• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک ِ انصاف کے جلسے میںلاکھوں لوگ تھے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس جلسے کے انتظامات بہت اعلیٰ تھے ورنہ اتنے افراد، اتنی ٹریفک اور پھر امن و امان کا خیال، یہ سب مشکل مراحل تھے۔اگرچہ یہ ساری جادوگری شعیب صدیقی کی تھی مگر اس سلسلے میںانتظامیہ نے بھی ان سے بھرپور تعاون کیا۔ پاکستان تحریک ِ انصاف والوںکو لاہور کی سرکاری مشینری کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ انہو ںنے بھی ٹریفک کے لئے علیحدہ روٹس ترتیب دیئے، امن و امان یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
میں یہ باتیں اس لئے لکھ رہاہوں کہ میں چند دوستوں کے ساتھ اس جلسہ گاہ میںگیا تھا۔ اس جلسے کے انتظامات واقعی شاندار تھے۔ اسی لئے عمران خان نے اپنی تقریر میں بھی ان انتظامات کی تعریف کی اور شعیب صدیقی کوشاباش بھی دی۔ عمران خان نے علیم خان کو بھی شاباش دی۔ پچھلے دس سالوں میں اپنا کاروباری نقصان کرنے والے علیم خان بھی بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔ چند روز پہلے وہ نیب لاہور کے دفتر گئے۔ وہاں سے نکل کر انہوںنے میڈیا سے جو باتیں کیں وہ بڑی دلچسپ تھیں مثلاً وہ کہنے لگے کہ ’’میں پنجاب کی سرکاری انتظامیہ پر بڑا حیران ہوں کہ جہاں علیم خان جگہ لیتا ہے وہاں مٹی کا رنگ بدل جاتا ہے۔ کبھی یہ رنگ سرخ ہو جاتا ہے تو کبھی یہ رنگ سبز ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی تو اسے نیلا پیلا بھی قرار دیا جاتا ہے۔ میرے ساتھ جوبھی ہو میں عمران خان کاساتھ نہیں چھوڑوںگا۔‘‘
تحریک ِانصاف کے اس بڑے جلسے کے بڑے پنڈال کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک حصے میں صرف خواتین تھیں۔ ایک حصہ فیملیز کے لئے تھا جبکہ تیسرا حصہ مردوںکے لئے تھا۔ اس گیارہ نکات والے جلسے میں 14مقررین تھے مگر چار مقررین کے علاوہ دس کی تقریریں جاندار نہیں تھیں۔ ان میں سے اکثر تو عوامی جلسوں کے مقررین ہی نہیںتھے۔ مثلاً اسد عمر، ڈاکٹر شیریں مزاری اور ڈاکٹر عارف علوی اپنے اپنے شعبوںمیں اہم ہوسکتے ہیں، خاص طورپرڈاکٹر شیریں مزاری دفاعی اور خارجہ امور پر بھرپور دسترس رکھتی ہیں۔ ان کی گفتگو میں مہارت ٹپک رہی تھی لیکن عوامی جلسوں کی تقریر ذرا مختلف ہوتی ہے۔ عارف علوی کو توویسے ہی این جی اوز کے سیمینارز میں بولنا چاہئے۔ رہے اسد عمر تو تاثر ہے کہ اقتصادیات کا اسے کچھ پتا نہیں۔ اس کے کریڈٹ میں صرف یہ ہے کہ وہ ایک کمپنی میں ملازم تھا۔ دوسرا کریڈٹ یہ ہے کہ وہ ہتھیار ڈالنے والے جنرل عمر کا بیٹاہے اورتیسرا کریڈٹ یہ ہے کہ وہ گورنر سندھ کا بھائی ہے۔ بڑے فنکار لوگ ہیں یہ۔ ایک بھائی نے نواز شریف کو رام کر رکھاہے، دوسرے نے آصف زرداری کو اور تیسرا عمران خان کو حسین خواب دکھا کر آنکھ کا تارا بنا ہوا ہے۔ اسلام آباد کی جس نشست سے اسد عمرکوجتوایا گیا تھا اگر اسےاس بارٹکٹ دیا گیاتو پی ٹی آئی کے لئے یہ سیٹ جیتنا مشکل ہوجائےگا۔ پتا نہیں تحریک ِ انصاف کے جلسوں کے لئے مقررین کون فائنل کرتا ہے۔ عمران خان کو یہ معاملہ خود دیکھنا چاہئے۔حالانکہ اب تحریک ِ انصاف ایک بڑی جماعت ہے اس کے پاس بہت سے عمدہ تقریریں کرنے والے موجود ہیں۔ اچھا بولنے والے موجود ہیں مثلاً طوطا کہانی سنانے والے مرادسعید کی جگہ پیر قادری سے تقریر کروائی جاسکتی تھی۔ اسی طرح عارف علوی اور اسد عمر کے بجائے علی زیدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے تقریر کروائی جاسکتی تھی۔ خواتین میں سے ڈاکٹر یاسمین راشد اور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے تقریر کروائی جاسکتی تھی۔ اسی طرح نذر محمدگوندل، امتیاز صفدر وڑائچ، مرتضیٰ سنی یا پیر صمصام بخاری میں سے کسی ایک کو میدان میں اتارا جاسکتا تھا۔ اعجاز چوہدری، نورعالم خان، خان سرور یا ندیم افضل چن سے بھی تقریریں کروائی جاسکتی تھیں۔ لاہور پی ٹی آئی کے صدر اور سیکرٹری جنرل سے ویلکم یاشکریہ ادا کروانا چاہئے تھا۔ پی ٹی آئی کو اپنی مقبولیت کے دور میںاپنی ان خامیوں پر ضرور سوچنا چاہئے۔ جب ان کے پاس اچھےمقررین ہیں توبرےمقررین میدان میں اتارنے کاکیا فائدہ؟ جلسے میںاچھی تقریریں بھی تھیں۔ پرویز خٹک اور جہانگیر ترین نے اچھے اندازمیں اپنی پالیسیاں بیان کیں۔ شیخ رشیداور شاہ محمود قریشی نےلوگوں کو خوب گرمایا۔ فوادچوہدری نے بڑی زبردست تقریر کی بلکہ انہوں نےاچھا کیاکہ لوگوں کوبتا دیا کہ جہلم کا کوئی قبرستان ایسا نہیں جوکسی شہیدکے بغیرہو، جہلم کےہر گائوں سے کسی نہ کسی نے وطن کےلئے جان ضرور دی ہے۔
اب آتے ہیں عمران خان کے پیش کردہ گیارہ نکات کی طرف۔ عمران خان نے اپنے یہ نکات پیش کرنے سے پہلے تاریخی حوالوں سے خوب سماں باندھا۔ عمران خان وقت کے ساتھ ساتھ انتہائی عمدہ مقرر بن چکے ہیں۔ ان کی تقریر بہت لاجواب تھی۔ انہوں نےدکھ کی باتیں بھی کیں، حوصلہ بھی دیا، لوگوں کو جگایا بھی، ان کی ہمت بھی بڑھائی۔ کپتان نے پاکستان کی خوبیاں بیان کیں، لٹیروں کی بات کی، نبی پاکﷺ کی بات کی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول سنایا، پھر جناح اور اقبال کی آرزوئوں اور خوابوںکا تذکرہ کیا۔دو گھنٹے پر مشتمل تقریر کے دوران میوزک کا تڑکا بھی لگتا رہا۔ کپتان کی تقریر سے پہلے یادگاری لمحات پر مشتمل ویڈیوز بھی دکھائی گئیں۔ پی ٹی آئی میوزک کے حوالے سے بڑی خوش قسمت ہے کچھ توگھر ہی کے گلوکار ہیں۔ ابرار الحق اور عطااللہ عیسیٰ خیلوی کے بغیر پاکستان کی گائیکی مکمل نہیں ہوتی۔ سلمان بھی کپتان کے لئے گاتا ہے اب تو راحت فتح علی، ملکو اور افشاں زیبی کے علاوہ چند اور فنکار انصاف پرست بن چکے ہیں۔باقی بھنگڑا ڈالنا پی ٹی آئی والوں کو خوب آتاہے۔ اس دوران فیصل جاوید خان انہیں گرماتا رہتا ہے۔
عمران خان کی تقریر سے پہلے بیرونی ملکوں میں پاکستانی حکمرانوں کی قدر و منزلت کے حوالےسے ایک موازنہ رپورٹ پیش کی گئی۔ لوگوں کو قائداعظم اور ایوب خان کے استقبال کے مناظر دکھائے گئے جب پاکستانی حکمرانوں کی بہت قدر تھی۔ پھر اس کے بعد پرچی پڑھتے ہوئے وزیراعظم دکھائےگئے اور پھر تو نگاہیں اور بھی جھک گئیں جب ایک وزیراعظم کے کپڑے اتروائے گئے۔ دو گھنٹے تک جم کر تقریر کرنے والے کپتان نے ہماری پوری کہانی بیان کردی۔ پاکستان کو نالائق اور نکمے حکمران کہاں سے کہاں لے گئے یہ سب عمران خان نے بیان کردیااور پھر اس کے بعد وہ گیارہ نکات پیش کئے جن سے پاکستان کا مقدر بدلا جاسکتا ہے۔ وہ گیارہ نکات کچھ اس طرح ہیں۔
۱۔تعلیم۔ ملک بھر میں نصاب ایک ہوگا۔
۲۔ صحت۔ پورے پاکستان کے لئے ایک ہیلتھ پالیسی ہوگی۔
۳۔ ٹیکس اصلاحات۔ ٹیکس سسٹم ٹھیک ہوگا۔
۴۔ احتساب۔ کرپشن پر قابو پایا جائے گا۔ چوری روکی جائے گی۔
۵۔ سرمایہ کاری۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو لایا جائے گا۔ سیاحت کو بھی فروغ دیا جائے گا۔
۶۔ روزگار۔ بیروزگاری کا خاتمہ ہوگا۔ انڈسٹری کو فروغ دیا جائے گا۔
۷۔ نظام۔ نظام حکومت بہتر بنایا جائے گا یعنی گورننس بہتر ہوگی۔ فاٹا کو کے پی میں ضم کیاجائے گا۔ جنوبی پنجاب صوبہ ہوگا۔
۸۔ زرعی اصلاحات۔ زراعت کی بہتری کے لئے زرعی ایمرجنسی نافذ ہوگی۔
۹۔ بلدیاتی نظام۔ پورے ملک میں ایک جیسا بلدیاتی نظام ہوگا۔
۱۰۔ پولیس کا نظام۔ پولیس کے نظام میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ انصاف میں تاخیر بھی ختم کی جائےگی۔
۱۱۔ خواتین کےلئے ریفارمز۔ تحریک انصاف کی حکومت خواتین کو قومی ترقی کے عمل میں شامل کرے گی۔ انہیں تعلیم کےزیور سے آراستہ کیاجائےگااور انہیں قومی تعمیر و ترقی کے عمل میں مفید بنایاجائےگا۔
خواتین وحضرات!اگر ان نکات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ان نکات پرعمل ہو گیا تو پھر پاکستان کو ایک طاقتور فلاحی ریاست بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کے یہی مسائل ہیں اگر لوگوں کوبہتر یکساں تعلیم اور صحت مل جائے تو اور کیا چاہئے۔ اگر لوگوں کے بچوں کو روزگار مل جائے، مہنگائی کم ہوجائے، کرپشن ختم ہو جائے تو اور کیاچاہئے۔ اگر لوگوں کو فوری انصاف ملے، نظام حکومت بہتر ہو، طرز حکومت بہتر ہو، جہالت کا خاتمہ ہوجائے تو یقیناً نتائج شاندار ہوں گے مگر ان تمام باتوں کے پورا ہونے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ عمران خان کی ٹیم کیسی ہوگی؟  اگر وہ نواز شریف جیسی تجربہ کار ٹیم لائے تو پھر نتیجہ صفر ہوگا۔ صرف کپتان نہیں، اس کی ٹیم بھی بہتر ہونی چاہئے۔ تحریک ِ انصاف کے ’’ارسطو‘‘ اسد عمر نے احمد ندیم قاسمی کا جو شعر غلط پڑھا تھا، وہی یاد آ رہا ہے کہ؎
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنےکی بھی مجال نہ ہو
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین