• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مالی سال 2018-19 کا 1890؍ارب روپے کے خسارے کا وفاقی بجٹ مفرضوں اور تضادات پر مبنی ایک ایسا غیر حقیقت پسندانہ بجٹ ہے جس میں انتخابی سال کے مناسبت سے مختلف طبقات کو زبردست مراعات دی گئی ہیں مگر پہلے سے مقرر کردہ معیشت کی شرح نمو اور برآمدات کے اہداف میں زبردست کمی کردی گئی ہے۔ معیشت کو اس وقت جو زبردست چیلنجز اور خطرات درپیش ہیں، یہ بجٹ ان سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا 2018-19 میں معیشت کی شرح نمو ٹیکسوں کی وصولی، برآمدات اور بجٹ خسارے کے اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے جبکہ جاری حسابات کا خسارہ اور مہنگائی بڑھے گی۔
گزشتہ کئی برسوں سے حکومت اور کچھ ماہرین کی جانب سے یہ دعویٰ تواتر سے کیا جارہا ہے کہ سی پیک سے پاکستان کی قسمت بدل جائے گی۔ واضح رہے کہ چین نے سی پیک اپنے مفاد میں شروع کیا تھا جس سے پاکستان میں زبردست بہتری آنےکی یقینا گنجائش ہے۔ اس حقیقت کو بہرحال تسلیم کرنا ہوگا کہ کسی بھی ملک کی سرمایہ کاری سے دوسرے ملک کی قسمت نہیں بدلا کرتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’کسی قوم کی حالت نہیں بدلتی جب تک وہ اپنے اوصاف نہیں بدلتی (الرعد آیت 11 ) سی پیک منصوبوں کے ضمن میں ابھی تک شفافیت کا فقدان ہے اور ماضی میں مختلف طبقات کی طرف سے متعدد تحفظات و تجاویز پیش کی جاتی رہی ہیں جن کو وفاق، چاروں صوبوں اور ریاستی اداروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ بات 2014ء میں ہی واضح ہوچکی تھی کہ سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد کیلئے بڑے پیمانے پر مشینری کی درآمدات کرنا ہوں گی چنانچہ یہ انتہائی ضروری تھا کہ برآمدات میں تیزی سے اضافہ کیا جائے۔ بدقسمتی سے وفاق، چاروں صوبوں اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر نے جو پالیسیاں اپنائیں ان کے نتیجے میں پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ لگاتار تین سال مالی سال 2016,2015 اور 2017ء میں پاکستانی برآمدات گرتی رہیں چنانچہ تجارتی خسارہ بڑھتا رہا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں مالی سال 2009ء مالی سال 2013ء کے پانچ برسوں میں تجارتی خسارہ 88.7ارب ڈالر اور جاری حسابات کا خسارہ 20.8 ارب ڈالر رہا تھا جبکہ موجودہ حکومت کے 4 سال 9 ماہ میں تجارتی خسارہ 125.7 ؍ارب ڈالر اور جاری حسابات کا خسارہ 34.9 ارب ڈالر رہا۔ مالی سال 2017 اور 2018ء میں معیشت کی شرح نمو 5.3 فیصد اور 5.8 فیصد رہنے کا دعویٰ فخریہ کیا جارہا ہے مگر یہ بات فراموش کردی گئی ہے کہ وژن 2025 میں کہا گیا تھا کہ 2018ء سے معیشت کی شرح نمو 8 فیصد سےزائد رہے گی۔ مالی سال 2019ء کے لئے شرح نمو کا ہدف 6.2 فیصد رکھا گیا ہے جو کہ مایوس کن ہے۔ مالی سال 2018 ء میں برآمدات کا ہدف 35؍ ارب ڈالر تھا جبکہ برآمدات اس ہدف سے 10؍ ارب ڈالر کم رہ سکتی ہیں۔ یہ ناکامیاں سی پیک منصوبوں کو گیم چینجر بنانے کے عزم کیلئے بڑا جھٹکا ہیں۔ یہ ناکامیاں اسلئے ہوئیں کہ چینی سرمایہ کاری کے ثمرات حاصل کرنے کیلئے معاشی پالیسیوں میں جن اصلاحات کی ضرورت تھی وہ وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں نے کی ہی نہیں کیوں کہ ان سے طاقتور طبقوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے جبکہ ریاست کے کچھ اہم ستون اپنی حدود سے تجاوز کرتے رہے اور ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان رہا۔ یہی نہیں، دہشت گردی کی جنگ میں دل و دماغ جیتنے کے سبق کو بھلا دیا گیا جبکہ اسمگلنگ، ہنڈی کا کاروبار اور ملک سے سرمائے کا فرار ہوتا رہا اور دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنے کے لئےموثر اقدامات اٹھائے ہی نہیں گئے۔
دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین اور بھارت کے درمیان متعدد تنازعات ہیں جبکہ چین اور پاکستان دوست ملک ہیں۔ کئی ہزار ارب ڈالر کے بیلٹ اور روڈ منصوبوں کے علاوہ چین نے برازیل، روس، بھارت اور جنوبی افریقا سے مل کر ’’برکس‘‘ کے نام سے عالمی مالیاتی ادارہ قائم کیا ہے۔ چین نے ایشیا انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک بھی قائم کیا ہے۔ چین اب عالمی مالیاتی نظام اور عالمی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو ایک ذمہ دار ریاست کےطور پر پیش کررہا ہے۔ ہم فخریہ کہتے رہے ہیں کہ عالمی معاملات میں پاکستان اور چین کا موقف یکساں ہے مگر چین کے قائم کردہ ادارے ’’برکس‘‘ نے پہلی مرتبہ 4 ستمبر 2017ء کو اپنے اعلامئے میں پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جو کہ امریکہ اور بھارت کے موقف کی توثیق ہے۔ بھارت اور چین کی آپس کی تجارت کا حجم 80 ؍ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بھارت کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے چین بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تعاون کرنے سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔ سی پیک کا ایک اہم مقصد خطے کے ممالک کو آپس میں منسلک کرنا ہے۔ امریکہ آنے والے برسوں میں بھی افغانستان پر اپنا فوجی قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ امریکہ کی حکمت عملی یہ نظر آرہی ہے کہ اگلی دہائی میں بھی پاکستان اور افغانستان کو غیر مستحکم رکھا جائے تاکہ ’’نیو گریٹ گیم‘‘ کے استعماری مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی جاری رہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کو ان تمام امور پر غور کرنا ہوگا۔
پاکستان جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، مجموعی سرمایہ کاری اور قومی بچتوں کی مد میں تقریباً 11 ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول کررہا ہے۔ اگر اس کمی کو پورا کر کے ریاست کے مالی وسائل کو دانشمندانہ اور دیانتدارانہ طریقوںسے استعمال کرنے کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور بیرونی ممالک سے آنے والی ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کے لئے استعمال کرنے کی پالیسی ترک نہیں کی جاتی تو 8 فیصد سالانہ سے زائد کی شرح نمو حاصل کرنا اور برآمدات میں سال بہ سال اضافہ کر کے 2025ء تک برآمدات کا 150؍ ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ ناکامی اس بات کا مظہر ہوگی کہ پاکستان سی پیک کے ثمرات حاصل نہیں کررہا۔ ہم نے سی پیک کے ضمن میں اپنی گزارشات ’’چین کی تاریخی سرمایہ کاری۔ ثمر آوری کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے اپنے 20 نومبر 2014ء کے کالم میں پیش کی تھیں۔ اس سے اگلے برس ’’گیم چینجر تو ہوسکتے ہیںمگر…!‘‘ کے عنوان سے 15 جنوری 2015ء کو مزید گزارشات پیش کی تھیں۔ ہم نے ان ہی کالموں میں ’’سی پیک۔ تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے؟‘‘ (جنگ 18 مئی 2017ء) اور ’’سی پیک، پاناما اسکینڈل اور نیو گریٹ گیم‘‘ (جنگ 27 جولائی 2017ء) کے عنوانات سے سی پیک کو گیم چینجر بنانے کی حکمت عملی کا خاکہ پیش کیا تھا۔ اگر مندرجہ بالا کالموں میں دی گئی تجاویز پر عمل نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ سی پیک سے پاکستان کی قسمت بدلنے کا خواب پورا نہ ہوسکے گا بلکہ الٹا خدانخواستہ لینے کے دینے بھی پڑ سکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین