• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سات عشروں کی انتہائی پیچیدہ پاکستانی تاریخ کا تاریک ترین پہلو یہ رہا کہ بلاامتیاز ہمارے ہمہ قسم کے حاکم غالب حد تک خود غرضی، لالچ، نااہلی اور حماقتوں کے باعث ملک اور آنے والی نسلوں تک کے در پے رہے۔ پاکستان کی موجودہ تباہ کن اقتصادی صورتحال، بدترین سیاسی عدم استحکام،عوامی خدمات اور جمہوری سول اداروں کی تباہی اور جمود، انتظامیہ کا آئین و قانون کے برعکس کردار اور رویہ، ہمارے اب تک کے حکام کی مجموعی ذہنیت اور اس کےمطابق بدترحکمرانی کی زہریلی اور خاردار فصلیں ہیں۔ پیچیدگی کی صورت یہ رہی کہ ہمارے حکام میں نیک نیتی اور بدنیتی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اسی کانتیجہ تھاکہ پاکستان میں نیک نیتی کی بنیاد پر جب دیانتداری اور اہلیت کو جگہ ملی تو ادارہ سازی کا عمل بھی شروع ہوا اور منظم بہت سے ادارے، بلدیاتی نظام، پارلیمان، اسٹیل مل ، پی آئی اے، پی ٹی وی، ضلعی سطح پر درمیانہ معیار کے اسپتالوں کا نیٹ ورک، ہر سطح کے پبلک تعلیمی ادارے، فنی تربیت کے مراکز اورقومی و عوامی ضرورت کے کتنے ہی ادارے وجود میں آئے۔ شاید قومی ضروریات کے قریب قریب ادارہ سازی میں یہ کامیاب ہوتے جارہے تھے، اس کے نتیجے میں ہماری صنعت وزراعت، ٹرانسپورٹ اور ملکی و غیرملکی تجارتی سرگرمیوںکو متاثر کن تقویت بھی ملی۔ ہمارے کھلاڑی اور فن کار شہرہ ٔ آفاق ہوئے، لیکن اس کے متوازی سول حکام تو غیرمتوازن ہوتے ہوتے اپنے محدود اغراض کے اسیر ہوتے گئے اور ان پر بدنیتی کا غلبہ ہوتا گیا، اتنا کہ خلق خدا ان سے تنگ اور رسوا ہوتی لامحالہ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ عسکری ادارہ، سب سے طاقتور اور منظم ادارے کے طور پر آگے آتا اور ماورائے آئین و قانون اپنی جگہ اس وقت بنانے میںکامیاب ہوتا رہا جب پریشان اور مبتلائے تشویش لیکن نتائج سے بے خبر عوام اس کے اقتدا رمیں آمد پر شاد و مطمئن ہی ہوتے۔ آئوٹ آف دی وے اقتدار میں آ کر فوجی حکام اپنی جملہ خوبیوں اورخامیوں کے ساتھ ساتھ ملکی گھمبیر صورتحال کو سنبھالتے بہت کچھ بہتر کرتے کرتے اقتدارکو طول دینے میں کوشاں ہو کر ایسے اقدامات پر اپنے اقتدار سے نکلتے رہے کہ پیچھے بلبلوں پر قائم ترقی و استحکام نئی تباہی اور بدترحکمرانی میں تبدیل ہو جاتا۔ اسے سول حکام آ کر سنبھالتے، کچھ اپنی جانب سے بہتر کرتے اورپھر بدنیتی نیک نیتی پر غالب آتی تو جمہوری سول اور عوامی ہونے کے زعم میں وہ کچھ کرتے کہ فوج کو معاملات سنبھالنا پڑتے اورعوام اس کے منتظر ہوتے .... پاکستانی حکومت و سیاست کا یہ سرکل ثابت شدہ ہے۔
ایسا نہیں کہ پاکستان میں ترقی نہیں ہوئی، مسئلہ یہ بنا کہ کون سا طبقہ اس کا بینی فشری بنا اور کتنا جائز اور کتنا ناجائز۔ کون اس سےیکسر محروم رہا۔ محرومین کی تعداد گراس روٹ لیول کی ہے اور اس سے اوپر بھی ترقی و خوشحالی کی تقسیم حد درجہ ناانصافی، حکمرانوں اور انتظامیہ کی بے پناہ کرپشن، نااہلی اوربے رحمانہ حد تک کنبہ پروری جس میں اہلیت، میرٹ اور سب سے بڑھ کر اکانومی آف نالج کو مکمل دانستہ یاانتہائی مکارانہ کوششوں سے کونے لگا دیا گیا۔ ایساکبھی نہ ہوتا، ترقی متوازن بھی ہو جاتی اور جاریہ ِ(Sustainable) بھی اگرہمارے سول خصوصاً منتخب حکمران ’’آئین کو مکمل اختیار کرتے اور قانون کا تمام شہریوں پر یکساں اطلاق کرتے‘‘ اس عظیم، ہنگامی اور ناگزیر قومی ضرورت کی نشاندہی بار بار کرتے ہوئے، گزرے بدترین جمہوریت کے عشرے (2008-18) کے دوسرے نصف میں ’’آئین کا مکمل اور قانون کا یکساں نفاذ‘‘کابیانیہ ’’آئین نو‘‘ کے بیانیے کےطور پر اختیار کرکے ہائی فری کوئنسی پر تکرارکے ساتھ بیان اور واضح کیا گیا۔ کرے اس سے اختلاف اگر کوئی کرسکتا ہے۔
اب جبکہ ہماری تمام ہی سیاسی جماعتوں کی الگ الگ کیپسٹی اور مجموعی بھی آشکار ہو گئی ہے۔ کوئی دوسری راہ نہیں کہ قوم کی متفقہ متاع عزیز آئین پاکستان کے ایک ایک آرٹیکل کو اس کی روح کے مطابق اختیارکریں اور رائج الوقت قوانین کا تمام شہریوں پر یکساں نفاذ ممکن بنائیں۔ اس حساس ترین قومی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پاکستانی میڈیا اپنے پروفیشنلزم کی بعض کمیوں خامیوں کے باوجود ’’سپاٹ لائٹ جرنلزم‘‘ کے ذریعے جملہ برائیوں کی بے نقابی اور رائے سازی جیسی قوت کی تیاری میں قابل ستائش کردار ادا کررہا ہے اوپر کی عدلیہ بھی مطلوب کردار کے حوالے سے سرگرم ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ اکیلے کسی ادارے کا کام ہے نہ دو کا جبکہ فوج سلامتی و دفاع کے لئے تقاضوں کے مطابق اب جو پوزیشن لے چکی، اس میں اس کے لئے اقتدار کی طرف مائل ہونا ممکن ہی نہیں رہا۔
میڈیا اور عدلیہ دونوں اپنے جاری کردار سے اسٹیٹس کو توڑنے اور شدت سے مطلوب صورتحال کی تبدیلی اور سازگار حالات پیداکرنے میں بہت کچھ کر گزرے اور جاری سرگرمی کے باوجود اہم ترین اہداف حاصل کر نہ سکیں گے، یا برسوں لگیں گے جس کی اپنی پیچیدگیاں ہیں۔
پاکستانی نوجوانو! یقین کرو ہماری سیاسی جماعتیں ہمارے ادارے سنبھلتے اوربرباد ہوتے اب ملک کو نہیں سنبھال سکتے۔ آپ پریشان حال اور مایوس بھی لیکن امید کی آخری کرن نوجوانان پاکستان ہی ہیں۔ یہ سبق ہمیں مظفر وانی مقبوضہ کشمیر میں دے گیا۔ ایسے کہ اس کی شہادت اور ساتھی جو اب سب کے سب مظفروانی شہید کےساتھی ہیں، اپنی جاری تیس سالہ تحریک آزادی کو بھارت کے لئے بے قابو بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ مظفر تو حریت کانفرنس میںشامل ہر جماعت کے لیڈر کو اور مقبوضہ کشمیر کے ہر شہری کو پاکستانی پرچم تلے لاکر شہید ہو گیا۔ اسرائیل اور بھارت کی مشترکہ جارحیت بشمول پیلٹ گن کے دہشت گردانہ استعمال کے، تحریک آزادی کشمیر کو روکنے میںناکام ہوگئی۔ اب کشمیری نوجوانوں کی اجتماعی قیادت ہے اور پیچھے پیچھے گھروں ،جیلوں یا حوالاتوں میں قید بزرگ۔ ہمارا سبز ہلالی پرچم جو انہو ںنے خود ہی تیار کیاہے، ان کے یقین و امید کا لازمہ بن کر ان کا ساتھی ہے ۔ ہے تو بنیادی انسانی حقوق کی بھارتی ریاستی دہشت گردی سے پامالی کی تصدیق اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے کردی اور یہ مطالبہ بھی کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال مکمل تفصیلات سے دنیاپر واضح کرنےکے لئے وہاں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا جائے۔ اس پر بھارتی حکومت اورمیڈیا جتنا تلملایا ہے ہمارے مست سیاستدان اس سے بے خبر ہیں۔ سوائے عمران خان کے، جنہوں نے یورپی یونین، او آئی سی ، دولت ِ مشترکہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے کمیشن کے مطالبے کی تائید کرنے کی اپیل کی ہے۔ شاید اس لئے کہ پی ٹی آئی نوجوانوں کے غلبے سے پاپولر ہوتی جماعت ہے۔ ادھر سابقہ فاٹا میں نوجوانوں نےبزرگوں کو اعتماد میں لے کر جس طرح علاقے کے روایتی سیاستدانوں کی مخالفت و مزاحمت کے باوجود، پاکستان میں شامل قبائلی علاقوں کو مرکزی جمہوری و سیاسی و انتظامی دھارے میںشامل کیا ہے، وہ پاکستان کے سیاستدانوں ہی نہیں پوری قوم کے لئے ایک سبق عظیم ہے۔ کاش قوم آج کشمیری اور ان نوجوانوں کا مطلوب ساتھ دینے کی پوزیشن میں ہوتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین