• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب کو خبر ہے، یہ بات بہت عام ہے، ہمارے معاشرتی نظام میں ـ’’مفت‘‘کا صیغہ انتہا ئی بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ روزمرہ معاملات زندگی سے جڑی ہرشے کی دستیابی ، پیمائش، ناپ تول ، کمی وز یادتی ، پیسوں یا نوٹوں سے منسلک ہو کر رہ گئی ہے۔ بہتر تعلیم کا حصول ہو، صحت کی معیاری سہولتیں ہوں ، غذائی ضروریات کو پورا کرنا مقصود ہو یا پھر ر ہائش ، زیبائش اور آرائش کے معاملات ہوں تمام امور خاطر خواہ رقم کے متقاضی ہیں۔معاملات
پیدائش کے ہوں یا اموات کے ، پیسوں کا عمل دخل ہر جگہ ہے۔بلخصوص تدفین کے بعد گھر واپسی پر، دسترخوان پر بیٹھے ، انتظار کرتے ،اقرباء اور محلے داروں کو پیش کی جانے والی ’’کڑوی روٹی ‘‘ پراچھا خاصا بجٹ صرف ہوتا نظر آتا ہے۔ اور پھر جب ’’یار گرم لے آئو ذرا‘‘۔ ’’بوٹیا ں بھی ڈلوادینا ‘‘ جیسی آوازیں سماعتوں سے ٹکراتی ہیں تو ’’دل‘‘ اور’’جیب‘‘ دونوں پر کاری ضرب لگائے بغیر نہیں رہتی ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے یہاں کچھ Free of cost سرو سز بھی موجود ہیں ، جیسے مفت دسترخوان، تجہیز وتدفین ، راشن، کپڑے ، دوائیاں وغیرہ،وغیرہ ۔ یہ کام کچھ درد مند دل افراد اور اداروں کی جانب سے غریب ، نادار ، لاوارث اور بے بس افراد کےلئےکئے جا رہے ہیں۔لیکن یہ سہولتیںعوام کی بہت بڑی تعداد اور ضروریات کے سامنے نہایت کم ہیں ۔ اور ظاہر ہے کافی ہو بھی نہیں سکتیںکیونکہ انفرادی طور پر یا اداروں کی جانب سے کی گئی کچھ مخلصانہ کوششیں ایک مسائل سے بھرپور نظام کو ٹھیک کرنے کا کسی طور حل نہیں ۔ مشکلات ہیں کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہیں ، اذیتیں ہیں کہ بڑھتی ہی جا رہی ہیں ، ہر نئی تکلیف پہلے سے زیادہ شدید ہے۔ لیکن اگر جذبے زندہ ہوں، ارادے مضبوط اور نیت صاف ہو تو بالآخر ہر مشکل آسان ہو ہی جاتی ہے۔جدوجہد اگرچہ کہ انفرادی صحیح، پرُ خلوص ہو تو ایک کاروان کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پھر وہ کاروان یکے بعد دیگرے خوشیاںہی بانٹتا چلا جاتا ہے۔بات صرف اور صرف خیال کی ہے، احساس کی ہے، مثبت سوچ اور رویوں کی ہے ۔ کبھی کبھی ہمارے ساتھ پیش آنے والا ایک ’’اقعہ‘‘ ہماری پوری زندگی ہی تبدیل کردیتا ہے اور وہ تبدیلی پھر بہت سی دیگر مثبت تبدیلیوں کاسبب بن جاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ پاکستان کے شہر پشاور میں بسنے
والےایک صاحب کے ساتھ ہوا تھا ۔ ایک دن والدہ کی طبعیت خراب ہوئی ، عارضہ دل کا تھا ، اسپتال لے تو گئے لیکن وہاں سہولتیں اور ضروریات کا فقدان جان بچانے میں ناکام رہا ۔ اور پھر وہ ہاتھ جو سر پر دعا بن کر رکھا جاتا تھا ، وہ وجود جو سراسر شفقت ، محبت ، تعظیم اور تکریم کا پیکر تھا ، جداہوا۔والدہ سے جدائی نے دل پر ایسا اثر کیا کہ پھر ہر لمحہ ابھرنے والی ’’ سوچ‘‘ نے ایک راہ اختیار کرلی جس کی منزل ’’انسانیت‘‘ تھی ۔ اسپتال کی مخدوش صورتحال نے ان صاحب سے انکی والدہ کا ساتھ تو چھڑوادیا ، لیکن پھر کسی کے ساتھ ایسا نہ ہو، کسی بیٹے سے اسکی ماں، اسکی جنت جدا نہ ہواسی جذبے کا عزم لئےوہ میدان عمل میں آئے ، وقت گزرتا رہا ، حوصلوں کو تقویت ملتی رہی۔ ایک ادارےکا قیام عمل میں آگیا ، جسکامقصد ایک صحت مند معاشرے کا قیام تھا ، غربت کا خاتمہ تھا ، غربت جو بلخصوص صحت کے شعبے کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ کوششوں میں مزید اضافہ ہوا تو والدہ کے نام پر ’’فری میڈیکل اینڈسرجیکل سپلائزکائونٹر ‘‘ سندھ میں حکومتی سطح پر چلنے ولے اسپتالوں میں قائم ہونے لگے۔ اور یہ سلسلہ اب بھی جاری وساری ہے۔ یقینا ان صاحب کی طرح اور بھی بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تئیں ملک اور قوم کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ کوئی صحت کے شعبے کی بہتری کے لئے کام کر رہا ہے تو کوئی تعلیم کی ، کچھ دال روٹی مہیا کرنے کا وسیلہ بنے ہوا ہے تو کچھ غریب والدین کو بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں جہیز اکھٹا کرنے میں مدد کر رہا ہے۔یہ کوششیں ضرور رنگ لائیں گی۔ ہم بحیثیت قوم متحد ہیں ۔ جوش وجذبہ ، لگن ومحنت کی کمی نہیں ، بس ضرورت رویوںمیںتبدیلی اور احساس کی ہے، اس سوچ کو اجاگر کرنے کی ہے جو انفرادیت سے زیادہ اجتماعیت کی حامل ہو۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین