• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

حضرت زید بن حارثہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور آپ کے محبوب صحابی تھے۔ صحابہ کرامؓ انہیں حب الرسول اور ان کے صاحبزادے اسامہؓکو حب بن حب کہتے تھے۔اصحاب رسول ﷺ میں سے یہ شرف صرف حضرت زیدؓ ہی کو حاصل ہے کہ ان کا نام صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے۔ اسی فضیلت کی بناء پر بعض لوگوں نے حضرت زید ؓ کو افضل الصحابہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ زند ہ رہتے تو حضور ﷺ کے بعد خلیفہ ہوتے۔

حضرت زیدؓ قبیلہ بنو کلب کے ایک شخص حارثہ بن شرحبیل کے بیٹے تھے۔ان کی والدہ سعدی بنت ثعلبہ طے کی شاخ بنی معن سے تھیں۔ابھی ان کی عمر آٹھ سال کی تھی،وہ اپنی والدہ کے ساتھ سفر پر جارہے تھے کہ راستے میں قبیلہ بنی قین کے لوگوں نے حملہ کرکے لوٹ مار کی اور کچھ لوگوں کو پکڑ کر لے گئے، جن میں حضرت زیدؓ بھی شامل تھے۔حضرت زیدؓ کو عکاظ کے میلے میں حکیم بن حزام کے ہاتھ بیچ دیا گیا جو کہ حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے تھے۔ 

انہوں نے یہ غلام مکہ میں لاکر اپنی پھوپھی صاحبہ کے حوالے کردیا ۔آپﷺ کوحضرت زیدؓ کے عادات و اطوار اس قدر پسند آئے کہ آپﷺ نے انہیں حضرت خدیجہ ؓ سے مانگ لیا ۔ادھرحضرت زید ؓ کے گھر والے ان کے فراق میں غم سے نڈھال ہورہے تھے۔قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ بنی کلب کے چند افراد حج کے ارادے سے مکہ آئے توحضرت زید ؓ کو پہچان لیا ۔اس طرح حضرت زید ؓ کے گھر والوں کو ان کی خبر لگ گئی۔چناںچہ حضرت زید ؓ کے والد حارثہ،چچا کعب اور بھائی بھاگے ہوئے مکہ پہنچے۔حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپﷺ زید کو معاوضہ لے کر ہمارے حوالے کردیجئے ۔حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں بچے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے یا آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہے۔

اگر وہ آپ لوگوں کے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فدیہ لئے بغیر اسے آپ کے حوالے کردوں گا۔آپﷺ کی یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔چناں چہ حضرت زید ؓ کو بلایا گیا اور ان کے باپ اور چچا کے سامنے ان کے ساتھ بات کی گئی اور دنوں صورتیں ان کے سامنے پیش کی گئیں۔حضرت زید ؓنے جواب دیا کہ میں آپﷺ پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا ۔میرے جو کچھ بھی ہیں، آپﷺ ہیں ۔حارثہ یہ سن کر بہت مضطرب ہوئے اور کہنے لگے زید، کس قدر افسوس ہے کہ تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔

حضرت زید ؓ نے جواب دیا کہ اس ہستی کے ساتھ رہ کر میری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کے بعد دنیا و مافیہا کو اس کے سامنے ہیچ سمجھتا ہوں ۔حضرت زید ؓ کا یہ جواب سن کر باپ اور چچابخوشی راضی ہوگئے۔حضور ﷺ نے اسی وقت حضرت زید ؓ کو آزاد کردیا اور حرم میں جاکر قریش کے مجمع عام میں اعلان کرادیا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں، آج سے زید ؓمیرا بیٹا ہے۔یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے ۔ حارثہ نے یہ سنا تو اور بھی خوش ہوا۔باپ اورچچا دونوں مطمئن ہوکر واپس چلے گئے۔اب وہ کبھی کبھی مکہ آتے اور حضرت زید ؓ کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کرلیتے۔چونکہ حضرت زید ؓ کو آپﷺ نے آزاد کرکے بیٹا بنا لیا تھا ، اس لئے لوگ اب آپ کو زید بن محمد پکارنے لگے تھے۔

جب آپﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو حضرت زیدؓ کی عمر تیس سال تھی۔ اعلان نبوت کے ساتھ ہی ام المومنین حضرت خدیجہؓ،آپﷺ کے چچازاد بھائی حضرت علیؓ جو آپﷺ ہی کےگھر میں پرورش پارہے تھے اور آپﷺ کے رفیق حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایمان لے آئے اور ا ن کے ساتھ ہی حضرت زیدؓ نے بھی لبیک کہا اور یوں وہ ان چار ممتاز ہستیوں میں شامل ہوگئے ،جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

اسلام حقیقت پسندانہ روئیے کا قائل ہے،لہٰذا حقیقت کے مقابلے میں مصنوعیت کو قبول نہیں کرتا۔رائج الوقت دستور کے موافق متبنیٰ کی حیثیت بالکل حقیقی بیٹے کی سی تسلیم کی جاتی تھی، مگر اسلام نے اس کی اصلاح کردی۔چناںچہ سورۂ احزاب میں فرمایا:’’اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے ۔یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکالتے ہو ،مگر اللہ وہ بات کرتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہو اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو،یہ اللہ کے نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے۔‘‘

اس واضح ہدایت کے آجانے کے بعد مسلمان زیدؓ بن محمد ﷺ کی بجائے زید بن حارثہ ؓ کہنے لگے۔ جیسا کہ آغاز میں بیان کیا گیا کہ حضرت زیدؓ ہی وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن حکیم میں مذکور ہے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ لکھتے ہیں’’چونکہ قرآن کے حکم کے موافق ان کے نام سے اس نسبت عظیمہ کا شرف جدا کرلیا گیا تھا۔شاید اس کی تلافی کے لئے تمام صحابہ ؓ کے مجمع میں صرف ان کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ ان کا نام قرآن میں تصریحاً وارد ہوا۔‘‘

حضرت زیدؓ آپﷺ کے لئے گھر کے دوسرے افراد ہی کی طرح تھے۔آپﷺ نے ان کا نکاح ام ایمن سے کردیا جن کے بطن سے حضرت اسامہ ؓ پیدا ہوئے۔ بعد ازاں ،آپ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ ان کا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش ؓ سے کردیا جائے۔ چونکہ وہ ہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں اور حضرت زیدؓ بہرحال آازاد کردہ غلام تھے،لہٰذا وہ اور ان کے بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش ؓ اس عقد پر راضی نہ ہوئے۔

تب وحی الٰہی کے ذریعے ایک فیصلہ کن بات بتادی گئی کہ جس بات کا حکم اللہ اور اس کے رسول ﷺ دیں ،پھر اس کی خلاف ورزی کسی کے لئے جائز نہیں۔فرمایا ’’جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کوئی فیصلہ کردیں،تو پھر کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو ان کے معاملے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرے،بلاشبہ وہ کھلی نافرمانی میں پڑگیا۔‘‘(سورۂ احزاب)

اس آیت کے سنتے ہی حضرت زینب ؓ اور ان کے گھر والوں نے بلا تامل سر اطاعت خم کردیا۔چناںچہ اس کے بعد نبی اکرمﷺ نے ان کا نکاح پڑھایا۔ آپ ﷺنے خود حضرت زیدؓ کی جانب سے دس دینار اور ساٹھ درہم مہر ادا کیا اور کچھ کپڑے اور سامان خوراک گھر کے خرچ کے لئے بھجوادئیے۔

حضرت زینب ؓ حضرت زید ؓ کے ساتھ عقد نکاح میں منسلک تو ہوگئیں، مگر وہ اس احساس کو کسی طرح مٹا نہ سکیں کہ حضرت زیدؓ ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ان کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں۔ ادھر حضرت زیدؓ کو اس بات کا گہرا احساس تھا کہ وہ عرب کی معزز ترین شخصیت حضرت محمدﷺ کے منہ بولے بیٹے ہیں اور حضرت زینبؓ پر ان کو قوامیت کا شرف حاصل ہے۔

اگر چہ اس سے قبل متبنیٰ کے بارے میں حکم آچکا تھا، تاہم اللہ کو یہ منظور تھا کہ اس پر عمل در آمد کے لئے حضور اکرم ﷺ کی سیرت سے نمونہ پیش کیا جائے۔رسول پاک ﷺ کو آپ کے ساتھ بے حد محبت تھی۔ طبقات ابن سعد کے مطابق حضرت زید ؓ کو آپﷺ نے نو دفعہ سپہ سالار بناکر بھیجا۔آپ نے تقریباً تمام معروف معرکوں میں شرکت کی۔ غزوۃ المریسیع میں آپ شامل نہ ہوئے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے آپؓ کو مدینے میں اپنے جانشین کی حیثیت سے چھوڑا تھا۔ حضرت زید ؓ تیر اندازی میں مہارت رکھتے تھے اور اس فن میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔

رسول پاکﷺ کو حضرت زیدؓ کے بیٹے حضرت اسامہ ؓ سے بہت پیار تھا۔ جس طرح آپﷺ اپنے نواسوںکو گود میں بٹھاتے تھے،اسی طرح اسامہ ؓ کو بھی بٹھاتے ۔حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت اسامہ ؓکا وظیفہ میرے وظیفے سے زیادہ مقرر کیا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی توحضرت عمر فاروق ؓنے فرمایا کہ اے بیٹے! اسامہ ؓ آنحضرت ﷺ کو تجھ سے زیادہ پیارے تھے اور ان کے والد تیرے والد سے زیادہ آپﷺ کو محبوب تھے۔

حضرت زیدؓ عظیم سپاہی بھی تھے۔ان کے اندر سپہ سالارانہ خوبیاں تھیں۔ رسول اکرمﷺ نے جب کوئی فوجی مہم بھیجی اور اس میں حضرت زیدؓ شامل تھے تو سرداری ان ہی کے سپرد کی۔ اللہ کے رسولﷺ نے انہیں نو دفعہ مختلف مہمات کی طرف بھیجا۔

صلح حدیبیہ کے بعد حالات اس حوالے سے اسلام کے موافق ہو گئے تھے کہ پورے عرب میں اسلام کا پیغام بلا روک ٹوک پھیلنے لگا تھا۔ پھر فتح مکہ کے بعد جب پورا عرب گروہ درگروہ اسلام کے پرچم تلے جمع ہونے لگا تو آخری پیغمبرہونے کی وجہ سے آپﷺ نے اللہ کی ابدی ہدایت کو باقی دنیا میں بھی روشناس کرانے کی ذمہ داری نبھانے کاقصد کیا۔آٹھ ہجری میں بصریٰ کے فرماں روا کو بھیجی جانے والی سفارت اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔آنحضرت ﷺ کے سفیر حضرت حارث بن عمرازدی قیصر روم کے نام آپﷺ کی طرف سے نامۂ مبارک لے جارہے تھے کہ انہیں شہید کردیا گیا۔آپﷺ کو اس بدعہدی پر بڑا رنج ہوا ۔

آپﷺ کو اپنے وفا شعار حضرت زید بن حارثہؓ کی مفارقت کا اس قدر غم تھا کہ حجۃ الوداع سے واپسی پر ان کے صاحبزادے حضرت اسامہ ؓ کی سرکردگی میں ایک فوج کو انتقام کے لئے مامور فرمایا۔ چناںچہ حضرت اسامہ ؓ اسلام دشمنوں سے انتقام لے کر غیرمعمولی کامیابی کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔

تازہ ترین
تازہ ترین