• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فرانس کے صدر فرانسیوز ہالیندے نے اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ اگر یورپ میں جلد ہی بڑی تبدیلی نہ آئی تو مورخ کو دنیا کی تاریخ یورپ کے بغیر ہی لکھنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یورپ متحد رہتا ہے تو تب ہی وہ طاقتور رہے گا اگر فرانس اور جرمنی اکھڑے اکھڑے اور الگ الگ رہے تو یورپ بھی کمزور رہے گا، دنیا یورپ کے لئے انتظار نہیں کرے گی۔
یورپین یونین کی مشترکہ کرنسی یورو کو جب سے بحران کا سامنا ہوا ہے صورت حال تبدیل ہوگئی ہے اور وہ بھی بڑی تیزی سے، جرمنی اور ہالینڈکے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ اگر یورپی یونین کے تمام ارکان اسی طرح سے اپنا طرز عمل، طریقہ کار اور رجحان رکھتے جیسا کہ جرمنی کا ہے تو یورو کو کسی پریشانی کاسامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یورپ میں آئرلینڈ، یونان اور پرتگال کی معیشتوں کی تو یورو زون نے مدد کی ہے لیکن اب ان کے سامنے بڑا سوال بلکہ سب سے بڑا چیلنج اربوں یورو کے قرض میں ڈوبی معیشتوں اٹلی اور سپین کو بچانے کا ہے، قرض میں ڈوبے یورو زون کی معیشتوں میں ڈسپلن لانے کے لئے اور یورو کو استحکام دینے کے لئے فرانس کے صدر ہالیندے مختلف ملکوں کے سربراہوں سے ملاقات میں مصروف ہیں ایک بات واضع طور پر کہی جاسکتی ہے کہ فرانس اپنی خودمختاری کو نہیں چھوڑے گا اور اگر یورو زون کی معیشتیں متحد ہوکر نہیں چلتیں تو یورو کا وجود خطرے میں رہے گا اور فرانس اس لئے بھی چلاّرہا ہے کہ دنیا میں مستقبل میں یورپ کی آواز سنی جائے۔
اگرچہ یورپی یونین کو آج کل کئی طرح کے بحرانوں کا سامنا ہے لیکن سردست رکن ممالک کی تمام تر توجہ اپنی کرنسی یورو پر مرکوز ہے یورو گزشتہ سال سے مشکلات میں ہی گھرا ہوا ہے لیکن اب کہیں جاکر یورپ کے یورو بحران کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے دنیا کے امیر اور مضبوط اقتصادیات کے حامل ممالک کے مرکزی بنکوں کی جانب سے اس بحران کے بوجھ کو تقسیم کرنے کے احساس سے ایک امید کی کرن پھوٹی ہے اس اقدام سے عالمی منڈیوں میں کاروباری حلقے مطمئن دکھائی دے رہے ہیں اور اربوں ڈالر کے کاروباری سودوں کا ڈول ڈالا گیا ہے جرمنی کے بازار حصص میں پانچ فیصد تک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپی سطح کے مسئلوں میں جرمنی کا کردار انتہائی پراعتماد ہے کئی دھائیوں تک یورپ کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط تھیں تب ایسے یورپ کی خواہش نہیں کی جارہی تھی کہ جس پر جرمنی کی ”چھاپ“ ہو بلکہ ایک ایسے جرمنی کے لئے کوششیں کی جارہی تھیں جویورپ کا حصہ ہو، جرمنی کی مخصوص تاریخ اور جنگ دوم کی وجہ سے ہر لمحے یہ خیال کیا جاتا رہا کہ کسی بھی موڑ پر سامراجیت کا شائبہ تک نہ ہو۔ جرمنی کے قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیا گیا کہ یورپ کی روح متاثر نہ ہو یہی وجہ تھی کہ ہالینڈ میں رہتے ہوئے بھی مجھے ایسے محسوس ہوتا رہا کہ کئی دھائیوں تک یورپ اور یورپی یونین کے حوالے سے جرمنی کی پالیسیاں بہت محتاط تھیں۔ بہر حال اب جرمن عوام میں یہ تاثر جنم لے رہا ہے کہ جرمنی کو ان ممالک کی مدد کرنا پڑرہی ہے جو اپنے مالی مفادات حل نہیں کرسکتے اور جن کی گرفت سے یہ معاملات باہر ہوچکے ہیں۔ ادھر یورپی یونین نے مالی معاملات کے حل کیلئے چین کو بھی درخواست دے دی ہے یورپی قائدین نے چین سے مطالبہ یا درخواست (جو بھی سمجھ لیں)کہا ہے کہ وہ امدادی فنڈ میں سرمایہ کاری کرے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے صدر کرسٹن لاگارڈے نے وارننگ دی ہے کہ د نیا معاشی بحران کے دہانہ پر پہنچ گئی ہے۔ ان کی یہ وارننگ ایشیائی ممالک کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ ایشیا ان مسائل سے مستشنیٰ نہیں ہے جن سے آج یورو زون دو چار ہے صدر لاگارڈے نے چینی سنٹرل بنک کے گورنر اور اعلی عہدیداروں کی ایک میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے یورو زون کی حالت زار کا نوحہ کہا اورانہیں یہ دھمکی نما وارننگ بھی دے ڈالی کہ اگر ہم مشترکہ طور پر کوشش نہیں کریں گے تو پوری دنیا معاشی بحران کے دلدل میں پھنس جائے گی معاشی کساد بازاری پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ چین دنیا میں سب سے زیادہ بیرونی زرمبادلہ رکھنے والا ملک ہے اس کے بیرون زرمبادلہ کے ذخائر 3.2 کھرب ڈالر ہیں یہی وجہ ہے کہ چین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ یورو زون کو مالیاتی بحران سے نکالنے کیلئے ”بیل آؤٹ“ کے فنڈ میں سرمایہ لگائے چین کو بتایا گیا ہے کہ ہم تمام کی قسمت ایک دوسرے سے وابستہ ہے، ڈوبے تو سب ڈوبیں گے اور ابھریں تو سب ابھریں گے۔لاگارڈے نے روس کا بھی دورہ کیا ہے اور اس کو بھی خبردار کیا ہے کہ یورپی معاشی بحران سے اس کی چشم پوشی خطرناک ہوگی۔ امریکہ اور یورپ نے چین پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ چین نے اپنی کرنسی کی قدر کو جان بوجھ کو کم سطح پر رکھا ہے تاکہ اپنے برآمدکنندگان کو غیر قانونی فائدہ پہنچایا جائے یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ امریکہ اور یورپ چین کی مصنوعات اور اشیاء کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ مجھے یورپ کے خستہ مالی حالات دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام نا کام ہوچکا ہے میرے ساتھ دنیا کے 45 ممالک کے لگ بھگ ایک چوتھائی افراد بھی اس بات پر یقین محکم رکھتے ہیں کہ سرمایہ دار نظام نقائص سے پُر ہے یہ بات تازہ پول میں سامنے آئی ہے گلوب سیکن کے سروے میں 36 ہزار افراد میں صرف 9 فیصد کا کہنا تھاکہ سرمایہ دارانہ نظام صحیح رہا اور مزید کسی بڑے ضابطے کی ضرورت نہیں جبکہ 56 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام بری طرح ناکام ہے اور نئے معاشی نظام کی ضرورت ہے لیکن ایک شرمناک ، المناک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکہ کے علاوہ کشور حسین شاد باد ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں 12 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام بالکل صحیح چل رہا ہے۔
امریکہ اور یورپ میں آئے ہوئے اس مالی بحران اور مندی کو دیکھتے ہوئے یہاں کے شہری اپنے مستقبل کے تعلق سے سخت فکرمند ہوگئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد اور ماہرین ملازمت حاصل کرنیکے لئے ترقی پذیر ممالک کا رخ کررہے ہیں جن میں سرفہرست پاکستان کا ہمسایہ بھارت ہے۔ یورپ کے ایک جریدے کے صنعتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اس وقت 40 سے پچاس ہزار غیرملکی ماہرین کام کررہے ہیں بھارت میں غیرملکیوں کو ملازمت دلانے والی فرم کے منیجر نے جریدہ کو بتایا ہے کہ ”چونکہ ہمارا ملک تیزی سے معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے جہاں ملازمتوں کے اعلیٰ مواقع دستیاب ہیں یہ دیکھتے ہوئے امریکہ اور یورپ کے ماہرین انڈیا کو ملازمت کے لئے ترجیح دے رہے ہیں اور گزشتہ سال کے مقابلے میں غیرملکی ملازمین کی تعداد میں 15 سے 20 فیصد اضافہ دیکھنے میںآ یا ہے“۔ بھارت میں امریکی اور یورپی ماہرین کو بالخصوص بینکنگ،مالیاتی اداروں، آٹو موبائل، فارما، ریٹیل سیکٹر اور آئی ٹی ماہرین کو خدمات کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ ان ماہرین کو (بالخصوص آئی ٹی ماہرین) کو 40 لاکھ روپے سے ایک ارب 25 لاکھ روپے تک سالانہ تنخواہ مل رہی ہے۔ مغربی ممالک اور امریکہ میں اقتصادی بحران کی وجہ سے وہ نوکریوں کے لئے بھارت کا رخ کررہے ہیں۔ بہت ساری کمپنیوں ،اداروں اور آرگنائزیشنوں نے بجٹ کی کمی کی وجہ سے اپنے دفاتر بھارت منتقل کردیئے ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ برصغیرکے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد روزگار اور اچھے مستقبل کے لئے امریکہ اور یورپ کا رخ کرتے تھے لیکن اب حالات بدل چکے ہیں امریکہ اور یورپ خود معاشی اور مالی ابتری کا شکار ہیں۔اب ان ممالک کے تعلیم یافتہ، ڈگری یافتہ اور ہنرمند افراد روزگار حاصل کرنے کے لئے بھارت کا رخ کررہے ہیں یعنی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ حالات کی تبدیلی کے بعد حالات کے خلاف شکایت نہ کیجئے بلکہ نئے حالات کے مطابق اس کا نیا حل سوچئے۔
تازہ ترین