• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈونلڈ ٹرمپ کا تجارتی مذاکرات کیلئے اعلیٰ سطح کا وفد بیجنگ روانہ....

ڈونلڈ ٹرمپ کا تجارتی مذاکرات کیلئے اعلیٰ سطح کا وفد بیجنگ روانہ....

واشنگٹن : شان ڈونین

دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ ختم کرنے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ہفتے بیجنگ کیلئے امریکی تجارتی پالیسی کے سات بلند منصب دار بھیج رہا ہے۔

’’تجارتی ماہرین دلیل دیتے ہیں کہ چین کے لئے امریکی خدشات کو دور کرنے کا آسان طریقہ انباؤنڈ سرمایہ کاری پر موجودہ پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا اور ساتھ ہی غیر ملکی کمپنیوں کیلئے ایکویٹی کی حد ختم کردے۔‘‘

تاہم چین کے حکام کے ساتھ کابینہ کے تین ارکان، تین سینئر مشیروں اور ایک سفیر پر مشتمل مذاکرات جاری رکھنا ایک سوال ہے جس کا جواب مشکل ہے کہ امریکی انتظامیہ چین سے کیا چاہتی ہے؟

امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹیزر نے جمعرات کو کہا جیسا کہ وہ منصوبہ کے بورڈ کیلئے تیار ہیں، ہماری چیزوں کی فہرست جو چین میں مسائل پیدا کررہی ہے ، کافی طویل ہے۔

یہاں چار چیزیں ذہن میں رکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم چین جارہی ہے۔ ان میں سے کوئی ایک بھی فوری معاہدے کا اشارہ کرتی۔

1: ٹرمپ انتظامیہ کا خٰال ہے کہ یہ چین کے ساتھ تجرباتی اقتصادی جنگ ہے

منگل کو امریکی چیمبر آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر لائٹیئزر نے ریاستی سرمایہ کاری کے چینی معاشی ماڈل کو امریکی معیشت میں براہ راست چیلنج کے طور پر اشارہ کیا۔انہوں نے دلیل دی کہ چین کی موجودہ صنعتی پالیسی کی ریڑ ھ کی ہڈی شی جنگ پنگ کا دنیا کی 10 علیحدہ صنعتوں کی قیادت کرنے کیلئے میڈ ان چائنا 2025 کا اقدام امریکی معیشت کے مستقبل اور ہمارے بچوں کے روزگار کے امکانات کیلئے ایک خطرے کی نمائندگی کرتا ہے۔

مسٹر لائٹیئزر نے کہا کہ چین کا نظام بدلنا میرا مقصد نہیں ہے تاہم مجھے ایک ایسی پوزیشن میں رہنا ہوگا جہاں امریکا اس سے نمٹنے کے قابل ہو جہاں امریکا اس کا شکار نہیں ہے۔

ماضی کی انتظامیہ سے روانگی میں امریکی صدر اور ان کے ساتھیوں نے اعلانیہ کہا تھا کہ 2001 میں چین کا عالمی تجارتی تنظیم میں شامل ہونے کی اجازت دینا ایک بڑی غلطی تھی اور وہ نتائج پر غور کرنے کی اپنی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔

گزشتے ہفتے مشی گن میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ریلی کو بتایا کہ عالمی تجارتی تنظیم میں شامل ہونے کے بعد چین ایک بڑی طاقت بن گیا، جو ہمارے لئے ایک خوفناک شو ہے۔

2: حقیقی جنگ ٹیکنالوجی کے بارے میں ہے

حالیہ ہفتوں میں زیادہ توجہ واشنگٹن اور بیجنگ کے جیسے کو تیسا ٹیرف دھمکیوں پر رہی۔ لیکن حقیقی بنیادی جنگ ٹیکنالوجی اور ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چینی ریاست اور کمپنیوں کی جانب سے کئی دہائیوں سے دانشورانہ آثاثوں کی چوری کے بارے میں ہے۔

’’وائٹ ہاؤس کی اندرونی بات چیت سے واقف افراد کے مطابق سات سفارتکار انتظامیہ میں تجارتی مباحثے کی زیادہ تر پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں، اور وسیع طور پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں۔ ‘‘

سوال یہ ہے کہ بیجنگ اس مسئلے کے حل کیلئے کیا کرسکتا ہے جس کی موجودگی کا وہ انکار کرتا ہے۔

واشنگٹن میں تشویش کا ایک شعبہ مقامی شراکت داروں کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کیلئے ضروری غیر ملکی کمپنیوں کو داخل کرنے اور ضروری ٹیکنالوجی معلومات کی منتقلی کی چین کا طریقہ کار ہے۔ کانگریس کے ذریعے قانون سازی اپنے طریق سے کام کررہی ہے امریکا میں کمیٹی برائے خارجہ سرمایہ کاری دے گی، جو بیرون ملک ایسی مشترکہ سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کا اختیار ممکنہ قومی سلامتی کے خطرات کیلئے انباؤنڈ سرمایہ کاری کا جائزہ لے گی۔امریکی خزانہ امریکی شعبوں جو چین میں امریکی کمپنیوں پر خریداری کی پابندی عائد ہے،میں سرمایہ کاری سے چینی کمپنیوں کو روکنے کیلئے دیگر سرمایہ کاری کی پابندیوں پر کام کررہا ہے ۔

تجارتی ماہرین دلیل دیتے ہیں کہ چین کے لئے امریکی خدشات کو دور کرنے کا آسان طریقہ انباؤنڈ سرمایہ کاری پر موجودہ پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا اور ساتھ ہی غیر ملکی کمپنیوں کیلئے ایکویٹی کی حد ختم کردے۔

3: ٹرمپ کی کامیابی کیلئے پیمانہ تجارتی خسارہ برقرار رکھنا اور چین کو اس پر توجہ دینا ہوگی

گزشتہ سال چین کے لئے امریکی سامان کی برآمدات ریکارڈ 130.4 بلین ڈالر تک پہن گئی تھی، جو 2016 سے 12.8 فیصد زیادہ اور 2001 میں جب چین نے عالمی تجارتی تنظیم میں شمولیت اختیار کی تھی اس سے سات گنا زیادہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ 2017 میں چین کے ساتھ سامان میں امریکا کو 375 بلین ڈالر کا تجاتی خسارہ بھی تھا۔

زیادہ تر ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ مسٹر ٹرمپ کا خسارہ کا جنون بیوقوفی ہے۔انہوں نے کہا کہ دو طرفہ خسارہ اہمیت نہیں رکھتا اور تجاری پالیسی کے مقابلے میں میکرو اکنامک کی زیادہ اثرات ہیں۔ ویلیو ایڈڈ شرائط میں اقدامات ،چین کے ساتھ خسارہ بھی اس کے مقابلے میں کم ہے جتنا ظاہر ہوا، امریکی کمپنیاں دنیا بھر سے پرزے لے کرچینی کارخانوں میں اسمبلڈ ہونے والے سامان سے زیادہ تر منافع پیدا کررہی ہیں۔

لیکن مسٹر ٹرمپ اس طرح کے دلائل کو درست نہیں مانتے اور انہوں نے پہلے ہی مطالبہ کیا ہے کہ چین تجارتی خسارہ میں 100 کروڑ ڈالر کی سالانہ کمی کرے۔

ہفتہ کو مشی گن میں حامیوں سے خطاب کے دوران صدر نے اپنے چینی ہم منصب شی جنگ پنگ کی جانب سے چینی معیشت کو ٓزاد کرنے کے حالیہ وعدوں کو مسترد کردیا۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ شی جنگ پنگ نے کہا ہے کہ وہ چین کو آزاد کرنا شروع کرنے جارہے ہیں۔ یہ کافی نہیں ہے جب ہمیں تجارتی خسارے میں 5 سو بلین ڈالر کا خسارہ ہوا، جب ہمیں دانشورانہ ملکیت میں سیکڑوں بلین ڈالر کا نقصان ہوا ۔

منگل کو ٹوئٹر کے ذریعے انہوں نے اضافہ کیا کہ ہمارے ملک کے ساتھ پیدا ہوانے والے بڑے پیمانے کے تجارتی خسارے پر بات چیت شروع کرنے کیلئے وفد چین جارہا ہے۔کافی حد تک شمالی کوریا کی طرح اسے ابھی نہیں بلکہ سال بھر پہلے ٹھیک ہوجانا چاہئے تھا ۔

4: اس کی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بیجنگ کیلئے سات مشیر بھیج رہے ہیں اور یہ معاہدے کیلئے اچھا اشارہ نہیں

گزشتہ دس دن میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیجنگ کیلئے وفد میں وزیر خزانہ اسٹیون منچن کا اضافہ ہوا،جو ڈونلڈ ترمپ کے اعلیٰ معاونوں کے کے متنوع جھکاؤ کیلئے ہفتوں سے معاہدے کیلئے مذاکرات کیلئے اجازت دینے کیلئے زور دے رہے تھے ۔

وائٹ ہاؤس کی اندرونی بات چیت سے واقف افراد کے مطابق سات سفارتکار انتظامیہ میں تجارتی مباحثے کی زیادہ تر پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں، اور وسیع طور پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوسکتے ہیں۔

مسٹر منچن، ویزر تجارت ولبر راس اور قومی اقتصادی کونسل کے نئے سربراہ لیری کڈلو چین کے ساتھ معاہدے پر زور دے رہے ہیں جو پریشان مالیاتی مارکیٹ پر قابو پائے گا۔ مسٹر لائٹزر اوروائٹ ہاؤس کے سینئر تجارتی مشیر پیٹر نیوارو بیجنگ کے خلاف زیادہ مضبوط اور طویل المدتی جنگ کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ ان کے علاوہ وفد میں بین الاقوامی اقتصادیات پر صدارتی مشیر ایویریٹ اینسٹینٹ اور چین کیلئے امریکی سفیر ٹیری برانسٹیڈ ہیں۔

خیالات کے مرکب سے کسی فوری معاہدے کا امکان کم بناتا ہے، جس کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔جب مسٹر راس گزشتہ موسم گرما میں چینی حکام کے ساتھ اسٹیل کی پیداوار کم کرنے کیلئے مذاکرات کئے تو انتظامیہ کے دیگر ارکان کی تنقید کی وجہ سے انہیں وسیع حصے میں صدر کی جانب سے روک دیا گیا تھا ۔

مسٹر نیوارو نے منگل کو کہا کہ رواں ہفتے بات چیت بیجنگ میں ہوں گی لیکن فیصلہ واشنگٹن میں کیا جائے گا۔

تازہ ترین