خانہ جنگی کے شکار شام پر تازہ کیمیائی حملے نے انسانیت کا درد رکھنے والے ہر انسان کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ان عالمی طاقتوں کے کردار کو سمجھنے کی کوشش کی جو اپنے مفادات کی جنگ شام کی مقدس سرزمین پر لڑ رہے ہیں، شام کی جنگ تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بھی سمجھی جارہی ہے، مبصرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ شام کا بحران مختلف عالمی طاقتوں کے مابین جوہری تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔ میں ایسی باتیں کرنے والوں کو تاریخ کے سب سے ہولناک جوہری حادثے چرنوبل ایٹمی ریکٹر کی یاد دلانا چاہوں گا جس کو بیتے 32سال گزر گئے ہیں لیکن آج بھی انسانوں سے خالی متاثرہ شہر ویرانیوں کی منہ بولتی مثال ہے، آج وہاں مکان موجود ہیں لیکن مکین ہمیشہ کیلئے نقل مکانی کر کے جاچکے ہیں۔ آج سے فقط تین دہائیاں قبل26اپریل 1986ء کو سوویت یونین کے زیر اثر یوکرائن میں واقع چرنوبل ایک ہنستا بستا شہر تھا، ملحقہ شہر پرپیات کوئی لگ بھگ پچاس ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل تھا لیکن آج وہاں بھی انسانوں کا داخلہ ممنوع ہے، اس علاقے پر صرف خوفناک ماضی کے چند نقوش باقی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ دھندلا تے جا رہے ہیں۔ دریائے پرپیات کے کنارے واقع پرپیات شہر کو ہولناک حادثے سے فقط سولہ برس قبل1970ء میں سوویت یونین کے نویں جوہری شہر کے طور پر بسایا گیا تھا۔ چرنوبل، پرپیات کے شہری ویک اینڈ جمعے کی رات کو گہری نیند کی وادیوں میں تھے جب رات کے ڈیڑھ بجے وہاں واقع چرنوبل نیوکلیئر پاور پلانٹ تباہی کا شکار ہوگیا اور تابکاری آلودگی تیزی سے فضا میں پھیلنا شروع ہوگئی، دو سائنسدان موقع پر جان کی بازی ہار گئے جبکہ 29کارکن جھلس کر اگلے چند دنوں میں اگلے جہان سدھار گئے۔ ہلاکتوں کی صحیح تعداد کبھی سامنے نہ آسکی، مختلف اندازوں کے مطابق چار ہزار سے زائد باشندے موت کے منہ میں چلے گئے، ایک رپورٹ کے مطابق اگلے پندرہ برس دس ہزارسے دو لاکھ اضافی اموات کا باعث چرنوبل حادثہ تھا، اسی طرح ہزاروں لوگ کینسر، جلدی امراض اور دیگر وجوہات کی بنا پر اپنی فطری عمر پوری نہ کرسکے۔ چرنوبل حادثہ کے بارے میں گمان یہی کیا جاتا ہے کہ پاور پلانٹ تکنیکی خرابی کے باعث تباہ ہوا۔ سوویت تاریخ کے نازک موڑ پر جب چرنوبل پاور پلانٹ کی تابکاری کی وجہ سے زہریلی گیس پورے یوکرائن کی فضا کو گھیر چکی تھی بلکہ یہ بیلاروس، ماسکو، یورپ اور ہمسایہ ریاستوں کو بھی لپیٹ میں لے رہی تھی، سوویت حکومت آمریت کے روایتی ہتھکنڈے آزماتی ہوئی عوام کو بے خبر رکھنے میں مصروف تھی، اگلے دن دوپہر کو حکومتی اہلکار جائے حادثہ پر حفاظتی ماسک اور خاص قسم کے لباس پہنے پہنچے تو اذیت میں مبتلا پرپیات کے شہریوں کو سنگین صورتحال کا اندازہ ہوا۔ دوسری طرف حکومتی ٹیم کے فضا میں تابکاری کی مقدار کا پتا لگانے والے آلات نے حادثہ کی شدت کے بارے میں بتایا کہ پرپیات شہر کی فضا خطرے کے نشان سے پندرہ گنا زیادہ خطرناک ہو چکی ہے۔ حفاظتی تدابیر کے طور پر سویت انتظامیہ نے فوری طور پر متاثرہ عوام کو اپنے گھروں میں محصور رہنے اور دروازے کھڑکیاں مکمل طور پر بند رکھنے کی تلقین کی، پھر علاقے کو جلدازجلد خالی کرانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگلے دن 27اپریل کو شہریوں کو بسوں میں بھر بھر کر حفاظتی مقامات پر منتقل کیا جانے لگا، ابتدائی طور پر انہیں عارضی منتقلی کا بتایا گیا، چند گھنٹوں میں پورا شہر خالی ہوگیا لیکن اس وقت کسی کے گمان میں نہ تھا کہ پرپیات شہر سے نقل مکانی کرنے والے کبھی واپس نہ آسکیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی پرپیات کے دروازے ہمیشہ کیلئے بند ہوگئے ہیں۔ جوہری تابکاری سے بھرپور زہریلے بادلوں نے ہمسایہ ممالک کی فضابھی آلودہ کرنا شروع کردی اور پھر 28اپریل کی صبح سویڈن میں زہریلی بارش نے سوویت یونین کا راز فاش کردیا، سویڈش حکام نے ہنگامی طور پر عالمی برادری کو آگاہ کیا، اطلاع ملتے ہی پورا مغرب اور امریکہ فعال ہوگیا، مغربی ممالک نے اپنے سیٹلائٹ سیاروں کا رخ سوویت یونین کی طرف کیا تو چرنوبل حادثہ چھپ نہ سکا اور سوویت حکومت کو باضابطہ طور پر عالمی برادری کو ہولناک حادثہ سے آگاہ کرنا پڑگیا۔ عالمی برادری کو ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ تابکاری سے دریائے پرپیات آلودہ ہوسکتا ہے جس سے لاکھوں انسان اور آبی حیات متاثر ہوگی، اس سلسلے میں 18 ارب روبیل کی خطیر رقم لگا کر چرنوبل ری ایکڑ کے گرد ایک کنکریٹ کا حصار بنایا گیا۔ ہولناک حادثے کی شدت میں کمی لانے کیلئے اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے مثبت کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چرنوبل جوہری پلانٹ حادثے سے متعلق ایک اہم قرارداد منظور کی گئی جس میں عالمی تعاون کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ روس، یوکرائن اور بیلاروس کے اعلیٰ وزراء اور اقوام متحدہ کے چرنوبل کوآرڈینیٹر پر مشتمل کوآرڈینیشن کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، چرنوبل ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے مختلف فلاحی منصوبوں کو مالی امداد فراہم کی گئی۔ اقوام متحدہ کے مختلف ذیلی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بے شمار منصوبے شروع کیے، دیگر منصوبوں میں یورپی کمیونٹی اور عالمی اداروں کی طرف سے چرنوبل نیوکلیئر پلانٹ کو بند کر کے چرنوبل شیلٹر قائم کرنا شامل تھے۔ چرنوبل حادثہ سے متاثرہ شہریوں کی صحتیابی، نفسیاتی مسائل اور سماجی امور پر بھی توجہ دی گئی، چار ملین ڈالر کی لاگت سے ماحولیاتی تحفظ اور کاشتکاری سے متعلقہ پراجیکٹس بھی شروع کیے گئے۔ آج بھی یوکرائن کے قومی بجٹ کا بڑا حصہ چرنوبل حادثے کے اثرات پر قابو پانے کیلئے مختص ہے۔ جوہری تابکاری سے متاثرہ معذور شہریوں میں مشہور ایتھلیٹ اوکسانا ماسٹرز بھی شامل تھی جسکی پرورش امریکہ میں ہوئی، مغربی میڈیا کے مطابق متاثرہ بچی کی والدہ نے تابکاری سے آلودہ خوراک کھائی تھی جو اسکی پیدائشی معذوری کا باعث بنی، اوکسانا مڑی ہوئی انگلیوں کے ساتھ پیدا ہوئی تھی، اس کے انگوٹھے نہیں تھے، ہر پاؤں کی چھ چھ انگلیاں تھیں، ٹانگوں کی شکل بگڑی ہوئی تھی، گردہ ایک ہی تھا اور معدہ بھی مکمل نہیں تھا، اوکسانا خوش قسمت تھی کہ اسے ایک خدا ترس امریکی خاتون نے گود لے لیا اور وہ پیرالمپکس میں کشتی رانی اور دیگر عالمی مقابلوں کی فاتح قرار پائی لیکن چرنوبل حادثے کی بے شمار دیگر اوکساناؤں کا مقدر یوکرائن کے یتیم خانوں میں ہمیشہ کیلئے رہائش قرار پایا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2016ء میں ایک قرارداد منظوری کے ذریعے 26اپریل کو چرنوبل حادثے کی یاد منانے کیلئے سالانہ دن قرار دیا، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تین دہائیاں گزرنے کے باوجود حادثے کو کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا اور اس حوالے سے تمام ممبران ممالک میں سرگرم اداروں کو چرنوبل حادثے کے متاثرین کی بحالی کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ رواں برس اقوام متحدہ نے چرنوبل شہر کو ایک یادگاری مقام میں بدلنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے سبق بھی حاصل کیا جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل میں چرنوبل حادثہ جیسے انسانی المیہ کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ جوہری معاملات جیسے حساس ایشوز پر نہایت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے، آج متعدد عالمی غیر ریاستی عناصر کی طرف سے جوہری طاقت کے حصول کی خواہش خطرے سے خالی نہیں، جوہری اثاثوں کو محفوظ ہاتھوں میں یقینی بنانا عالمی برادری کی مشترکہ ترجیح ہونی چاہیے، میری نظر میں جوہری حادثہ ملکی سرحدوں کا پابند نہیں ہوا کرتا، یہی وجہ ہے کہ چرنوبل حادثہ کی معلومات چھپانا سوویت یونین کیلئے سودمند ثابت نہ ہوسکا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر سویت حکومت اپنے عوام اور عالمی برادری کو بروقت خبردار کردیتی تو شاید نقصانات میں کمی ممکن بنائی جاسکتی تھی۔ یہ کرہ ارض بلاشبہ قدرت کا انسان کیلئے خوبصورت تحفہ ہے لیکن ہم نے دنیا کو مختلف مسائل کی آماجگاہ بنا دیا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر عالمی امن کا قیام یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں، شام میں جنگ کی آگ کے شعلوں کو شام میں ہی بجھانا ہوگا ورنہ میں ایک بار پھر اس اندیشے کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ شام کا بحران پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)