• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیبلشمنٹ کی پراکسیز ماحول خراب کرنے سے باز رہیں، تحمل سے کام لیں گے، نواز شریف کی مشروط پیشکش

اسٹیبلشمنٹ کی پراکسیز ماحول خراب کرنے سے باز رہیں، تحمل سے کام لیں گے، نواز شریف کی مشروط پیشکش

اسلام آباد (صالح ظافر) مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف مشروط طور پر اسٹیبلشمنٹ کے عناصر کیخلاف تحمل سے کام لینے پر رضامند ہیں اور شرط یہ ہے کہ وہ اپنی پراکسیز کو ماحول خراب کرنے سے باز رکھیں۔ نواز شریف نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی دبائو میں آئیں گے اور نہ ہی جمہوریت کی بالادستی کے حوالے سے اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کیلئے خوفزدہ ہوں گے۔ پنجاب ہائوس میں نواز شریف کی اپنے قریبی ساتھیوں بشمول وزیراعظم شاہد عباسی اور مسلم لیگ (ن) کے چیف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کے دوران آئندہ انتخابات اور چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے تفصیلی حکمت عملی تشکیل دی گئی۔ الیکشن کمیشن کو دو کی بجائے تین ماہ دینے کیلئے ایک دن قبل قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز مسترد کر دی گئی۔ اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ملک اور جمہوریت کے مفاد کیلئے جلد الیکشن ہونا چاہئیں۔ ذرائع نے دی نیوز کو بتایا کہ اجلاس کے شرکاء نے نواز شریف کو بتایا کہ طاقتور حلقوں کے ساتھ محاذ آرائی میں تیزی غیر نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ نواز شریف نے واضح کیا کہ ملک کے مفادات کیلئے یہ ضروری ہے کہ عوام کو ان بیماریوں سے آگاہ کیا جائے جنہوں نے مادر وطن کو ماضی میں نقصان پہنچایا ہے۔ ذرائع نے نشاندہی کی کہ نواز شریف، شاہد عباسی اور شہباز شریف نے حالیہ واقعات کا تفصیلی جائزہ لیا اور پارٹی قائد کو حلقوں کے حوالے سے موقف نرم رکھنے کو کہا۔ نواز شریف نے مبینہ طور پر واضح کیا کہ وہ ممبئی حملوں کے حوالے سے اپنے بیان سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ وہ حقیقت پر مبنی ہے اور اس بیان سے قومی مفادات کو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ ذرائع نے یاد دہانی کرائی کہ نواز لیگ کے سخت موقف رکھنے والے حلقے وزیراعظم عباسی پر زور دے رہے ہیں کہ وہ پارٹی قائد کے بیان کی بھرپور حمایت کریں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے پیر کو نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس کے بعد نواز شریف سے ملاقات کے دوران پارٹی قائد نے وزیر اعظم کے بیان پر اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ نواز شریف نے اس اجلاس کے بیان کو مسترد کر دیا۔ نواز شریف چاہتے تھے کہ وزیراعظم اس صورتحال سے مختلف انداز سے نمٹتے کیونکہ اجلاس میں ان کے قریبی ساتھی خرم دستگیر اور مفتاح اسمٰعیل بھی موجود تھے۔ انہوں نے شکایت کی کہ اجلاس میں کسی ٹھوس وجہ کے بغیر ہی ان کے بیان کو مسترد کیا گیا۔ ذرائع کی رائے ہے کہ وزیراعظم عباسی نے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاس کے فوراً بعد میڈیا سے بات چیت کے دوران صورتحال میں توازن لانے کی کوشش کی تاکہ ناراض نواز شریف کو خوش کیا جا سکے لیکن نامعلوم حکام نے اس نشریات کو روک دیا۔ اسی میڈیا بات چیت کے دوران وزیراعظم نے اس بات کی تردید کی کہ نیشنل سیکورٹی کونسل نے نواز شریف کے بیان کی مذمت کی اور کہا کہ اصل میں بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈے اور میڈیا میں غلط رپورٹنگ کی مذمت کی گئی ہے۔ دریں ا ثناء نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنمائوں کے اجلاس کی بھی صدارت کی جس میں قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی میں نیب چیئرمین کی عدم پیشی پر بھی بات کی گئی۔ شرکاء نے نیب چیئرمین کی مذمت کی۔ آئندہ انتخابات کے لائحہ عمل پر بھی بات کی گئی۔ اجلاس میں اسپیکر اسمبلی ایاز صادق، وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق، خرم دستگیر، رانا ثناء اللہ، چوہدری شیر علی، خواجہ آصف، آصف کرمانی، دانیال عزیز، طلال چوہدری، پرویز رشید، مریم اورنگ زیب اور مریم نواز نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد نواز شریف لاہور کیلئے روانہ ہوگئے۔

تازہ ترین