• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عباس کیا رُستمی: تجرباتی فلمیں بنانے والا ہدایت کار

عباس کیا رُستمی: تجرباتی فلمیں بنانے والا ہدایت کار

ایرانی فلم ساز، عبّاس کیا رُسمتی، جو 2016ء میں فوت ہوئے، تجرباتی فلمیں بنانے والے ایرانی ہدایت کاروں میں سے ایک تھے۔ اس قسم کے دیگر ہدایت کاروں میں دار پوش مہر جوئی، محسن مخمل باف اور جعفر پناہی شامل ہیں۔ جب فارسی کی عظیم شاعرہ، فروغ فرّخ زاد نے 1963 ء میں ’’خانہ سیاہ است‘‘ یا ’’گھر سیاہ ہے‘‘ نامی فلم بنائی اور 1968ء میں دار پوش مہر جوئی نے ’’گائو‘‘ (GAV) یعنی ’’گائے‘‘ نامی فلم کی ہدایات دیں، تو اس کے نتیجے میں ایران میں فلم سازی کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوا، جسے بعد ازاں محسن مخمل باف اور عبّاس کیا رُسمتی جیسے ہدایت کاروں نے آگے بڑھایا۔

ایران سے قبل یورپ میں اس طرح کی فلم سازی کا آغاز ہو چُکا تھا، بالخصوص اٹلی اور فرانس میں کئی تجرباتی فلمیں بنائی گئیں، جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد کے یورپ کی شان دار عکّاسی کرتی تھیں۔ بہر کیف، ’’گائو‘‘ یا ’’گائے‘‘ نامی فلم میں شاہِ ایران کے دَور کی ایسی عکّاسی کی گئی ہے کہ جس میں معاشرہ اپنے ماضی کی یادوں سے چمٹا نظر آتا ہے۔ شاہ کے بعد خمینی کے دَور میں بھی اظہارِ رائے پر پابندیاں برقرار رکھی گئیں، جس کے نتیجے میں 1980ء کے عشرے سے فلم سازوں نے ایسے موضوعات اُٹھائے، جنہیں علامتی طور پر فلم بند کیا جا سکتا تھا۔ اسی دَور میں عبّاس کیا رُسمتی نے ’’کلوز اپ‘‘ نامی فلم بنائی، جو 1990 ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم سے کیا رُسمتی کو عالمی شُہرت حاصل ہوئی۔ یہ ڈاکیو فِکشن ( Docufiction) یا نیم دستاویزی فلم تھی۔ اس طرح کی فلمز میں ڈاکیو مینٹری اور فِکشن کو ملا دیا جاتا ہے۔ یہ ایک طرح کی بیاینہ فلم ہوتی ہے، جس میں حقیقت کو اس کے اصل رُوپ میں دِکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ’’کلوز اپ‘‘ میں کیا رُسمتی نے اُن ہی افراد کو استعمال کیا، جو اس کہانی کے اصل کردار تھے۔

اس فلم کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 1989ء میں کیا رُسمتی نے ایک خبر پڑھی، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح ایک بہروپیے نے مشہور ایرانی ہدایت کار، محسن مخمل باف کا رُوپ دھار کر ایک خاندان کو بے وقوف بنایا۔ اس خاندان کے ایک فرد کو جھانسے میں لے کر بہروپیے نے انہیں یقین دلایا کہ وہ محسن مخمل باف ہے اور اپنی ایک فلم میں پورے خاندان کو مختلف کردار دے گا۔ ابتدا میں تو خاندان جھانسے میں آ گیا، مگر کچھ دِن بعد شک پڑنے پر اس نے پولیس کو اطلاع دے دی، جس نے بہروپیے کو گرفتار کر لیا۔یہ خبر پڑھنے کے بعد کیا رُسمتی نے عدالت سے درخواست کی کہ اُسے اس واقعے پر مبنی فلم بنانے کی اجازت دی جائے۔ بعد ازاں، مذکورہ خاندان بھی اس پر آمادہ ہو گیا اور پھر بہروپیے کے ساتھ مل کر حقیقی واقعات اور مقدّمے پر مشتمل فلم بنائی گئی، جو خاصی کام یاب رہی۔ گرچہ حقیقی واقعات پر مبنی فلمز اس سے پہلے بھی بنتی رہیں، لیکن اس فلم میں شاید پہلی مرتبہ پیشہ وَر اداکاروں کی بہ جائے اصل کرداروں کو کاسٹ کیا گیا اور اسی لیے یہ اپنی نوعیت کی پہلی فلم ثابت ہوئی۔ یہ کوئی عام سی دستاویزی فلم نہیں تھی کہ جس میں حالات و واقعات کو پیش کیا گیا ہو، بلکہ اس فلم میں کیا رُسمتی نے کمال کی ہدایت کاری کا مظاہرہ کیا اور سچ اور جُھوٹ کے تعلق کو اس طرح پیش کیا کہ ناظرین رُوپ اور بہروپ میں گُم ہوکے رہ گئے۔ اس فلم کوفلیش بیک میں تیار کیا گیا اور ایسے کہ حقیقت اور اداکاری میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ اسی لیے اسے استنبول اور مانٹریال کے کئی فلمی میلوں میں انعامات بھی ملے۔

کیا رُسمتی کی اگلی تجرباتی فلم کا نام فارسی میں ’’مطعم گیلاس‘‘ اور انگریزی میں’’ TASTE OF CHERRY‘‘ یا ’’چیری کا ذائقہ‘‘ تھا، جو 1997ء میں بنائی گئی۔ اس فلم میں ایک ادھیڑ عُمر آدمی کا کردار ہمایوں ارشادی نے ادا کیا، جو تہران کے مضافات میں کار چلاتے ہوئے کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہے، جو اپس کی اپنے ہاتھوں سے کھودی ہوئی قبر میں اُسے دفنانے کی ہامی بھرے۔ وہ اپنی کار میں مختلف لوگوں کو لفٹ دیتا ہے، جن میں سے کوئی کُرد ہے، تو کوئی افغان اور کوئی آذر بائیجان کا مہاجر۔ یہ سب لوگ اسے اپنی اپنی کہانیاں سُناتے ہیں ، افغانستان اور کُردستان میں ہونے والی لڑائیوں کے قصّے بیان کرتے ہیں۔ کُرد اور افغان تو ڈرائیور کو اس کی قبر میں دفنانے سے انکار کر دیتے ہیں، جب کہ آذر بائیجانی شخص ہامی بھر لیتا ہے۔ اس فلم کی تیاری کے لیے گاڑی کے ڈیش بورڈ پر نصب کیمرا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ فلم ایرانی معاشرے کی بہترین عکّاسی کرتی ہے، جہاں سماج یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ کسے دفنانا ہے اور کِسےنہیں۔ گو کہ کیا رُسمتی نے فلم میں خود کبھی یہ نہیں بتایا کہ دراصل خود کُشی پر آمادہ وہ شخص ،ایرانی ریاست کی علامت ہے، جو افغانستان اور آذر بائی جان کی مصیبتوں کی آئینہ دار ہے۔

کیا رُسمتی کی اگلی تجرباتی فلم’’THE WIND WILL CARRY US‘‘ تھی،جو 1999ء میں بنائی گئی۔ اس فلم کا مرکز کُردستان کا ایک پہاڑی گائوں تھا، جہاں کے لوگ ایک سو سالہ بڑھیا کی موت کے منتظر اور ماتم کے لیے تیارتھے۔ اس بڑھیا کی موت اور اس کے بعد کے واقعات کی عکس بندی کے لیے فلم کا عملہ بھی وہاں چلا جاتا ہے، مگر بڑھیا خاصی سخت جان ثابت ہوتی ہے اور مرنے کا نام نہیں لیتی۔ گائوں کے تمام لوگ اور فلم کا عملہ سخت بے چین رہتا ہے۔ ایسے میں بار بار خبر آتی ہے کہ بڑھیا کی حالت نازک ہے۔ فلم کے عملے کا سربراہ اپنے موبائل فون پر شہر سے رابطے میں ہے، مگر سگنل کم زور ہونے کے باعث بار بار رابطہ ٹوٹ رہا ہے۔ یہ فلم بھی فلسفیانہ نوعیت کی ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ فرسودہ روایات اور معاشرہ دَم توڑنے کا نام نہیں لے رہا ، جب کہ نئی تہذیب کے سگنل بھی پہنچ نہیں پا رہے۔ ایسے میں موت کی سڑاند محسوس کی جا سکتی ہے۔ گھر سے خبر لانے والا بچّہ نئی نسل کی نمایندگی کر رہا ہے، جو باہر کی دُنیا سے آنے والے عملے سے رابطے میں ہے۔ اس فلم کو اگر ایران کے آج کے حالات سے جوڑ کر دیکھا جائے، تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح ایران اور مغربی طاقتیں آپس میں رابطے میں بھی ہیں اور نہیں بھی۔ اس فلم کو بھی بین الاقوامی پزیرائی حاصل ہوئی۔

کیا رُسمتی کی دیگر قابلِ ذکر فلمز میں شامل 2001ء کی فلم،’’ABC AFRICA‘‘ یوگنڈا کے یتیموں کے بارے میں ہے۔ 2002ء میں بننے والی فلم، ’’TEN‘‘ یا ’’دس‘‘ بھی ایک تجرباتی فلم ہے۔ یہ پوری فلم ایک کار میں بنائی گئی ہے، جس میں ایک خاتون ڈرائیور 10مختلف کرداروں سے دورانِ سفر گفت گو کرتی ہے اور ہر مسافر اپنی کہانی سنانے میں گُم ہو جاتا ہے۔ اس فلم میں 10خواتین اپنے اپنے مسائل بیان کرتی ہیں، جن میں سے ایک نئی دُلہن ہے، جسے دولہا چھوڑ گیا ہے۔ ایک طوائف ہے اور ایک ایسا خواتین کا جوڑا ہے، جو عبادت کے لیے روانہ ہوتا ہے۔

ان کے علاوہ 2008ء میں بننے والی فلم، ’’شیرین‘‘ میں ایران اور دُنیا کی 100مختلف اداکارائوں نے حصّہ لیا، جو ایک تھیٹر میں بارہویں صدی کی مشہور داستان، ’’خسرو و شیریں‘‘ دیکھ رہی ہیں۔ یہ تمام اداکارائیں کچھ بولتی نہیں، بلکہ صرف اپنے چہرے کے تاثرات سے داستان کے جملوں پر ردِعمل کا اظہار کرتی ہیں۔ پوری فلم میں داستان کے مکالمے سنائی دیتے ہیں، جب کہ کیمرے پر صرف ناظر خواتین کے چہرے نظر آتے ہیں۔ چہروں کے تاثرات میں مسکراہٹ بھی شامل ہے اور رونا بھی، خوشی بھی ہے اور افسردگی بھی اور اسی طرح فلم ختم ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے، آپ کیا رُسمتی کو فلسفی یا تجرباتی فلم ساز قرار دیں، مگر حقیقت میں وہ ایک بڑے ہدایت کار تھے، جنہوں نے نئےتصوّرات،خیالات کو حقیقت کا رُوپ دیا۔ انوکھے تجربات کیے اورجبر کے ماحو ل میں ناظرین کو سوچنے پر مجبور کیا۔

تازہ ترین