سب سے پہلے تو اہل وطن اور تمام عالم اسلام کو گزشتہ عید الفطر کیلئے دِل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں، خداوندتعالیٰ سے دعاگوہوں کہ قومی الیکشن کے سال میںآنے والی عید وطن عزیزکیلئے ترقی و خوشحالی کا باعث بنے اورہم سب اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر پاکستان کی بہتری کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں۔ عید کا تہوار محبت، اخوت، مساوات اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے، اس حوالے سے رواں برس ہمسایہ ملک افغانستان میں چشم فلک نے جو نظارہ دیکھا وہ نہ صرف افغان عوام بلکہ پاکستان، امریکہ، مغرب اور عالمی برادری کیلئے نہایت حیران کن تھا، میڈیا اطلاعات کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کی عید الفطر کے مبارک موقع پر جنگ بندی کی پیشکش کا طالبان جنگجوؤں نے مثبت جواب دیا اور عرصہ طویل سے جاری جنگ سے بے حال افغانستان میں پہلی مرتبہ طالبان جنگجوؤں، افغان فوج اور عوام نے مل کر ایک ساتھ عید منائی، تین روزہ جنگ بندی کے دوران درجنوں غیر مسلح طالبان افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے اتر کر دارالحکومت کابل سمیت دیگر علاقوں میں داخل ہوئے، اس موقع پر انکا استقبال افغان عوام کے ساتھ حکومتی اہلکاروں نے بھی کیا، سوشل میڈیا پر ایسی بے شمار سیلفیاں وائرل ہوئی ہیں جن میں طالبان اور افغان سیکورٹی اہلکار خوشگوار موڈ میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہیں، عید کے دوسرے روز افغان وزیر داخلہ ویس برمک کی طالبان جنگجوؤں کے ساتھ ملاقات کی تصاویر بھی سامنے آئیں، اسی طرح ایک افغان نیوز چینل نےایک طالبان جنگجو کو موٹرسائیکل پر شہر میں داخل ہوتے ہوئے دکھایا جسکے ساتھ سیلفیاں بنانے عوام کی بڑی تعداد جمع ہوگئی، طالبان جنگجو نے سیکورٹی اہلکار کو گلے لگایاتو عوام نے فرط مسرت سے امن کے حق میں نعرہ بازی شروع کردی۔ طالبان کے دورحکومت کو ختم ہوئے دو دہائیاں بیتنے کو ہیں لیکن اب بھی افغانستان کو ایک قدامت پسند ملک ہی سمجھا جاتا ہے، رواں برس کی عید نے ثابت کردیاہے کہ آج کا افغانستان دورجدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کو تیار ہے، اگر افغانستان میں قیامِ امن کو یقینی بنانے کیلئے خواتین بھرپور انداز سے سرگرم عمل ہیں تو دوسری طرف طالبان بھی خواتین کے حوالے سے اپنے خیالات میں جدت لاچکے ہیں، اس حوالے سے کچھ تصاویر میری نظر سے بھی گزری ہیں جن میں طالبان خواتین کے ساتھ تصاویر بخوشی بنوارہے ہیں اور خواتین طالبان مہمانوں کو روائتی پگڑیاں پہنا رہی ہیں۔ افغانستان میں تاریخی سیزفائر کے اقدام کو عالمی برادری کی طرف سے بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا، پاکستان میں جرمن سفیر مارٹن کوبلر سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر کافی ایکٹو ہیں، بالخصوص انکی اردو زبان میں ٹویٹس کو پاکستانی عوام میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہے، جرمن سفیرنے ایک طالبان کمانڈرکی افغان سرکاری سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ ہاتھوں میں گلاب کے پھول اٹھائے تصویر جاری کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہاراردو زبان میں کیا کہ امن کی پیاس کو اجاگر کرتی افغانستان میں پہلی جنگ بندی کی دلچسپ تصویر نے دیوار برلن کے گرنے پر شادمانی کی یاد دلا دی، امید ہے کہ دونوں جنگ بندی پر عمل جاری رکھیں گے اور جلد مذاکرات پر آئیں گے، معزز سفیر نے داعش کے ننگرہار پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی سے لڑنا اہم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی شروعات کرنے والے امریکہ نے بھی افغان عوام کو عیدالفطر کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے محدود جنگ بندی کا خیرمقدم کیا، امریکہ کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں امن یقینی بنانے کیلئے امن مذاکرات کی حمایت، سہولت کاری اور شریک ہونے کیلئے تیار ہے، امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے بیان میں ایسی تصاویر دیکھنے کا بھی تذکرہ کیا جن میں افغان سپاہی اور پولیس اہلکار طالبان جنگجوؤں کے شانہ بشانہ عید کی نماز ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ مختلف عالمی رہنماؤں نے افغانستان میں جاری جنگ کے ہمیشہ کیلئے خاتمے کیلئے اس بیانیہ کی تائید کی کہ افغانستان میں جاری خونریزی بند ہونے سے تمام افغان عوام مستفید ہوسکتے ہیں اور اگر افغان اکٹھے عبادت کر سکتے ہیں تو مل جل کر مذاکراتی عمل کے ذریعے اپنے اختلافات بھی سلجھا سکتے ہیں۔ رواں برس کی تاریخی عید نے ان تمام مبصرین اور تھنک ٹینکس کو بھی یکسر غلط ثابت کردیا ہے جنہیں افغانستان میں دور دور تک امن کے آثار نظر نہیں آتے تھے، افغان انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ افغانستان اپنی سلامتی کا انتظام خود سنبھال سکنے کی منزل سے ابھی بہت دور ہے اور افغانستان کی ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ افغان جنگ کے تمام فریقین اس سچائی کو مان گئے ہیں کہ امن و سکون سے زندگی بسر کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے اور جو بات پیار محبت سے منوائی جاسکتی ہے وہ نفرت، لڑائی جھگڑوں سے ممکن نہیں۔ طالبان جس طرح بے خوف و خطر شہری آبادی میں داخل ہوئے اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ جنگ بندی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دوطرفہ اعتماد سازی کیلئے سنجیدہ کاوشیں کی گئی ہیں۔ دونوں فریقین کی یقین دہانیوں کے باوجود جب مقامی افراد سیز فائر کے نتیجہ میں قائم ہونے والے امن کا جشن منا رہے تھے تو ایک افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا، افغان صوبہ ننگرہار میں ایک خودکش حملہ آور نے خود کوعید کی خوشیوں سے سرشار لوگوں کے درمیان ایک خوفناک دھماکے سے اڑا لیا جس کا شکار بلاتفریق عوام، سیکورٹی اہلکار اور طالبان بنے، حکومتی ترجمان کا کہنا ہے کہ دھماکہ اس وقت ہوا جب عید پر ہونے والی جنگ بندی کے دوران گورنر طالبان کے ایک گروہ سے ملاقات کر رہے تھے۔ اس سانحہ نے واضح کردیا ہے کہ افغانستان میں ہر حکومت مخالف جنگجوانہ کاروائی میں صرف طالبان ملوث نہیں بلکہ کوئی تیسری قوت بھی سرگرم ہے جو قیام امن کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے، مغربی میڈیا تو اس حملے کے پیچھے داعش کا ہاتھ بتا رہا ہے لیکن میری نظرمیں قیاس آرائیوں کی بجائے افغان حکومت اور طالبان کو مشترکہ طور پر ذمہ داران کا پتا لگانا چاہئے، ہوسکتا ہے کہ کچھ عالمی طاقتیں یا غیرریاستی عناصر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے افغانستان میں آگ اور خون کا کھیل جاری رکھنا چاہتے ہوں۔
افغانستان میں موجود تخریبی قوتیں مت بھولیں کہ افغانستان میں بسنے والے چاہے وہ عوام ہوں، سیکورٹی اہلکار ہوں یا طالبان جنگجو سب کے سب امن کے پیاسے ہیں اور ایک خوشحال پر امن معاشرے کا قیام انکا بنیادی حق ہے جہاں بندوق کا زور نہیں بلکہ جدید تعلیم کا دور دورہ ہو۔ آج افغانوں کو ایک ساتھ عید مناتے دیکھ کر پاکستانی بھی خوشی سے سرشار ہیں۔ ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیکر افغان سرحدی قبائلی علاقہ جات کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کیا لیکن افغان سرحد پر دہشت گردوں کی نقل و حرکت روکنے کیلئے باڑ لگانے والے پاکستانی جوانوں کو افغان سرزمین سے نشانہ بنانا نہایت قابلِ مذمت ہے، افغانستان کو سمجھنا چاہئے کہ امن کی پیاس مستقل بجھانے کیلئے پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ بارڈر مینجمنٹ کا مربوط نظام باہمی اشتراک سے مستحکم کیا جائے۔ کاش، وہ وقت جلد آئے جب افغان حکومت پاکستان کے ساتھ بھی سفارتی اور عسکری سمیت ہر محاذ پر جنگ بندی کا اعلان کرے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)