ تعالیٰ اس رات میں مغفرت وبخشش فرماتا ہے۔