• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میاں صاحب کا لہجہ جس طرح سخت اور تلخ ہورہا ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ وہ بھی بانی تحریک متحدہ قومی موومنٹ کی طرح ایسا جملہ نہ کہہ دیں جس سے پھر ہوا کا رُخ ہی پلٹ جائے‘‘۔
یہ جملے میرے کالم ’’70سال کے مظالم کا حساب مگر کیسے ‘‘سے ہیں جو 18مارچ 2018کو شائع ہوا تھا۔ جس کا ڈر تھا وہی ہوا۔ اور خطرناک بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف اس پر ڈٹ گئے ہیں کہ اس میں کیا غلط ہے۔ انہوں نے کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کردیا ہے۔
مجھے منیر نیازی کی ایک سطری نظم یاد آرہی ہے جس کا عنوان نظم سے زیادہ طویل تھا۔
’ویلے تو اگے لنگھن دی سزا (وقت سے آگے گزرنے کی سزا)
یہ تو عنوان ہے۔ نظم اتنی سی ہے۔’بندہ کلّا رہ جاندا اے‘(انسان اکیلا رہ جاتا ہے)
میاں صاحب کے دل پر جو کچھ گزر رہی ہے وہ سوچ کے جس راستے پر چل پڑے ہیں۔ اس کا انجام کبھی پُر امن نہیں رہا ہے۔تاریخ چیخ رہی ہے۔ زمین تڑپ رہی ہے۔ پاکستانی مزید تقسیم ہورہے ہیں۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے نہ جانے کتنے تبصرے ہوچکے ہوں گے۔کیا کیا قیامتیں رُونما ہوچکی ہوں گی۔ وقت کی رفتار پاکستان میں اس وقت بہت تیز ہے۔ ہماری 71سالہ تاریخ میں شاید ہی کبھی لمحے اتنی تیزی سے دوڑے ہوں گے۔ ایک بالکل ہی مختلف تجربہ ہورہا ہے۔بلکہ بیک وقت کئی تجربے ہورہے ہیں۔اتنا ہنگامہ۔ اتنا سنگین بحران۔میاں صاحب روایتی سیاستدانوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ان کے اپنے بھائی۔اپنی پارٹی دانتوں میں انگلی دبائے سکتے میں ہے۔ وزیر اعظم چند ہی منٹ میں اپنا موقف بدل رہے ہیں۔ آج تک کبھی حکمراں پارٹی کے کسی بیان پر اتنی جلد قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ نہیں بلائی گئی ہوگی۔ میٹنگ کی صدارت کرنے والے منتخب وزیر اعظم ، ملک کے چیف ایگزیکٹو نے اتنی جلد اپنا بیان نہیں بدلا ہوگا۔ مہذب ملکوں میں تو ایسی صورتِ حال میں وزیر اعظم استعفیٰ دے دیا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ یہ مہذّب جمہوری ملک نہیں ہے۔ میں یہ بات جس کرب سے کررہا ہوں وہ میں ہی جانتا ہوں۔ چند روز سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ 20کروڑ پاکستانیوں کے ملک میں میاں نواز شریف کے اس انٹرویو کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ پورے پاکستانیوں کو پینے کے لئے صاف پانی ملنے لگا ہے۔ سارے بچے اسکول جانے لگے ہیں۔ علاج معالجے کا نظام بہترین ہوگیا ہے۔ زیر زمین ریلیں چل رہی ہیں۔ آرام دہ بسیں مزدور کارکنوں کو گھروں سے کارخانے لے جارہی ہیں۔ بس صرف سابق وزیر اعظم کا بیان معمول کے خلاف آگیا ہے۔
میرا پہلا تاثر تو یہ ہے کہ اس سنگین صورتِ حال میں الیکشن بے معنی اور غیر متعلق ہوگیا ہے۔ میاں صاحب کا لہجہ اور زیادہ سخت ہوگا۔ ان کے ذہن میں جو تحفظات تڑپ رہے ہیں جو چنگاریاں سلگ رہی ہیں۔ وہ شعلے بن کر بھڑکیں گی۔ مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کے لئے راستے میں کانٹے اور کھڈے بڑھتے جائیں گے۔ اخبار بھی وہی۔ رپورٹر بھی وہی۔ معاملہ بھی وہی دہشت گردی اور فوج کا ۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ ان کا بیان توڑ مروڑ کر شائع کیا گیا ۔ کوئی محکمہ کوئی سیاسی جماعت اخبار والوں سے تصدیق نہیں کررہی ہے۔ اور جس نے بیان دیا وہ اس پر مصر ہے۔
ہم بہت ہی خطرناک موڑ کی طرف سر پٹ بھاگ رہے ہیں۔ اس بھگدڑ کی قیادت تین بار وزیراعظم رہنے والے سیاسی قائد کررہے ہیں۔ کیا مسلم لیگ(ن) کی 22اگست آنے والی ہے۔ کیا ان کو بھی منزل نہیں رہنما چاہئے۔
میاں صاحب نے اس بیان کیلئے یہ وقت کیوں چُنا۔ یہ زرداری صاحب کے دورِ حکومت کا معاملہ ہے۔ اس وقت کیوں نہیں اٹھایا گیا۔ پھر میاں صاحب۔ خود وزیراعظم رہے۔ تو یہ قومی کمیشن اس وقت کیوں نہیں بنایا گیا۔
الیکشن 2018اس لئےبھی اب بے معنی ہورہے ہیں کہ یہ جو خلائی مخلوق سے تصادم کی راہ اپنائی جارہی ہے اس سے صرف پاکستان میں اندرونی بحران پیدا نہیں ہوگا بلکہ یہ کشمکش اس خطّے میں ہوگی۔ بمبئی کے ان دھماکوں کو بھارت پہلے ہی علاقائی اور عالمی سطح پر اٹھارہا ہے۔ سارک تعاون بھارت کے اقدامات کے باعث بے اثر ہوچکا ہے۔دنیا میں علاقائی تعاون کی تنظیموں کی بدولت انسانیت کو تحفظ ملا ہے۔ زندگی آسان ہوئی ہے۔ پڑوسیوں کے درمیان مخاصمتیں کم ہوئی ہیں۔ لیکن جنوبی ایشیا میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم۔ چھوٹے پڑوسیوں کے لئے جارحانہ پالیسیاں۔ علاقے میں ہیڈ کانسٹیبل بننے کی خواہش نے اس سب سے زیادہ آبادی والے خطّے کو مستقل بحرانوں اور مشکلات میں مبتلا رکھا ہوا ہے۔ بھارت نے افغانستان کو بھی اپنی شکار گاہ بناکر افغانستان کے حکمرانوں کو پاکستان مخالف بنادیا ہے۔ ایسی دھماکہ خیز صورتِ حال میں پاکستان میں فکری اتحاد۔ ملّی یکجہتی اور معیشت کو طاقت ور بنانے کی ضرورت تھی۔ لیکن یہاں جس انداز سے یکے بعد دیگرے واقعات رُونما ہورہے ہیں اس سے ادارے آپس میں متصادم ہورہے ہیں۔ ریاست کمزور ہورہی ہے۔ تدبّر۔ تحمّل اور دور اندیشی کے بجائے عجلت۔ شدت۔ اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوششیں ماحول کو اور زیادہ آتش فشاں بنارہی ہیں۔ لگتا یہ ہے کہ ہر ایک فریق نے تلواریں سونت رکھی ہیں۔ کسی بیان کا،جملے کا انتظار ہوتا ہے۔ اور شمشیر زنی شروع ہوجاتی ہے۔ کسی طرف سے بھی برداشت۔ رواداری اور معاملہ فہمی کا اظہار نہیں ہوتا۔
71سال بعد قومیں پختگی اور بلوغت کا مظاہرہ کرتی ہیں ۔ یہ جو موجودہ پاکستان ہے اس کے لئے 1947سے مسلسل قربانیاں دی جاتی رہی ہیں۔ ہر نسل نے قربانی دی ہے۔ غلامی سے آزادی کی طرف آتے بیس لاکھ سے زیادہ مائیں بہنیں۔ بیٹے بیٹیاں۔ باپ دادا۔ راستے میں ہلاک کردئیے گئے۔ مختلف جمہوری تحریکوںمیں شہادتیں رُونما ہوئی ہیں۔ لوگوں نے پھانسی کے تختے چومے ہیں۔ لاپتہ ہوئے ہیں۔ پھر 1979کی افغان پالیسی کے نتیجے میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی جو لہر چلی ہے ۔ کئی ہزار شہری ۔ فوجی۔ ڈاکٹر۔ جنرل۔ بریگیڈیر۔ اساتذہ ۔ طالب علم اس کی نذر ہوئے ہیں۔ امن کی بحالی کے لئے فوج کی قربانیاں لازوال ہیں۔ ہماری جغرافیائی حیثیت جو ہمیں اہمیت اور طاقت دے سکتی تھی۔ غلط پالیسیوں کی بدولت ہمارےلئے مصیبت بن گئی ہے۔ ہماری نوجوان آبادی جو بزرگی کا سہارا اور مملکت کی توانائی کا سر چشمہ بن سکتی تھی۔ وہ ہماری عاقبت نا اندیشانہ حکمت ِعملی کی بدولت بوجھ بن گئی ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس وقت ہم سب مل جل کر۔ سیاسی۔ فوجی قیادتیں۔ یونیورسٹیاں۔ وکلا۔ گزشتہ نصف صدی کی ان غلطیوں کی اصلاح کررہے ہوتے ۔ آپس میں مشاورت سے ایک مستحکم مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہوتے۔ مگر ذاتی مفادات کی ترجیحات نے ہمیں بالکل اندھا کردیا ہے۔ جتنا عظیم ملک ہے۔ جتنے بے کراں وسائل ہیں۔ اور جتنے بڑے چیلنج ہیں۔ اتنی بڑے قیادت نظر نہیں آرہی۔ بیانات کے حقیقی تجزیے کریں ۔ شخصیات کی تحلیل نفسی کریں۔ تو بہت بڑا خلا دکھائی دے رہا ہے۔ جسے پُر کرنے کی کوشش نہیں ہورہی بلکہ دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
سوچنا یہ ہے کہ ہم ایسا سازگار۔ مستحکم۔ اور موزوں ماحول کیوں پیدا نہیں کرسکے۔ جس میں تین بار وزیر اعظم بننے والی شخصیت اس قسم کی جارحانہ نفسیات اختیار نہ کرتی اور اسے اتنے ہم نوا بھی نہ ملتے۔ میں گزشتہ دہائیوں پر نظر ڈال رہا تھا۔ ہماری تاریخ میں صرف موجودہ 2011سے شروع ہونے والی دہائی ہے۔ جس میں مارشل لاء نہیں لگا ہے۔ ورنہ 50کی دہائی میں ایوب خان۔60 کے عشرے میں یحییٰ خان۔ 70اور 80کی دہائی میں جنرل ضیا۔ 90اور 2000کی دہائیوں میں مشرف کی فوجی حکومت رہی ہے۔
یہ عشرہ اب تک الحمد للہ خالص جمہوری اور آئینی انداز میں گزر رہا ہے۔ فوج نے مارشل لائوں سے بہت سیکھا ہے۔ وہ بہت احتیاط اور تدبّر سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر ہم سب نے مل جل کر اس بحران کو سر کرلیا تو ہماری تاریخ میں 2011سے 2020تک پہلی دہائی ہوگی جو خالصتاً غیر فوجی ہوگی۔ آپ کا کیا خیال ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین