• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا اور چین کے غیر لچکدار موقف سے تجارتی جنگ کے آثار ظاہر ہونے لگے

امریکا اور چین کے غیر لچکدار موقف سے تجارتی جنگ کے آثار ظاہر ہونے لگے

واشنگٹن: شان ڈونین

محض چند دن پہلے تک امید تھی کہ اگر واشنگٹن اور بیجنگ صرف بات چیت شروع کردیں گے تو دو بڑی عالمی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ ٹل سکتی ہیں۔ لیکن رواں ہفتے بجینگ میں ٹرمپ انتظامیہ اور شی جنگ پنگ کی اقتصادی ٹیم کے درمیان بات چیت سے ظاہر ہوا ہے کہ شاید تجارتی جنگ ناگزیر ہے۔

چین کی معاشیپالیسی سازوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے حامل امریکی نژاد چین کے ماہر ایشور پرساد نے کہا کہ ان ملاقاتوں کا انجام مذاکرات کی بنیاد پر سمجھوتے کی بجائے عداوت کی ضابطہ بندی کے طور پر ہوسکتا ہے۔

دستاویزات کے مطابق دو طرفہ مطالبات، بیجنگ اور واشنگٹن دونوں کو سختی کے نکتہ نظر میں لے رہے ہیں، یہاں تک کہ اگر ایک حل ممکن ہو تو اس سے بات چیت کرنے کیلئے لگ مہینہ لگنے کا امکان ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ اصرار کررہی ہے کہ چین نے آئندہ دو سال میں تقریبا دو تہائی سے امریکا کے ساتھ سامان اور خدمات میں اپنی 337 بلین ڈالر فی سال سرپلس تجارت کمی کرے اور کسی بھی تجارتی کارروائی کے خلاف انتقام سے باز رہیں۔ تاہم یہ مسٹر شی کی 2025 کی تشکیل میں بنائی گئی حکمت عملی کے عناصر کو ختم کرنا چاہتا ہے، جس کا مقصد کچھ شعبوں میں چینی کمپنیوں کے لئے دنیا کے معروف کردار قائم کرنا چاہئے۔

بدلے میں چین نے مطالبہ کیا کہ عالمی تجارتی تنظیم کے اندر چین کو مارکیٹ اکانومی کے طور پر پیش آنے کیلئے اس کے طویل عرصے سے اعتراضات سے دستبردار ہوجائے۔ یہ غیرمنصفانہ تجارتی طریقوں کیلئے مؤقف سے ہٹنا اس کیلئے مشکل بن سکتا ہے۔

اس نے درخواست کی ہے کہ واشنگٹن ہائی ٹیک مصنوعات پر امریکی برآمدی کنٹرول کو ختم کرے اور امریکی پرزہ جات خریدنے والی چین کی ٹیلی کام کمپنی زیڈ ٹی ای پر سال سال کی پابندی کا خاتمہ کرے۔

جمعہ کو سابق امریکی حکام اور تجارتی ماہرین نے کہا کہ امید کا واحد سبب یہ تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے دیگر مذاکرات میں انتہائی مطالبات کو ختم کرنے کا ایک نمونہ قائم کیا تھا اور وہ ہے بعد میں جھک جانا۔

اوباما انتظامیہ میں تجارتی مذاکرات کی قیدات کی مدد کرنے والی وینڈی کٹلر نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ امریکی فہرست سنجیدہ مذاکراتی تجاویز سے زیادہ خواہشات کی فہرست ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں انہیں پیشرفت کی بنیاد پر نہیں دیکھ رہی ہوں بلکہ یہ دیکھنا باعث دلچسپی ہوگا کہ کتنی تیزی سے اور کب انتظامیہ اپنی کچھ تجاویز سے پیچھے ہٹتی ہے۔ وینڈی کٹلر اس وقت ایشیا سوسائٹی میں خدمات انجام دے رہی ہیں، انہوں نے نشاندہی کی کہ میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ امریکا نے شمالی امریکا آزاد تجارتی معاہدے کی اپنی دوبارہ مذکارات کی کوششوں کو کس طرح تبدیل کیا ہے اور جنوبی کوریا کے ساتھ دو طرفہ تجارتی معاہدے میں حاصل ہونے والےمعمولی مواقع کو دبوچ لیا ہے۔

تاہم چین کے ساتھ معاملات کافی مختلف ہیں۔

جبکہ امریکا کے کاروباری اداروں نے نافٹا پر ٹرمپ کے سخت نکتہ نظر کی زیادہ تر مخالفت اور مخالف لابنگ کی ہے،یہ بڑے پیمانے پر چین پر ان کے مقاصد کی حمایت کرتا ہے۔

امریکی کاروباری برادری کے قریبی ایک شخص نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ جو پوزیشن لے رہی ہے درحقیقت گہری جڑیں ہیں اور متعدد اسٹاک ہولڈر کی جانب سے حمایت حاصل ہے۔ یہ ایک بڑا فرق ہے، چین انتہائی مختلف مقام میں ہے۔ یہ اس سے مشابہہ نہیں جو نافٹا کے ساتھ ہورہا ہے۔

امریکا میں واحد حقیقی اختلاف ڈونلڈ ٹرمپ کا صرف چین کے ساتھ تجارتی خسارے کو کم کرنے پر توجہ مرکوز ہونے پر ہے اور ٹیرف عائد کرنے کی ان کی دھمکیاں جس سے کافی لوگوں کو تجارتی جنگ شروع ہونے کا اندیشہ ہے۔

زیادہ تر ماہر اقتصادیات اور کاروباری رہنما چین کے ساتھ امریکی تجارتی خسارے کو تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ میکرو اکنامک کے نتیجے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس میں کمی طویل المدتی منصوبہ ہوگا۔

غیر ملکی تعلقات کی کونسل میں سینئر فیلو ایڈورڈ الڈین نے کہا کہ چین کے ساتھ خسارے میں کمی کیلئے ٹرمپ انتظامیہ کی تجاویز کو منظم کاروبار کے ایک ورژن کی ضرورت ہوگی جو بہت سے امریکی آزاد یورپیئن معاشی برادری کے قیام اور اس میں برطانیہ کی شرکت کے حامیوں کو بے آرام کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ چین پر انتہا پسند امریکی حامیوں کے ساتھ بھی کچھ مسائل پیدا کرے گا۔ کیونکہ چین کے ساتھ ٹیرف کو کم کرنے کیلئے یہ مناسب مطالبات ملادئے اور سرمایہ کاری کی رکاوٹیں اور خالص طور سے منظم تجارتی مطالبات کے ساتھ سبسڈی کی کمی، جیسا کہ خسارہ کم کرنا۔

مس کٹلر نے کہا کہ 200 امریکی ڈالر خسارے میں کمی کے مقصد کا حصول، آپ واقعی ایک ایسی صورتحال کے بارے میں بات کررہے ہیں جس میں چن کو امریکا کو اپنی برآمدات روکنا پڑیں گی۔جسے کرنا مشکل ہوجائے گا۔

امریکی کاروباری برادری میں کافی لوگوں کو تشویش ہے کہ امریکی ٹیرف ان چینی پرزوں کو متاثر کرسکتا ہے جس پر امریکی مینوفیکچررز انحصار کرتے ہیں۔ رواں ہفتے امریکی چیمبر آف کامرس کے کے ٹام ڈونوہیو نے کہا کہ ہمیں گہری تشویش ہے کہ مجوزہ ٹیرف لسٹ اور انتظامیہ کی جانب سے ٹیرف کی دھمکیوں میں اضافہ ان نقسان دہ چینی طریقوں کو تبدیل کرنے کیلئے ہمارے مشترکہ مقاصد کے لئے مؤثر طریقے سے پیشرفت نہیں کریں گے۔

جیسا کہ انہوں نے بیجنگ کیلئے اپنے سفیروں کو بھیجا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو ٹوئیٹ کیا کہ اسے ابھی نہیں بلکہ کئی سال پہلے ہوجانا چاہئے تھا، تاہم یہ سب کچھ کیا جائے گا۔

مسٹر پرساد نے کہا کہ دراصل ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے امریکی مطالبات کو پورا کرنے کیلئے چین کے ساتھ اپنی طاقت یا اس کی صلاحیت کا ضرورت سے زیادہ اندازہ لگا لیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ امریکا کی ٹیم جنگ بندی کی بجائے ہتھیار ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

٭٭٭

تازہ ترین