• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دین پر استقامت اور اُس کے تقاضے

مولانا حافظ عبد الرحمن سلفی

ارشاد باری تعالیٰ ہے:جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ان کے پاس فرشتے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ خوف اورغم نہ کرو، بلکہ اس کی جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم دنیا اور آخرت میں تمہارے مددگار ہیں اور تمہارے لئے وہاں (جنت میں) ہر قسم کی نعمتیںہوں گی، جس کے لئے تمہاری خواہش ہو گی۔(اللہ) غفور رحیم کی طرف سے تمہاری مہمانی ہو گی (سورۂ حمٰ سجدہ،۳۰تا۳۲)

اس کائنات ہست و بود میں بسنے والا ہر انسان کسی نہ کسی فکر و فلسفہ دین و مذہب یا نظریے پر ایمان و ایقان رکھنے والا ہے۔ ان میں اکثر الہامی مذاہب کے پیروکار ہیں ،مثلاً اسلام ،عیسائیت یا یہودیت اس کے برعکس دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی غیر الہامی مذاہب کی پیروکار بھی ہے، جیساکہ ہندومت ‘بدھ مت‘ مجوسی یا دیگر کفریہ و مشرکانہ عقائد کی حامل اقوام یا قبائل ہیں۔بہر کیف ہر انسان فطری طورپراپنے آپ کو رب کائنات کے ساتھ تعلق استوار رکھنے کی سعی و جہد میں مصروف عمل دکھائی دیتاہے۔ یہ علیحدہ بحث ہے کہ کون سا مذہب یا عقیدہ و فلسفہ مبنی برحقیقت ہے یا کون سا فلسفہ باطل اور گمراہی پر مبنی ہے۔ البتہ یہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان جس نظریے پر گامزن ہے ،وہ اسے ہی حق شناسی کا ذریعہ جانتا ہے ،لہٰذا وہ اپنی زندگی اسی کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔

روئے زمین کی سب سے بڑی صداقت رب تعالیٰ کی کبریائی اور ذات باری تعالیٰ کی عظمت ہے ،جسے ہر کوئی ضرور تسلیم کرتاہے ،خواہ زبان سے اقرار نہ کرے۔ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کے سامنے دنیاوی و اخروی فو زو فلاح اور کامیابی و کامرانی کا وہ نظریۂ حیات عطا کرتا ہے جس پر مستقل مزاجی سے گامزن رہنے والا نہ صرف آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کے عیش و آرام کے حصول میں کامیاب ہو سکتا ہے ،بلکہ اس دنیاوی زندگی کو بھی پرسکون و مطمئن انداز میں تسلیم و رضا کے سانچے میں ڈھال کر کامیاب بناسکتاہے، جس طرح کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے لئے مستقل مزاجی کا تقا ضا کیاجاتا ہے، بعینہ اسلام بھی اپنے ماننے والوں سے اس عظیم اظہار عبدیت کا مطالبہ کرتاہے کہ جب انسان اللہ ہی کو اپنا ملجا و ماویٰ تسلیم کرے تو پھر حق بندگی کا تقاضا ہے کہ ایسا بندہ بس اپنے رب کا ہی ہو کر رہے اور استقامت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے ہرمعاملے اور لمحات میں اپنے خالق ومالک کا غلام بن کر رہے اور اپنے رب کو چھوڑ کر ادھر ادھر کہیں نہ دیکھے۔ 

تب ایسے مومن بندوں کے لئے ان کے رب کی طرف سے خوش خبریاں ہیں کہ ان کا مالک انہیں ایسی جنتوں کا حقدار بناتا ہے، جن کی آسائشوں ولذتوں کا دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کسی بھی کام کےانجام دینے میں مسلسل جدوجہد اور کوشش کرنے کا نام استقلال یا استقامت کہلاتاہے۔ استقامت کے بغیر دین و دنیا کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا اور ہر اس کام کو جسے حق سمجھا جائے صحیح طو رپر حاصل کرنے کے لئے صعوبتیں برداشت کی جائیں ،تاہم صحیح بات سے انحراف نہ کیا جائے اور نہ ہی منہ پھیرا جائے ،خواہ اس راہ میں کتنی ہی تکالیف کیوں نہ آئیں، اسی کو استقامت کہتے ہیں۔ استقلال یا استقامت کسی بھی مقصد میں کامیابی کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔

جن لوگوں میں ہمت و استقامت نہیں ہوتی ،وہ کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ سچی لگن اور اپنے مقصد پر نگاہ انسان کو ہمت و طاقت فراہم کرتے ہیں اور جب یہی عظیم وصف اللہ کی رضا جوئی کے حصول کی خاطر دین کے لئے ہوتو اسے استقامت فی الدین کے پاکیزہ عنوان سے تعبیر کیا جاتاہے۔ شرعی حیثیت سے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں استقامت فی الدین کی بڑی اہمیت و فضیلت اور تاکید بیان کی گئی ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ترجمہ:پس آپ سیدھے استقامت سے چلئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے (اس پر آپ) اور (وہ) جس نے آپ کے ساتھ توبہ کی اور حد سے نہ بڑھو، بے شک، اللہ تمہارے تمام کاموں کو دیکھنا ہے۔(سورۂ ھود)

معلوم ہوا کہ سیدھا اور سچا راستہ اللہ ہی کا راستہ ہے اور یہی وہ راہ ہدایت ہے جس پر بندۂ مومن کو استقامت کے ساتھ چلنا چاہیے ،چونکہ یہ رب تعالیٰ کاحکم بھی ہے اور فوز و فلاح کا ذریعہ بھی ۔ اگر تمہارے پائے استقلال میں لغزش آئی تو جان رکھو کہ تمہارا رب تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور وہ تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے یعنی تم اپنے خالق و مالک سے اوجھل نہیں ہو ،وہ تمہاری دلی کیفیات سے بھی آگاہ ہے۔ 

اگر تم نے حالات کی ستم ظریفیوں سے گھبرا کر کفر و الحاد کے ساتھ مفاہمت کا رویہ اپنایا اور استقامت فی الدین سے منہ موڑا تو تمہارا رب اس سے خوب واقف ہے اور ایسے بندو ں کے لئے آخرت میں سوائے ندامت کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایک مقام پر استقامت فی الدین کی نصیحت اس اندازمیں کی گئی۔(ترجمہ) بے شک، تمہارا معبود ایک (اللہ ) ہی ہے سو اس کی طرف سیدھے رہو یعنی اس پر قائم و دائم اور جمے رہو اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو۔(سورۂ حٰم سجدہ)

یعنی دنیا کی سب سے بڑی صداقت یہی ہے کہ پوری کائنات کا بلاشرکت غیرے خالق و مالک اللہ تبارک و تعالیٰ ہی ہے اور وہی اس کانظام اپنی حکمت سے چلا رہا ہے ،لہٰذا وہی ہماری تمام تر عبادتوں کا حقدار ہے، اسی کی طرف استقامت و استقلال کے ساتھ رجوع کئے رہو اور اسی سے اپنے بشری تقاضوں کے مطابق ہونے والی خطائوں اور معصیات سے معافی طلب کرتے رہو ،چونکہ وہی معاف کرنے والا بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمارا ہر طرح کا ملجا و ماویٰ اللہ تعالیٰ ہی ہے اور ہمیں ہر آن مستقل مزاجی کے ساتھ اسی کی طرف استقامت و استقلال کے ساتھ رجوع کرنا چاہیئے۔

یہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عظیم جوہر حیات کی یاد دہانی کے لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں تکرار ہوتی ہے، تاکہ ہر لمحے یہ استقامت فی الدین کا وصف ہمارے دلوںمیں ہر دم جواں رہے۔ ہم ہر نماز خواہ فرض ہو یا نفل انفرادی ہو یا اجتماعی کسی بھی شکل میں ہو ،ہر رکعت میں اپنے رب سے یہی دعا کرتے ہیں۔(ترجمہ) اے اللہ ہمیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما اور اس پر ہمیں قائم رکھ۔(سورۃالفاتحہ)

معلوم ہوا کہ سیدھی راہ کا حصول ہی کافی نہیں،بلکہ تادم آخر اس پر ثابت قدمی و استقامت بھی لازم ہے، وگرنہ گمراہی ہمیں بربادی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی بڑی اہمیت بیان فرمائی ہے، تاکہ اہل اسلام ہر نماز میں اپنے رب سے استقامت فی الدین کی دعا کرتے رہیں اور ان کا رب انہیں اپنی توفیق و رحمت سے حق پر قائم و دائم رکھے۔ اہل سلام کو اعلان حق اور اس پر استقامت کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: پس اسی (رب) کی طرف بلائو اور اسی پر ثابت قدم رہو، جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے اور ان نااہلوں (یعنی نفس امارہ اور کفار)کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو۔ (سورۃ الشوریٰ)

گویا حق تعالیٰ شانہ کی توحید کی دعوت دینا اور اس دعوت پر سب سے پہلے خود استقامت و عزیمت کا مظاہرہ کرنا اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام پر صبرکرناہی اہل ایمان کا جوہرحیات ہے جو مومنانہ زندگی کو دنیاوی و اخروی کامرانی سے سرفراز کرتا ہے، اس لئے استقامت فی الدین کا حکم دیا گیا۔ اگر انسان غیر متوازن شخصیت اور کھلنڈرے پن کا حامل ہو تو وہ دنیا کا کوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا۔جب دنیاوی کاموں کی ادائیگی کے لئے استقلال ضروری ہے تو دین پر چلنے اور رب کی رضا کے حصول کی خاطر استقامت و ثابت قدمی انتہائی لازمی ہے۔ 

قرآن پاک میں ایسے ہی ثابت قدم رہنے والوں کو یہ خوشخبری سنائی گئی ہے کہ کامیابی تمہارے ہی لئے ہے۔ قیامت کے دن جبکہ خوف و ہیبت سے سب کے دل کانپ رہے ہوں گے، اس دن صاحبان استقامت کو کسی قسم کا خوف و ہراس نہ ہو گا، بلکہ انہیں ہر طرح کا اطمینان حاصل ہو گا‘ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے! بے شک، جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو انہیں نہ ڈر ہو گا اور نہ وہ خوف کھائیں گے۔ (سورۃ الاحقاف)

مکہ مکرمہ صدیوں سے اہل عرب کی مرکزیت کا حامل تھا اور اسی کی تولّیت کی وجہ سے قریش تمام قبائل میں عزت و شرف کے حامل گردانے جاتے تھے۔ اسی قیادت و سیادت کے نشے میں قریش نے دنیا کی سب سے بڑی سچائی کو جھٹلایا اور شفیع المذنبین ﷺ پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آیا کہ جب سپہ سالار اعظم ﷺاس شہرمیں کہ جہاں آپ ﷺ اور مسلمانوں کو انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑا ۔ 

اس شہر کے لوگوں نے آپﷺ اور آپ کے جاںنثار ساتھیوں پر وہ کون سا ظلم تھا جو روا نہیں رکھا ،آپ ﷺاس شان رحمۃللعالمینی کے ساتھ اس شہر فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے کہ نہ کوئی جنگ ہوئی ، نہ ہی کسی کی گردن ماری گئی اورنہ کسی کے مال و اسباب کو لوٹا گیا ،حالانکہ عام طو پر ہوتا یہی ہے کہ جب کوئی فاتح کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو مفتوح قوم کے افراد کا قتل عام کرتا، ان کے بچوں اوربوڑھوں کو غلام بناتا، عورتوں کی عصمتیں پامال کرتا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹ لیا جاتا ، لیکن آپﷺ کی فتح بھی عجیب تھی اور انداز جہاںبانی بھی سب سے منفرد بے مثل و بے نظیر تھا۔ آپ ﷺانتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ رب تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے اپنے مولد ووطن میں داخل ہوتے ہیں۔ 

اس موقع پر مکہ کے وہ اشراف و رئوسا جو اسلام دشمنی اور رحمت عالم ﷺ کی عداوت میں پیش پیش تھے ،لرزہ براندام ہیں کہ یقینا ًآج ہماری زندگی کا آخری دن ہے اورمحمد ﷺ کے احکام پر ہماری گردنیں اڑا دی جائیں گی، لیکن ہوا کیا۔ رحمۃ للعالمین ﷺ نے تمام اہل مکہ کے لئے امان جاری فرمادی، یہاں تک کہ جو بیت اللہ میں پناہ لے لے، وہ بھی مامون ہے جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوا اور جس نے اپنے گھر کے دروازے بند رکھے اوراہل اسلام کے مقابل جنگ و جدال سے باز رہا ،وہ محفوط و مامون ہو گیا۔ تاریخ انسانی میں یہ واقعہ نادر ونایاب ہے کہ کسی فاتح نے اپنے دشمنوں کو اس طرح عام معافی دی ہو۔ آپ ﷺانسانی دلوں پر حکومت کرنے والے تھے۔

آپ ﷺکا انداز جہاںبانی ایسا تھا کہ امیر اور مامور کے درمیان کوئی تفاوت نہ تھا۔ اگرعام مسلمان بھوک سے پیٹ پر ایک پتھر باندھے ہوئے ہوتاتو سرور کائنات ﷺکے جسداطہر پر دو پتھر بندھے ہوتے۔ عالم یہ تھا کہ نہ کوئی محل تھا اور نہ ہی کوئی آسائش، بلکہ باوجود رب تعالیٰ کے سب سے محبوب ترین پیغمبر ہونے کے آپ ﷺ نے کبھی میدے کی نرم روٹی تناول نہ فرمائی اور نہ ہی کسی قسم کے دنیاوی عیش و آرام کا حصول آپ کے پیش نظر رہا۔

یہ آپﷺ کی سیرتِ طیبہ اور صبر و استقامت کا وہ جوہر ہے،جس نے دنیا کو آپ ﷺ کا گرویدہ بنادیا۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلم حکمرانوں کو اسوئہ محمدی پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کا پرچم سربلند فرمائے۔(آمین یارب العالمین)

تازہ ترین
تازہ ترین