دو برس ہوتے ہیں میں نے انہیں صفحات پر شائع ہونے والے کالم کے ذریعے پنجاب میںحکومت کے زیرانتظام پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بنانے کے رجحان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا ،اگر ان کمپنیوں کے ذریعے گڈ گورننس کا ڈھول پیٹنا ہے تو پھر حکومت بھی کسی نجی کمپنی کو ہی سونپ دیں اور تکلف برطرف اگر کمپنی سرکار ہی درکار تھی تو پھر ایسٹ انڈیا کمپنی میں کیا بُرائی تھی ۔چیف جسٹس نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا تو کم وبیش یہی الفاظ دہرائے اور حکم دیا کہ سرکاری خرچ پر قائم کی گئی لمیٹڈ کمپنیوں کے سربراہان سے اضافی تنخواہیں واپس لی جائیں ۔چونکہ ان دنوں اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں پر نوٹس جاری کرنے کا رجحان ہے تو سوچا کیوں نہ قوم کا درد بانٹنے والوں کی توجہ نئے خیبر پختونخوا کی طرف مبذول کروائوں جہاں سیاسی شعبدہ بازی کےلئے وہی پرانے ہتھکنڈے استعمال کئےجا رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ چونکہ پنجاب میں حرام اور ناجائز قرار پانے والی تمام اشیاء اٹک پُل عبور کرتے ہی حلال اور جائز ہو جاتی ہیں اس لئے تبدیلی سرکار نے شہباز شریف کی تقلید کرتے ہوئے گڈ گورننس کے لئے نت نئی اتھارٹیاں ،ادارے اور سرکاری خرچ پر کمپنیز آرڈیننس کے تحت لمیٹڈ کمپنیاں بنانا شروع کیں ۔اب تک کم و بیش دس نئے ادارے اور لمیٹڈ کمپنیاں بنائی جا چکی ہیں اور ان کے ذریعے من پسند افرا د کو نوازنے کا سلسلہ جاری ہے ۔خیبر پختونخوا گیس اینڈ آئل کمپنی لمیٹڈ (KPOGDCL) سرکاری خرچ پر چلنے والی کمپنی ہے مگر اس کے سی ای او محمد رضی الدین صوبے کے چیف سیکریٹری سے کئی گنا زیادہ زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں ۔ایک اور لمیٹڈ کمپنی جو پرویز خٹک کے دور میں ہی قائم ہوئی اس کا نام خیبر پختونخوا اکنامک زونز ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (KPEZDMC)ہے ،اس کے سی ای او سعید احمد خان کا معاوضہ بھی تقریبا ً اتنا ہی ہے ۔میٹرو بس جو لاہور میں جنگلا بس کہلاتی تھی جب یہ بھی پشاور پہنچ کر حلال اور جائز قرار پائی تو اسے چلانے کے لئےپہلے خیبر پختونخوا اربن موبیلٹی اتھارٹی کے نام سے ایک نیا ادارہ کھڑا کیا گیا اور پھر ٹرانس پشاور کے نام سے ایک اور لمیٹڈ کمپنی کی بنیاد رکھی گئی ۔یہ لمیٹڈ کمپنیاں اور خود مختار ادارے بنا کر نہ صرف بڑے کھانچوں کا بندوبست کیا جاتا ہے بلکہ قوانین اور ضابطوں سے ہٹ کر فیصلے کرنے کے مواقع بھی میسر آتے ہیں ۔جب ان لمیٹڈ کمپنیوں میںتعینات کوئی عہدیدار میرٹ سے ہٹ کر بات ماننے سے انکار کرتا ہے تو اسے بیک جنبش قلم برطرف کر دیا جاتا ہے جبکہ سول سرونٹس کو یوں فارغ کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔وزیر اعلیٰ پرویز خٹک قواعد و ضوابط سے ہٹ کر دیئے گئے احکامات نہ ماننے پر خیبر پختونخوا اکنامک زونز ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی کے بورڈ کو بھی ایک مرتبہ تحلیل کر چکے ہیں اور اب اسی نوعیت کا فیصلہ ٹرانس پشاور کمپنی کے ضمن میں کیا گیا جو گلے پڑ گیا اور اب یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک یہ فیصلہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئے اور اس کے مضمرات کیا ہونگے ؟اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے بی آر ٹی پشاور سے متعلق چند بنیادی باتیں جاننا ضروری ہیں ۔بی آر ٹی منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بنک کی جزوی فنانسنگ سے مکمل کیا جارہا ہے ۔اسے شروع کرنے والے ادارے کا نام خیبر پختونخوا اربن موبیلٹی اتھارٹی ہے ،اس منصوبے کو مکمل کرنے کی ذمہ داری پہلے صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کی تھی پھر یہ منصوبہ پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا جس نے سول ورک کے لئے پنجاب سے بلیک لسٹ ہونے والی ایک کمپنی کو ٹھیکہ دے رکھا ہے جبکہ تعمیراتی کام مکمل ہونے کے بعد بسیں چلانے سمیت تمام آپریشن معاملات کی ذمہ دار ٹرانس پشاور کمپنی ہے ۔چین سے ہائبرڈ بسیں منگوائی جا رہی ہیں اور اس کے نقائص کا ذکر میں چند ماہ پہلے لکھے گئے کالم میں کر چکا ہوں ۔اے ڈی بی کا تیسرا پرکیورمنٹ پلان جو 27اپریل 2018ء کو جاری ہوا ،اس کے مطابق یہ منصوبہ 31دسمبر2021ء کو مکمل ہو گا اور اس سال کے آخر میں ابھی چوتھا پرکیورمنٹ پلان آئے گا ۔تیسرے پرکیورمنٹ پلان کے مطابق بی آر ٹی کے روٹ پر کام جاری ہے ،چمکنی سے بالا حصار اور امن چوک سے حیات آباد کے روٹ کا تعمیراتی کام دسمبر 2018ء تک مکمل ہو گا جبکہ حیات آباد میں بس ڈپو اور لیڈی ریڈنگ اسپتال کے قریب کثیر المنزلہ پارکنگ پلازہ کی تعمیر اگلے برس مکمل ہو گی ۔تبدیلی سرکار کی خواہش تھی کہ منصوبے پر بیشک بعد میں کام ہوتا رہے مگر صوبائی حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے نمائشی طور پر بسیں چلا کر اس منصوبے کا کریڈٹ لیا جا سکے اور انتخابی مہم کے دوران ووٹ مانگے جا سکیں۔اس خواہش کے زیر اثر پہلے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے 20اپریل کی ڈیڈ لائن رکھی گئی اور پھر 20مئی کو منصوبہ مکمل کرنے کا عندیہ دیا گیا ۔ٹرانس پشاور کمپنی کے سی ای او الطاف اکبر دُرانی جو کینیڈا میں اسی طرز کے ایک منصوبے کو چلانے کا تجربہ رکھتے ہیں ،کینڈین نیشنل ہیں وہ اپنے ملک کی محبت میں واپس آئے ،انہوں نے بارہا سمجھانے کی کوشش کی کہ اس طرح کی ڈیڈ لائنز غیر حقیقت پسندانہ ہیں اور یہ منصوبہ اس سال کسی صورت مکمل نہیں ہو سکتا ۔
وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا اصرار تھا کہ سول ورک مکمل ہو یا نہ ہو ،جلد از جلد بسیں منگوائی جائیں اور انہیں ایک آدھ سڑک پر چلا کر لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جائے کہ بی آرٹی کا منصوبہ مکمل ہو گیا ہے ۔وزیر اعلیٰ کے اصرار پر یہ معاملہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے رکھا گیا اور 19اپریل کو الطاف اکبر دُرانی نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ اس ٹیکنالوجی کی حامل بسیں اس سے پہلے کہیں استعمال نہیں کی گئیں ،ٹیسٹ ٹرائل کے لئے برازیلین کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں ،ٹرائل کے بعد چینی کمپنی کو بسوں کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لئے گرین سگنل دیا جائے گا اور دسمبر کے آخر تک بسیں پشاور پہنچ سکیں گی اگر اس سے پہلے بسیں زمینی راستے سے منگوائی جاتی ہیں تو ان بسوں کی فی کس قیمت 30ہزار ڈالر (یعنی تقریباً 3466500 روپے)بڑھ جائے گی اور ایسی صورت میںچینی کمپنی ان بسوں کا وارنٹی کلیم بھی نہیں دے گی ۔وزیر اعلیٰ کو سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ حیات آباد میں ان بسوں کو کھڑا کرنے کے لئےجو بس ڈپو تعمیر ہونا ہے ابھی اس کا کام ابتدائی مراحل میں ہے اور قبل از وقت بسیں منگوانے کی صورت میں منصوبہ مکمل ہونے تک یہ قیمتی بسیں کھٹارہ ہو جائیں گی۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے غصے میں آکرکہا ،تم لوگ دفع ہو جائو ۔اور پھر ایک حکم نامے کے ذریعے سی ای او الطاف دُرانی کو برطرف کر دیا گیا۔
اس فیصلے کے خلاف بطور احتجاج نہ صر ف بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین مستعفی ہو گئے بلکہ چیف فنانشل آفیسر اورجی ایم آپریشنز اینڈ مارکیٹ ڈویلپمنٹ نے بھی استعفیٰ دیدیا ۔اب سی ایف او صفدر شیر اعوان اور جی ایم آپریشنز محمد عمران خان کی منت سماجت کی جارہی ہے کہ وہ مستعفی ہونے کا فیصلہ واپس لیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے نئی تقرریوں پر پابندی لگا رکھی ہے اور ان آفیسرز کے جانے کی صورت میں یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے ۔کیا کوئی 71ارب روپے ڈبونے کا نوٹس لے گا یا پھر واقعی اٹک پُل کے پار سب جائز اور حلال ہے ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)