• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑھتے ہوئے مالیاتی و جاری حسابات کے خسارے کی وجہ سے پاکستانی معیشت سنگین بحران کا شکار ہے۔ ان دونوں خرابیوں کی ذمہ داری وفاق کے ساتھ چاوں صوبوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ 2010میں 18ویں آئینی ترمیم اور 7ویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے بعد سے صوبوں کے اختیارات، ذمہ داریوں اور مالی وسائل میں زبردست اصافہ ہوا ہے۔ گزشتہ 8برسوں میں وفاق نے قابل تقسیم آمدنی سے تقریباً 2500ارب روپے کی اضافی رقوم صوبوں کو فراہم کیں جس کے مثبت اثرات صوبوں میں نظر نہیں آ رہے۔
گز شتہ5برسوں میں مسلم لیگ (ن) وفاق اور گزشتہ10برسوں میں پنجاب میں برسر اقتدار رہی۔
پیپلز پارٹی 2008سے2013کے5 برسوں میں وفاق میں اور گزشتہ 10برسوں میں صوبہ سندھ میں اقتدار میں رہی۔ معیشت میں پائیدار بہتری لانے کے لئے جن بنیادی اصلاحات کی ضرورت تھی۔ ان دونوں سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں نے ان سے اجتناب کیا کیونکہ ان اصلاحات سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔
تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان میں اتری تھی چنانچہ بہت سے لوگ نیک نیتی سے یہ سوچ اپنا رہے تھے کہ 2018کے عام انتخابات کے ذریعے تحریک انصاف کو موقع دے کر آزمانا چاہئے۔ اس سوچ کو اب جھٹکا لگ چکا ہے کیونکہ گزشتہ 10 برسوں میں مسلم لیگ (ن) نے صوبہ پنجاب میں اور پیپلز پارٹی نے صوبہ سندھ میں جو استحصالی معاشی پالیسیاں اپنائی تھیں عملاً وہی پالیسیاں تحریک انصاف نے2013سے2018 تک صوبہ خیبر پختونخوامیں اپنائیں ،یہی نہیں، زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانے کے بجائے تحریک انصاف نے بجلی، گیس و پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھاتے چلے جانے میں عملاً وفاقی حکومت کو معاونت فراہم کی۔ تحریک انصاف و فاقی حکومت پر الزام لگاتی رہی ہے کہ وفاق صوبوں کا استحصال کر رہا ہے اور خیبر پختونخوا کو 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت مطلوبہ رقوم نہیں مل رہیں مگر عملاً صوبہ سندھ کی طرح صوبہ خیبر پختونخوا نے بھی وفاق سے ملنے والی رقوم کو پوری طرح خرچ کرنے کے بجائے فاضل رقوم دکھلائیں، تاکہ بجٹ خسارے کو بے قابو ہونے سے روکا جاسکے۔
تحریک انصاف نے 2013کے انتخابی منشور میں قوم سے جو وعدے کئے تھے ان میں سے صرف ان چند نکات کے ضمن میں ہم گزارشات پیش کر رہے ہیں جو براہ راست صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہیں مثلاً
(1 ) منشور میں کہا گیا تھا ‘‘زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر پر (موثر طور ) ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ ان دونوں سیکٹرز کے ضمن میں تحریک انصاف نے بھی اپنے 5 سالہ دور اقتدار میں اپنے منشور کو پس پشت ڈالے رکھا کیونکہ طاقتور طبقے اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔
(ii) منشور میں کہا گیا تھا کہ صوبائی حکومت کو اس اصول پرعمل کرنا چاہئے۔’’ریاست اس جائیداد کو قومی ملکیت میں لے آئے جس کی مالیت مارکیٹ کے نرخ سے کم ظاہر کی جائے۔ ‘‘ منشور کے اس نکتے پر عمل کرنے کیلئے یہ کافی ہوتا کہ جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ ‘‘ (جو مکمل طور پر صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں) کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر کر دیا جائے۔
طاقتور طبقوں کے دبائو پر اس وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔ غیر منقولہ جائیداد سیکٹر لوٹی ہوئی اور ٹیکس چوری کی دولت کو محفوظ جنت کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لائے بغیر ملک میں کرپشن پر قابو پانے اور لوٹی ہوئی دولت کو قومی خزانے میں واپس لانے کے دعوے قوم کے ساتھ سنگین مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ لوٹی ہوئی دولت کی قومی خزانے میں واپسی ے از خود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کو ’’ملکی پاناماز‘‘پر ہاتھ ڈالنے کے لئے فوری احکامات صادر کرنا ہوں گے۔ جس سے چند ماہ میں تقریباً دو ہزار ارب روپے کی اضافی رقوم حکومت کو مل جائیں گی جن کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
(iii) منشور میں کہا گیا تھا ’’صحت کے شعبے میں اخراجات میں 5 برسوں میں 6گنا اضافہ کر دیا جائے گا اور تعلیم کے شعبے میں 5 برسوں میں5گنا اضافہ کر دیا جائے گا‘‘ یہ امر افسوسناک ہے کہ ان دونوں نکات پر عمل نہیں کیا گیا ۔
(iv)’’منشور ‘‘ توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے صوبوں کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ ’’یہ وعدہ بھی وفا نہیں ہوا۔
معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے سابقہ وفاقی حکومت نے دو ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا اجرا کیا تھا ،ان اسکیموں میں دانستہ جھول رکھے گئے ہیں۔ چنانچہ وطن عزیز میں آئندہ بھی قومی دولت لوٹنے والے بدستور مزے کرتے رہیں گے۔ ان ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے منفی اثرات 2018-19میں ہی نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ قومی مفادات اور سلامتی کے تحفظ کے لئے ان اسکیموں کو رد کرنا ہو گا۔ معاشی بحران کو ٹالنے کیلئے سابقہ حکومت نے چین سے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کا سلسلہ شروع کیا تھا چین یقیناً ہمارا دوست ہے مگر کسی ملک پر انحصار بڑھاتے چلے جانا مناسب نہیں ہے۔ چین کے قرضے بہرحال آئی ایم ایف، کے قرضوں کا متبادل ہو ہی نہیں سکتے۔
چین نے عالمی مالیاتی نظام اور عالمی معیشت میں اپنا کردار بڑھانے کے لئے پٹی اور سڑک منصوبوں کے تحت دنیا کے مختلف ممالک میں ابتدائی کام شروع کر دیا ہے جو آگے چل کر دنیا کے 100ممالک تک پھیل سکتا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے چین اپنے آپ کو دنیا کے سامنے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ امریکہ چین کے عزائم میں رختہ ڈالنے کے لئے چین کو جنگی یا پر تشدد تنازعات میں ملوث کرنا چاہتا ہے۔امریکہ، بھارت کے تعاون سے پاکستان اور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے اور پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ پاکستان میں اداروں کے سنگین ٹکرائو اور الزامات کی سیاست سے امریکی ایجنڈے کو تقویت مل رہی ہے۔ چین اپنے مقاصد کے حصول کے لئے پھونک پھونک کرقدم اٹھا رہا ہے۔ چین نے 2017میں برکس کے پلیٹ فارم سے دہشت گردی کے ضمن میں بھارت و امریکہ کے موقف کی حمایت اور پاکستانی موقف کی مخالفت کی تھی۔
چین نے فروری2018میں فنانشل ایکٹ ٹاسک فورس میں پاکستان کے خلاف ووٹ دیا ،چنانچہ اسی ماہ پاکستان کو اس ٹاسک فورس کی ’’واچ لسٹ‘‘ میں ڈال دیا جائے گا ،چین پہلے ہی بھاشا ڈیم کی تعمیر سے دستبردار ہو چکا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عام انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیاں ایک عہد نامے پر دستخط کریں جس کے نکات میں معیشت کو دستاویزی بنانا ، کالے دھن کو سفید ہونےسے روکنا، جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانا، ناجائز رقوم سے بنائے ہوئے ملک کے اندر موجود اثاثوں کو ٹیکس ایمنسٹی دینے کے بجائے ان پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس، وحکومتی واجبات وصول کرنا، ہر قسم کی آمدنی کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانا، جی ایس ٹی کی شرح کو 5فیصد کرنا۔
پٹرو لیم لیوی کو ختم کرنا اور جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7فیصد اور صحت کی مد میں 4فیصد مختص کرنا لازماً شامل ہوں، ان اقدامات کے بغیر معیشت اور عام آدمی کی حالت میں بہتری اور قومی سلامتی کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین