• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی میدان میں طبل جنگ بجنے کو ہے، سیاسی پہلوان اکھاڑے میں اترنے کو ہیں، وارم اپ جلسوں کا زور و شور عروج پر پہنچ رہا ہے، ایک بڑی سیاسی ٹیم کےچیمپئن اور اس کےاہم پہلوانوں کو رنگ میں اترنے سے پہلے ہی بوجوہ ناک آؤٹ کیا جاچکا ہے بعض اکھاڑے میں اترنے سے پہلے ڈوپ ٹیسٹ سےگزر رہے ہیں۔ دکھائی دے رہا ہے کہ زیادہ تر مضبوط پٹھے رنگ سے باہر بیٹھ کر ہی مقابلہ کا محض نظارہ کریں گے۔ نوجوانوں کی پارٹی کےکپتان نے میدان میں اترنے سے پہلے اپنی حکمت عملی کا اعلان کردیا ہے۔ ایک پرانے سیاسی کھلاڑی کے بقول کپتان نے انتخابی معرکہ شروع ہونے سے پہلے انتخابی منشور سامنے لاکر پہلا سیاسی مکا مار دیا ہے تاہم نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے انہوں نے اپنی صفوں میں جن پرانے کھلاڑیوں کو ساتھ ملایا ہے ان میں سے زیادہ تر کی ماضی کی کارکردگی کچھ حوصلہ افزا نہیں رہی۔2013 کے انتخابی معرکے میں شکست کے بعد مسٹرخان کی سیاست اتار چڑھائو اور ان کی ذات الزامات کی زد میں ہے۔2014 میں ایمپائر کی انگلی نہ اٹھنے سے لے کر2018 کے سینٹ انتخابات تک ’’اوپر‘‘ سے احکامات کے معاملے نے انہیں سنجیدہ حلقوں اور ووٹرز کی نظر میں کچھ کم وقعت کیا اور اسی تاثر کو زائل کرنے کے لئے انہوں نے پاکستان کےدل، ن لیگ کے گڑھ اور پاکستان کی یادگار پر بڑا عوامی اجتماع کرکے حکمرانوں کو کچھ پریشان بھی کردیا ہے، اب حکمرانوں کا یہ جواز مان بھی لیاجائےکہ لوگ ادھر ادھر سے اکٹھے کئے گئے تو یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ جو لوگ بھی آئے وہ اپنی مرضی سے آئے، لائے نہیں گئے۔
سیاسی طور پر جلسوں کو مقبولیت کا معیار کہا جاتا ہے لیکن اس کی حقیقت یہی ہے کہ گزشتہ انتخابات میں بیلٹ باکس سےنتائج بہت مختلف برآمد ہوئے تھے۔ اب کی بار یہ مکالمہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ 2011 میں مینار پاکستان پر انصافینز کا اکٹھ اکیلے عمران خان کا شو تھا جبکہ 2018 کا مجمع پوری تحریک انصاف کی کاوش ٹھہری ہے جو کسی حد تک کامیاب تو رہی لیکن اپنا ماضی کا ریکارڈ نہیں توڑ سکی۔ تبھی تو عدالتوں کے ہاتھوں سیاست کی قربانی دینے والے سابق وزیراعظم بھی سوشل میڈیا پر چلنے والے جملوں سے محظوظ ہوکر بےاختیار بولے۔ شہر لاہور دا، مجمع پشور دا تے ایجنڈا کسی ہور دا۔
کھیل کے میدان کے کپتان نے سیاست میں کپتانی کی ٹھان کر اپنا 11 نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے تاہم اس پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پیش نہیں کی۔ انتخابی منشور کا پہلا نکتہ یکساں نصاب اور ایک نظام تعلیم رکھا گیا ہے جو یقینی طور پر پاکستان کے بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے لیکن اس کا براہ راست تعلق دولت کی غیرمساویانہ تقسیم ہے جس کا حل نکالنا پہلی ترجیح ہونی چاہئے۔ صحت اور غریبوں کے لئے بلاتفریق ہیلتھ انشورنش کی بات کی گئی لیکن اس کے لئے پہلے صحت کے بنیادی مراکز، ’’پڑھےلکھے‘‘ ڈاکٹرز، اسٹاف اور معیاری اسپتالوں کی بھی ضرورت ہے، ٹیکس کا ادارہ اور نظام خود کرپشن کا شکار ہے عوام 8 ہزار ارب دے سکتے ہیں لیکن قومی دولت کے درست استعمال کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔ کرپشن کا خاتمہ خواہش ضرور ہے لیکن سیاسی درگت بنانے اور بازو مروڑنے کے ماہر ادارے نیب کو مضبوط بنانے سے پہلے ٹھیک کون کرے گا۔ سرمایہ کاری کون لائے گا جب ٹکٹ کی امید میں آپ کے اردگرد بیٹھے کروڑوں اور اربوں پتی کا اپنا سرمایہ باہر ہے۔ عوام کو بےروزگار اور نادار کرنے والے زمین دار، صنعت کار اور لٹھ بردار سب آپ کے ساتھ جڑ گئے ہیں،60 فی صد پڑھے نوجوانوں کے روزگار اور غریبوں کو 50 لاکھ گھر دینے کا خواب کیسے پورا ہوگا۔ سیاحت اور زراعت کو فروغ دینے کا ارادہ خوب ہے لیکن زمین کی مساویانہ تقسیم کے لئے لینڈ ریفارمز پہلا قدم ہوتا ہے لیکن اس کا آغاز کیسے کیا جائے گا۔ وفاق کو مضبوط کرنا ضروری ہے لیکن وسائل کی تقسیم کا نیا فارمولا کیسے بنے گا، فاٹا کو پختون خوا میں ضم کرنے کا پراسس شروع ہوچکا ہے تاہم فاٹا کےعوام کو برابری کی بنیاد پر حقوق کیسے ملیں گے۔ پولیس نظام کی اصلاحات بہت ضروری ہیں لیکن انہیں فرض شناس اور ایماندار بنانے کا فارمولا کیا ہوگا۔ خواتین کے حقوق اور فلاح و بہبود کا ارادہ بہتر ہے تاہم ایسے حالات میں جب انہیں عدم تحفظ کے احساس کےباعث آپ کے جلسوں میں آنے میں دقت ہو، ان کو معاشرے میں تحفظ، جائز مقام سمیت ہرسطح پر ترجیحی مواقعوں کا ٹاسک پورا کرنے کا طریقہ کار کیونکر ممکن ہوگا۔ سیاسی نقادوں کی نظر میں آپ کا انتخابی ایجنڈا سیاسی اعلانات سے زیادہ نہیں دکھائی دے رہا کیونکہ یہ سب تو73 ء کےمتفقہ آئین کے وہ بنیادی نکات ہیں جن پر عمل درآمد یقینی بنانا ہر وفاقی و صوبائی حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے، یہ بھی اہم ہے کہ ان گیارہ نکات میں وطن عزیز کو کئی دہائیوں سے درپیش انتہاپسندی و دہشت گردی سے نمٹنے کا کوئی پلان نہیں دیا گیا، عالمی حالات بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی حکمت عملی کا ذکر بھی شامل نہیں کیا گیا اس کے علاوہ موجودہ بدترین عالمی دبائو اور دشمن کی چالوں سے نمٹنے کے لئے خارجہ پالیسی بارے بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔
حقیقت احوال ہے کہ 80 سے 90 فی صد سیاسی جماعتیں وفاق اور صوبوں میں حکمران ہیں، آج پانچ سال مکمل ہونے پر کیا آپ میں سے کوئی ایک بھی ہے جو اپنی ان آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بارے میں سچ بولے اور حقائق سامنے لائے۔ شاید مشکل ہے کیونکہ جہاں اقتدار کی غلام گردشوں کے مقیم، مال اکٹھا کرنے کی ہوس میں غیرملک سے وفاداری کاحلف تک اٹھا لیتے ہوں ان سے عوام اپنے اچھے کی توقع کیسے اور کیونکر کرسکتے ہیں۔
دراصل اصول و ضوابط، آئینی ذمہ داریاں محض گفت گو، نعروں اور تقریروں تک محدود ہیں اور ذاتی ایجنڈا قومی ایجنڈا ہے۔ انہی غلطیوں اور کوتاہیوں سے حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلےبڑھتے ہیں،
ادارہ جاتی خلا بنتا ہے جو طاقتوروں کو جواز اور طاقت فراہم کرتا ہے، وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں تو اس کو مداخلت کہا جاتا ہے۔ پھر یہی المیہ جب نااہلی کی صورت وقوع پذیر ہوتا ہےتو ’’نیک صفتوں‘‘ کی تلاش کو سیاسی انجینئرنگ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہم کب تک عوامی طاقت کے چھن جانے اور محرومیوں کا رونا روئیں گے۔ ایک اور جمہوری دور مکمل ہورہا ہے آئیں اپنی اپنی پرفارمنس شیٹ عوام کے سامنے رکھیں۔ سیاسی میدان کا بڑا پہلوان ن لیگ کو کیوں نکالا اور ووٹ کو عزت دو کےنعرےسے نکل کر ووٹر کو عزت دینے کا ثبوت دینا ہوگا۔ سیاسی مخالفین کی نظر میں پیپلزپارٹی نے سندھ کو افریقہ کا روانڈا بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسے کم از کم روٹی کپڑا اور مکان کےنعرے کا جواب تو دینا ہوگا۔ ایک مرتبہ پھر پانچ سال اقتدار کا جھولا جھول کر متحد ہونے والی جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی کو بھی ’’حرم کی پاسبانی‘‘ کی ’’مشکلات‘‘ کا حساب دینا ہوگا۔ بلاشبہ مسٹر خان کے روز نئے کرتب خوشنما ہیں لیکن ایسا نہ ہو تبدیلی کے انتظار میں عوام کے اعتبار کا موسم گزر جائے۔ کیا ہی اچھا ہو خان صاحب 11 پرانے آئینی نکات کی بجائے مقتدر صوبے کی کارکردگی کو مثال بناکر پیش کردیں، کم از کم پانچ شعبوں کی کارکردگی کو فیکٹس اینڈ فیگرز کے ساتھ کلیئر اینڈ پریزنٹ انداز میں عوام کے سامنے لاکر دشمن کےسینوں پر مونگ دل دیں۔ نمبر ایک :دہشت گردی کے خاتمے کے لئے صوبے کی پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پرفارمنس نمبر2: بجلی کی قلت دہشت گردی کےبعد دوسرا سنگین مسئلہ ہے، پہاڑی اور قدرتی ڈھلوانوں سے فائدہ اٹھا کر بجلی کے لگائے گئے منصوبوں اور اب تک کی پیداوار۔ نمبر 3:کرپشن کےخاتمےکے نیب کے صوبائی محکمے سمیت دیگر اداروں کے بےلاگ احتساب کی قائم کردہ مثالیں اور پکڑے گئے اسکینڈلز۔
نمبر 4:تعلیم اور صحت کےشعبے میں وفاق کے اعلان سے ہٹ کر اضافی صوبائی بجٹ سے لائی جانے والی انقلابی تبدیلیاں
نمبر5:ایک ارب لگانے کےتاریخی اقدام کی تمام ویڈوز سمیت زمینی حقائق۔
خان صاحب کی اپنی کارکردگی کے یہ حقائق منظرعام پر لانے کی ایکسرسائز نہ صرف مخالفین کی نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہوگی بلکہ آئندہ انتخابات میں آپ کو ناقابل شکست اور بڑےاقتدار کی منزل پانے کےخواب کی تعبیر بن سکتی ہے۔ وطن عزیز میں وقت پر عام انتخابات ہونا ضروری ہیں لیکن اس کے لئے سیاسی انجینئرنگ کے خدشات کا بھی خاتمہ ضروری ہے اور اس کے لئے جمہوریت کی سربلندی کے لئے عزم مصمم کےساتھ کھڑے آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان ازخود نوٹس لے کر اس غیرجمہوری سوچ اور الزامات کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔
پہلی مرتبہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ڈالے گئے تو نہ صرف عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد بحال ہوگا بلکہ جمہوریت ناقابل تسخیر ہوجائے گی تاہم اس سے پہلے تسلی کرنا ضروری ہے کہ سیاسی میدان میں اصلی پہلوان اتریں اور اکھاڑے میں حقیقی لڑائی ہو ورنہ اس کو فیک فائٹ کہا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین