• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سب سے پہلے تو میں آپ سب کو رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ کی مبارکباد دینا چاہوں گا، بہت خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اس مقدس مہینے میں اپنی زندگیاں خداوندتعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کے تحت بسر کرنے کیلئے مکمل روزے رکھتے ہیں۔ میں گزشتہ برس بھی ماہ رمضان کے موقع پر اپنے کالم میں تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں کہ روزوں کا تصور کم و بیش ہر مذہب میں پایا جاتا ہے، دنیا کا ہر مذہب اپنے ماننے والوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے روزے رکھیں ۔میری نظر میں روزہ صرف کھانے پینے سے باز رہنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اسکا مقصد انسان کے اندر ایسی اعلیٰ روحانی صلاحیتیں پیدا کرنا ہے جنکی بدولت نہ صرف زندگی میں کامیابی یقینی بنائی جاسکے بلکہ ایک اخلاقی اقدار پر مبنی انسانی معاشرہ قائم کرسکے۔یہ میراذ اتی تجربہ ہے کہ ایک انسان چاہے جتنا مرضی مال و زر اکٹھا کرلے، دنیا بھر کی سیر کرلے لیکن دِلی سکون اسے تب ہی مل سکتا ہے جب وہ خدا کے بتائے ہوئے رستے پر چلے اور خدا کی مخلوق کیلئے آسانیاں پیدا کرے۔ دنیا بھر میں مذہبی تہواروں کی آمد کے ساتھ ہی لوگوں میں مذہبی جوش و خروش کی لہر دوڑ جاتی ہے اور ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کیلئے جُت جاتا ہے۔ کرسمس ہو یا دیوالی، ہر ایک کو خوشیوں میں شریک کرنے کیلئے قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے، نامور برانڈ اپنی مصنوعات کیلئے ڈسکاؤنٹ کا اعلان کرتے ہیں۔ پاکستان کا معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو جاتا ہے، اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں، پاکستان میں دنیا کی بہترین کھجور وافر مقدار میں پائی جاتی ہے لیکن کھجورکی قیمت میں ہوشربا اضافہ کردیا جاتا ہے، پھلوں کی قیمت متوسط طبقے کے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہے، بازاروں میں ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کا راج قائم ہوجاتا ہے، رمضان کا مقدس مہینہ خدا کی زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کا تقاضا کرتا ہے لیکن مہنگائی اور گراں فروشی سے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا جاتا ہے، آخر ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ناجائز منافع خوری کے ذریعے حاصل کردہ آمدنی سے خدا کو راضی نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتی سطح پر ہر سال رمضان پیکج، یوٹیلیٹی اسٹورز اور سستا رمضان بازار کے نام پر رعایتی نرخ پر اشیائے خورد و نوش کی فراہمی کے بلند وبانگ اعلانات بھی مہنگائی کا زور توڑنے میں ناکام نظر آتے ہیں، پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا سارا زور غریب ریڑھی بانوں اوردکانداروں پر چلتا ہے جو خود منڈیوں سے مہنگے دام مال خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں، میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ پرائس کنٹرول چھاپوں سے قیمت تو کوئی خاص کم نہیں ہوتی البتہ مال مارکیٹ سے ضرور غائب ہوجاتا ہے اور صارفین کو بلیک میں مزید مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف بازاروں میں زکوٰۃ کی خطیر رقوم ہتھیانے کیلئے پیشہ ور بھکاریوں کے غول نکل آتے ہیں، زکوٰۃ خدا کی امانت ہے اور مستحق کے پاس جانی چاہئے تاکہ وہ بھی اپنی زندگی میں آسانی لا سکے، میری معلومات کے مطابق زکوٰۃ کے حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں مگر ہم لوگ بنیادی طور پر سہل پسند واقع ہوئے ہیں اور اپنی آسانی کیلئے سامنے آنے والے پیشہ ور بھکاریوں کو نواز کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہم نے اپنافرض ادا کرلیا، مالِ مفت دل بے رحم کے مصداق یہ بھکاری ہمارے خون پسینے کی کمائی ہڑپ کرکے حقدار کا حق مارتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر صرف زکوٰۃ ہی صحیح طریقے سے مستحق تک پہنچ جائے تو ہمارے معاشرے میں کافی حد تک سدھار آسکتا ہے، اس کیلئے بہت ضروری ہے کہ ہم رمضان کے مقدس ماہ میں اپنے آس پاس ان سفید پوش لوگوں کی باعزت انداز میں خاموشی سے مدد کریں جو کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرسکتے۔پاکستانی قوم دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے والی قوم ہے، ہر سال لاکھوں کروڑوں روپے امدادی کاروائیوں کیلئے جمع کئےجاتے ہیں لیکن یہ ایک المیہ ہے کہ اصل مستحق پھر بھی محروم ہی رہتا ہے۔ ریاکاری اور دکھاوا خدا کو بالکل پسند نہیں، بدقسمتی سے سوشل میڈیا کی مقبولیت سے یہ ایک ٹرینڈ بنتا جارہا ہے کہ ہم غریبوں کی مدد کرنے کے نام پر اپنی تصاویر شائع کرنے کو ایک قابل فخر کارنامہ سمجھتے ہیں، ہم اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ ایک مجبور اور بے بس انسان کی ہاتھ بڑھاتے تصویر اسکی عزت نفس کو کتنا زیادہ گھائل کرسکتی ہے اور اسکے اہل خانہ بیوی بچے معاشرے کی نظر میں مزید کتنا زیادہ گرسکتے ہیں، ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے فلاحی کاموں کی تشہیر کی بجائے خدا کے احکامات کا خیال رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہونے دیں۔ ہم نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہر مسئلے کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں، حکومت کی ذمہ داریاں اپنی جگہ لیکن اگر ہم حقیقت میں پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی مملکت بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں رمضان کے مقدس مہینے میں خداوند تعالیٰ کی خوشنودی کیلئے رضاکارانہ طور پر خود بھی کچھ اقدامات کرنے چاہئے۔ سب سے پہلے تو ہمیں روزے دار کیلئے آسانیاں پیدا کرنی چاہئے۔ اگر ہم کوئی کاروبار کررہے ہیں تو ہمیں صرف ایک ماہ کیلئے قیمتوں میں ازخود کمی کرنی چاہئے، ہمیں اپنے دنیاوی نقصان سے زیادہ اس عظیم فائدے کا سوچنا چاہئے جو خدا خوش ہوکر ہمیں عطاکرسکتا ہے۔اگر ہم ملازمت پیشہ ہیں تو ہمیں روزے کا بہانہ بناکر اپنی دفتری ذمہ داریوں میں ڈنڈی نہیں مارنی چاہئے، سرکاری دفتروں کے حوالے سے یہ عام شکایت ہے کہ رمضان المبارک میں کوئی کام نہیں ہوتا اور عملہ غائب ہوتا ہے، ہمیں سوچنا چاہئے کہ روزے کی حالت میں ہمارے پاس آنے والے کا کام ہم نہیں کرتے تو کس منہ سے ہم خدا کی رحمت کے طلبگار ہیں؟ ضروری نہیں کہ صدقہ خیرات صرف مالی شکل میں ہی دیا جائے، اگر خدا نے ہمیں کوئی صلاحیت یا ہنر بخشا ہے تو ہمیں صدقہ جاریہ سمجھتے ہوئے رمضان کے مہینے میں کسی دوسرے کو فی سبیل اللہ سکھانا چاہئے، اگر ہم کسی ایک فرد کو بھی باعزت روزگار دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار ادا کردیا، اسی طرح ایک استاد اپنی ٹیوشن فیس میں کمی کا اعلان کرکے رمضان کے مقدس مہینے میں طالب علموں کیلئے آسانی فراہم کرسکتا ہے۔ ہمارے آس پاس بہت سے غیرمسلم مستحق گھرانے بھی بستے ہیں، یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انہیں بھی صدقہ خیرات اور فلاحی سرگرمیوں میں شریک کریں، اگر خدا کی رحمت سب کیلئے یکساں ہے تو ہم کیوں خدا کے بندوں میں تفریق کرتے ہیں۔ میں آج رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے ہم وطنوں سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ خدارا مقدس رمضان کے اصل پیغام کو سمجھیں، میری نظر میں روزہ دن بھر بھوکے پیاسے رہنے کے ساتھ صبر و تحمل، بھائی چارے اور خدا ترسی کا درس دیتا ہے، ہم قناعت پسندی اختیار کرکے نہ صرف اپنی زندگی آسان بناسکتے ہیں بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق غریب مستحق لوگوں کی مدد کرکے روحانی خوشی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ہم سب کو رمضان کے مقدس مہینے میں یہ مقصد حیات بنا ناچاہئے کہ خدا کو ہر حال میں یاد رکھا جائے،فضول خرچی، ریاکاری اور ناجائز منافع سے دوری اختیار کی جائے، کسی حقدار کا حق نہ مارا جائے اور اپنی ضروریات کو محدود رکھتے ہوئے دوسروں کی ضروریات کا خیال کیا جائے۔ مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ اگر ہم ایسے اعلیٰ اوصاف اپنانے میں کامیاب ہوگئے تو سال کے اگلے گیارہ مہینے بھی خدا کی رحمت کے سائے تلے ہی گزریں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین