• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کافیصلہ نامناسب،فیئر ٹرائل کاحق متاثر، جے آئی ٹی جانبدار ہے، نواز شریف

سپریم کورٹ کافیصلہ نامناسب،فیئر ٹرائل کاحق متاثر، جے آئی ٹی جانبدار ہے، نواز شریف

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں، مانیٹرنگ سیل)سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ نا مناسب اور غیر ضروری تھا، سپر یم کورٹ کے فیصلے سے فری اور شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا، جے آئی ٹی ممبران کی سیاسی وابستگی اور جانبداری ظاہر ہے، جے آئی ٹی میں حساس اداروں کی شمو لیت سے سول ملٹری تعلقات میں تنائو بڑھا، سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی کو قانونی درخواستیں نمٹانے کیلئے دیئے گئے اختیارات اور والیم دس کی خود ساختہ رپورٹ غیر متعلق ہے،یہ ناقابل قبول شہادت ہے، استغاثہ لندن فلیٹ سے میرا تعلق ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا، ان فلیٹس کا مالک ہوں نہ ہی انکی خریداری کے لئے رقم دی، جے آئی ٹی تفتیش یکطرفہ تھی، مقصد معاونت تھا ریفرنس نہیں، حدیبیہ پیپر ملز کے معاملات والد دیکھتے تھے، فلیٹس خریداری کا حسین نواز پوچھیں۔ سابق وزیر اعظم نے ایون فیلڈ ریفرنس میں127 میں سے 55سوالات کے جواب ریکارڈ کرا دیئے، ریفرنس کی سماعت آج پھر ہوگی۔ پیر کواحتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کبخلاف ریفرنس کی سماعت کی۔ اس موقع پر نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ احتساب عدالت نے تینوں ملزمان سے 127 سوالات پر مشتمل سوالنامے کا جواب طلب کیا تھا۔ سماعت شروع ہوئی تو سابق وزیراعظم نواز شریف نے پہلے سوال میں اپنے عوامی عہدوں کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔سابق وزیراعظم نے تقریباً 4 گھنٹے تک اپنا بیان قلمبند کرایا جسکے دوران انہوں نے 127 میں سے 55 سوالات کے جواب دیے اور وہ آج بھی اپنا بیان جاری رکھیں گے۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق فیصلے اور جے آئی ٹی کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیا اور عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کے لکھے گئے باہمی قانونی معاونت (ایم ایل ایز) کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔ سماعت کی ابتدا میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے پہلے سوال میں اپنے عوامی عہدوں کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔ نواز شریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میری عمر 68 سال ہے، میں وزیراعلی پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔ نواز شریف نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن مجھے جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراض تھا اور یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا جب کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبران کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ظاہر ہے جسکے ممبران میں بلال رسول سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے بھانجے ہیں جو(ن)لیگ کی حکومت کیخلاف تنقیدی بیانات دے چکے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ بلال رسول کی اہلیہ تحریک انصاف کی سرگرم کارکن بھی ہیں۔سابق وزیر اعظم نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنے کزن کے ذریعے تحقیقات کرائیں جبکہ تحقیقات میں انکی جانبداری عیاں ہے۔نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبر عامر عزیز بھی جانبدار ہیں جو سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں جبکہ وہ پرویز مشرف دور میں میرے اور فیملی کیخلاف نیب ریفرنس نمبر 5 کی تحقیقات میں شامل رہے ۔ جے آئی ٹی کے ایک اور رکن عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے جنہیں جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا۔ سابق وزیراعظم نے ایک اور اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا، موجودہ سول ملٹری تعلقات میں تنا ؤ کے اثرات جے آئی ٹی رپورٹ پر پڑے۔ انہوں نے کہا کہ سول ملٹری تنا ؤ پاکستان کی تاریخ کے 70 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے، پرویز مشرف کی مجھ سے رقابت 1999 سے بھی پہلے کی ہے جنہوں نے جے آئی ٹی رکن عامر عزیز سے حدیبیہ پیپر ریفرنس میں ہمارے خلاف تحقیقات کرائیں۔ نواز شریف نے کہا کہ جنرل(ر)پرویز مشرف علاج کے بہانے بیرون ملک گئے اور اسوقت خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کیخلاف سنگین غداری کیس کے بعد تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ سابق وزیراعظم نے کہا نیوز لیکس کی وجہ سے سول ملٹری تنائو میں اضافہ ہوا اور میری اطلاعات کے مطابق بریگیڈیئر نعمان سعید نیوز لیکس انکوائری کمیٹی کا حصہ تھے جبکہ جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں تھے، انہیں آ ؤٹ سورس کیا گیا ، انکی تنخواہ بھی سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے حکم کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیئے تاکہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جاسکے، سپریم کورٹ کی طرف سے ایسے اختیارات غیرمناسب اور غیر متعلقہ تھے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم دس پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، جو ناقابل قبول شہادت ہے، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے اس لیے انکی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے حدیبیہ پیپرز ملز سے متعلق اپنے جواب میں کہا کہ مجھے پرویز مشرف کے دور آمریت میں جلا وطن کر دیا گیا اور زیادہ عرصہ باہر رہنے کے سبب حدیبیہ پیپر ملز کے طویل مدتی قرض کا علم نہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے معاملات میرے مرحوم والد دیکھتے تھے جبکہ جے آئی ٹی میں طارق شفیع کے جمع کرائے گئے حلف نامے کا عینی شاہد نہیں ہوں۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش یکطرفہ تھی جس نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کیلئے بنائی گئی تھی، ریفرنس کیلئے نہیں۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا جانبدار تھے اور اُنہوں نے اپنے کزن اختر راجا کو سولیسٹر مقرر کیا جنہوں نے جھوٹی دستاویزات تیار کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تجزیے کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہا تھا، ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ جے آئی ٹی کے ریکارڈ کردہ بیان کا مخصوص حصہ والیم 2 میں ری پروڈیوس کیا جب کہ استغاثہ نے غیر مستند شواہد پیش کیے۔نواز شریف نے کہا کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر نیب کے پاس ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا، جس نے جے آئی ٹی کی کاپی کے لیے درخواست کی اس پر سنجیدہ سوالات اٹھے اور اُسے شامل تفتیش یا گواہ نہیں بنایا گیا۔

تازہ ترین