• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1947ء سے میں کراچی کا رہائشی ہوں، شروع کے دنوں میں ہم گھر سے باہر سڑکوں پر کھیلا کرتے تھے، جگہ جگہ سڑکوں کے کنارے درخت لگے ہوتے تھے، کہیں بیر کے درخت کہیں گولڑ تو کہیں گوندنی، کہیں پیپل سب کے سب سایہ دار درخت ہوا کرتے تھے، جب مسافر چلتے چلتے تھک جاتے تو ان ہی درختوں کے سائے میں دم لینے رک جایا کرتے تھے، گلی محلوں تک میں درخت اور پھول دار بیلیں ہوا کرتی تھیں، تب بارشیں بھی خوب ہوا کرتی تھیں، سر شام گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں، بجلی کسی کسی گھر میں تھی، پھر بھی حبس یا گرمی سے تنگ آئے لوگوں کی کبھی فریاد نہیں سنی تھی۔ لوگ رات کو کمروں سے نکل کر دالان میں بستر لگا کر آرام سے سوجایا کرتے تھے، گرمیوں کے موسم میں بھی درجہ حرارت30 سے35 درجہ تک رہتا تھا، اس سے ہی گرمی کی شدت کا اندازہ ہوتا تھا۔ گرمیوں میں گرمی اور سردیوں میں سردی خوب مزا دیتی تھی۔ آج کل کی طرح اذیت ناک نہیں ہوا کرتی تھی۔ پھر کیا ہوا اس شہر بے مثال کو کس کی نظر لگ گئی۔ کیسا اندھیر مچ گیا ہے۔ درجہ حرارت42 سے47 درجہ تک کیسے پہنچ گیا۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی اس تبدیلی کی؟
ہمارے ایک شناسا جو ماہر نباتات و جنگلات ہیں، سے ہم نے دریافت کیا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ کراچی کے موسم کا سارا نظام ہی تلپٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا یہ تو ہمارا اپنا کیا دھرا ہے۔ موسم اپنے آپ ہی تبدیل نہیں ہوا، اسے ہم ہی لوگوں نے تبدیل ہونے پر مجبور کیا ہے۔ ایسا اس لئے ہوا ہے کہ جو درخت آکسیجن بنایا کرتے تھے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کیا کرتے تھے انہیں ہم نے خود جڑوں سے نکال کر پھینک دیا ہے۔ اب جو شجر کاری کی جا رہی ہے وہ ایسے درخت ہیں جنہیں یورپ اور امریکا نے دیس نکالا دیا ہوا ہے، یہ درخت جو اَب اگائے جا رہے ہیں ان کے بارے میں خود امریکا و یورپ کے تحقیقاتی اداروں کی رپورٹ ہے کہ یہ آکسیجن جذب کرتے ہیں، انہیں پانی کی وہ ضرورت نہیں جو دوسرے اقسام کے پودوں، درختوں کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف زیر زمین پانی کو ختم کرنے کا باعث ہیں بلکہ شفاف ماحول کو بھی خراب کرنے کا سبب ہیں، ان سے نئی نئی بیماریوں کا پھیلائو ہو رہا ہے، سب سے اہم بات ان درختوں کے سلسلے میں جو تحقیق ہوئی ہے وہ یہ کہ یہ درخت بارش دشمن درخت ہیں، ان کی افزائش کی وجہ سے بارش نہیں ہوتی یا کم کم ہوتی ہے جو انسانی ضروریات کے مطابق قطعی نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ پانی کے ذخیرے متاثر ہو رہے ہیں وہ وقت دور نہیں اگر یہ درخت اسی طرح نمو پاتے رہے اور بڑھتے رہے تو نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں پانی نایاب ہوسکتا ہے۔ زیر زمین پانی جو پہلے پانچ سات فٹ پر ہوا کرتا تھا اب چالیس یا پچاس فٹ پربھی مشکل سے میسر آتا ہے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا ویسے ویسے پانی کی سطح نیچی اور نیچی ہوتی جائے گی۔ بارشیں نہ ہونے سے دریا، ندی، نالوں میں بھی پانی نایاب ہوتا جائے گا۔ یہ درخت جو آج ہمیں کراچی اور اس کے مضافات میں بلند و بالا نظر آرہے ہیں یہ ہی ماحول دشمن اور آب دشمن درخت ہیں، اس سے طرح طرح کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ سب سے اہم اس درخت سے ماحول خراب ہو رہا ہے۔ انسانوں پر براہ راست اس کا اثر ہو رہا ہے، سستی کاہلی ، بے پروائی کا رحجان بڑھ رہا ہے، کچھ اہل دانش و تحقیق کا گمان ہے یہ درخت وطن عزیز میں دانستہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لگائے گئے ہیں۔
اب ہمیں صرف اتنا کرنا ہوگاکہ ہر فرد ایک ایک ایسا پودا لگائے جو ملکی ضرورت اور آب و ہوا کے مطابق ہو۔ وطن عزیز کی آبادی 22 کروڑ بتائی جاتی ہے۔اگر ہر شخص ایک ایک ہی سہی گیارہ کروڑ درخت لگا کر ان ماحول دشمن درختوں کو نکال پھینکے ۔ ورنہ تمام اہل وطن نہ سہی کثیر تعداد خصوصاً شہری آبادی بے حسی میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو تباہ ہونے سے نہ بچاسکے گی اور بے حسی کی نیند سوکر دشمن کا شکار ہوجائے گی۔
ہماری انتظامیہ اتنی بھولی اور بے پروا ہے کہ انہیں ان درختوں کے نقصانات کا اندازہ ہی نہیں۔ وہ تو اس پر ہی خوش ہے کہ وہ کراچی کو سرسبز شاداب بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور خرچہ بھی کم سے کم ہو رہا ہے۔ حالانکہ اس کے نقصانات کا اندازہ ہی نہیں کیا جارہا اور نہ کیا جاسکتا ہے۔ ان درختوں سے کہیں بہتر تو کیکر کے درخت ہیں، ان درختوں کا بھی سایہ نہیں ہوتا نہ کسی کے کام آتا، لیکن اس کی افادیت ان درختوں سے کہیں زیادہ ہے۔ سائنس کا اصول ہے کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن مل کر پانی بنتا ہے، ماحول کی آکسیجن جب یہ درخت چوس لے گا تو پانی بننے کا عمل کب اور کیسے ہوگا، ماحول میں بھی ہائیڈروجن کی مقدار ان بیرونی درختوں کی وجہ سے بڑھتی جائے گی جو انسانی صحت کے لئے نقصان کا باعث بنے گی۔ پانی اس کا مشہور مرکب ہے، یہ انسانی جسم پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، سانس کے امراض اور بلند فشار خون کا باعث بھی بنتی ہے، ہوا میں آکسیجن کی کمی کا سبب یہ درخت ہیں جو جگہ جگہ آسانی سے لگائے جا رہے ہیں جو تیزی سے نشوونما پا رہے ہیں۔ اتنی ہی تیزی سے ماحول سے آکسیجن چوس کر جانداروں کے لئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں، منتظمین کو سوچنا سمجھنا ہوگا کہ یہ بظاہر خوبصورت اور تن آور نظر آنے والے درخت ہمارے لئے کس قدر مضر اور نادیدہ دشمن ہیں، ان سے کیسے اور کس طرح بچاجاسکتا ہے اور اپنے ماحول کو صاف ستھرا اور صحت بخش بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں ان درختوں کو ہٹا کر اپنے دیسی درخت، گوندنی، پیپل، کیکر، شیشم، چیڑ، برگد اور دیگر ایسے ہی صحت آمیز درختوں کو لگانا چاہیے تاکہ ماحول ہی نہیں انسانی ذہن اور زندگی کو متاثر کرنے والے اس دشمن سے جلد از جلد چھٹکارا ملے، اگر ہر پاکستانی اپنی صحت و زندگی کی حفاظت کے نام پر ایک پودا ایک درخت لگائے تو یہ ہمارا پیارا وطن اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی، اپنے وطن عزیز کی ان نادیدہ دشمن قوت سے حفاظت کرسکیں اور دشمن کی اس نادیدہ سازش کو ناکام بناسکیں، اللہ تعالیٰ ہمارا محافظ ہو، آمین۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین