• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’معذُروں کے حقوق‘‘ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

 
’’معذُروں کے حقوق‘‘ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

پیر زادہ خالد رضوی امروہوی

انسان کو خالق کائنات نے دنیا میں اشرف المخلوقات بناکر بھیجا۔ اسے قوت گویائی بھی عطا کی اور قوت سماعت بھی عطا کی ،قوت بصارت عطا کی تو مغز کو نظام اعصاب کا مرکز بنایا۔ارشاد ِربانی ہے:ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔(سورۃ التین)سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہے:اور یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی‘‘۔

خالقِ کائنات نے نفس انسانی کو بہت عزت و تکریم اور احترام و احتشام سے نوازا ہے۔دینِ اسلام ہمیں انسانیت کی تکریم کا جو درس دیتا ہے، وہ رنگ و نسل اور مذہب وملت کی تفریق سے پاک ہے۔ انسان کا احترام اُس کے رنگ، اُس کی نسل، خاندان یا مذہب کے باعث نہیں، بلکہ انسانیت کا احترام اس کے انسان ہونے کے باعث ہے۔ نبی مکرم ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانیت کو جو عزت اور وقار عطا کیا گیا ہے، وہ دنیا کا کوئی بھی دستور نہیں دے سکتا۔ آپﷺ نے فرمایا:اے بنی نوع انسان! تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جس طرح اِس ماہ (ذوالحجہ) اِس شہر (مکہ) میں تمہارے لیے اِس دن (یومِ عرفہ) کی عزت و حرمت ہے۔

انسانی معاشرے کا وہ حصہ جسے مادہ پرستی کے اس دور میں نظر انداز کردیا گیا ہے،وہ معذورافراد ہیں، یہ سماج کے اس طبقے میں وہ افرادہیں، جو رفتارِ زمانہ اور زندگی کی دوڑ میں اپنی طبعی دائمی اور پیدائشی مجبوریوں کی بناء پر پیچھے رہ گئے ہوں، بینائی، سماعت سے محروم، بے دست وپا دماغی طور پر مفلوج، دائمی روگ میں مبتلا افراد عام طور پر اس میں داخل مانے جاتے ہیں۔ 

معذوری کا لفظ اردو زبان میں دماغی اور جسمانی عارضے کو کہتے ہیں اور جسے یہ عارضہ لاحق ہو ،وہ معذور کہلاتا ہے،عربی میں ایسے شخص کو (عاجزمن العمل)جو کام کرنے میں عاجزاور کمزور ہو،کہا جاتا ہے،اسی طرح(الّذی لہ عذر)یعنی جو صحیح طور پر کام انجام نہ دے سکتا ہو۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق معذور وہ شخص ہےجسے طویل المیعاد جسمانی ‘ذہنی کمزوری ہو اور وہ معاشرے میں کردار ادا کرنے میں رکاوٹ کا سبب ہو۔

اس کائناتِ ارضی وسماوی میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات وہدایات کامل ومکمل ہیں اور اسلام ہی روئے زمین پر وہ مذہب ہے جو معذورین سمیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے۔ اسلام نے معذوروں کے مختلف حقوق پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا، کسبِ معاش کی الجھنوں سے انہیں آزاد رکھا ہے، وہ تمام قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ جن میں کمزوروں، بے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے، معذورین بھی ان کے مفہوم میں داخل ہیں۔

حضرت عبداللہ بن اُمِ مکتومؓ نابینا صحابی تھے۔وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا کچھ مدعا بیان کرنا چاہتے ہیں اور تعلیماتِ رسولؐ سے بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے حاضرِ خدمت ہو کر اپنا مدعا بیان کرنا شروع کر دیا، عین اُسی وقت کچھ اشرافِ قریش بھی آپﷺ کے پاس بیٹھے تھے ،جنہیں آپ ﷺدین حق کی تبلیغ فرما رہے تھے۔ 

دعوتِ حق کی حکمت عملی اور مصروفیت کے باعث آپﷺ عبداللہ ابن مکتوم ؓکی طرف توجہ نہ دے سکے ، سورہ ٴ عبس کا نزول ہوا۔ روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابیناصحابی ؓآپ ﷺ کی خدمت میں آتے تو آپ ﷺ بہت تعظیم وتکریم سے پیش آتے اور فرماتے: خوش آمدید اے وہ ساتھی جس کے بارے میں پروردگار نے مجھے متوجہ فرمایا۔

رسولِ پاک ﷺجب غزوہٴ احد کے لیے روانہ ہوئے تو اپنی جگہ انہی نابینا صحابی ابن ام مکتومؓ کو اپنا نائب فرمایا۔ غور کیجیے کتنا بڑا منصب ایک نابینا شخصیت کے سپرد کیا جارہا ہے اور تو اور ایک جُذامی آدمی کو بھی آپ نے اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا۔

ایک صحابی جن کی بینائی میں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا ،وہ خریدوفروخت میں اکثر دھوکا کھاجاتے تھے، آپ ﷺ نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدوفروخت میں خیارِ شرط مشروع فرمایا، جس کی رو سے بیچنے والے یاخریدنے والے کو بیع کی قطعیت کے لیے تین دن کی مہلت مل جاتی ہے۔

اسلام نے معذور افراد کو الگ تھلگ کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے بجائے اجتماعی معاشرت کا موقع دیا، ان کے مقام ومرتبے کے مناسب معاشرتی کام بھی تفویض کیے، احساسِ کمتری اور معاشرتی سردمہری کا شکار بننے سے انہیں تحفظ فراہم کیا۔

عزوہٴ تبوک کے موقع سے آپﷺ نے معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر بھی چلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں، صحابہٴ کرامؓنے عرض کیا، یہ کیوں کر ہوسکتا ہے، جب کہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: عذر نے انہیں وہاں روک دیا ہے۔ (صحیح بخاری )

آج معذورافرادکے حقوق کے علم بردار اور دعوےدار طاقتیں اپنی طاقت کے نشے میں نہ صرف معذوروں سمیت بستی کی بستی اور ملک کے ملک اجاڑ رہی ہیں،بلکہ ہلاکت خیز کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعے، نسلوں کو معذوربنا کر بے یار و مدد گار چھوڑ دیتی ہیں۔

حضور ﷺکی تعلیمات میں معذروں کے حقوق کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے،رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔(صحیح مسلم)لہٰذا ہمیں اپنے روز مرہ معمولات میں معذور افراد کی بھلائی اور معاونت کے لئے کوئی نہ کوئی قدم ضرور اٹھاتے رہنا چاہیے اور انہیں معاشرے کا عضو معطل سمجھ کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

چار نعمتیں

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: چار چیزیں جس شخص کو مل جائیں تو اسے دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی مل گئی، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر سے معمور دل،اللہ کا ذکر اور چرچا کرنے والی زبان، مصیبتوں کو سہنے والا جسم اور ایسی بیوی جو شوہر کے مال کی حفاظت کرتی اور عفت کے ساتھ زندگی گزارتی ہو۔

تازہ ترین
تازہ ترین