• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی کے حالات سے آپ ہم سب ہی واقف ہیں۔ اس شہر قائد کو مقتل کا درجہ حاصل ہوگیا ہے، روزپندرہ بیس بیگناہ افراد مع مذہبی علماء شہید کئے جارہے ہیں اور حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ نہ ہی کوئی وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے، جو وزیر داخلہ بھی ہیں، اور نہ ہی محترم رحمن ملک سے اس کا سدباب کرنے یا ان کے استعفوں کا مطالبہ کررہا ہے۔ خود وزیراعلیٰ کی صاحبزادی (جو صوبائی اسمبلی کی ممبر بھی ہیں ) کے جلسے پراندرون سندھ فائرنگ سے کئی لوگ ہلاک ہوگئے اور کوئی نہ پکڑا گیا۔ کراچی میں خود صوبائی اسمبلی کی ایک خاتون ممبر پر قاتلانہ حملہ کیا گیا مگر خوش قسمتی سے صرف ان کی ٹانگ پر گولی لگی اور وہ بچ گئیں۔
آپ کو علم ہے کہ میرا تعلق بھی کراچی سے ہے۔ بھوپال سے ہجرت کرکے ہم کراچی آگئے تھے جہاں ہمیں کھلے ہاتھوں خوش آمدید کہا گیا تھا اور کبھی کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔ وہیں تعلیم حاصل کی، رزق حلال کھایا اور باہر جا کر تعلیم حاصل کی اور جب ملک کو اپنے وجود کا خطرہ پیش آیا تو فوراً سب کچھ خیرباد کیا اور اپنی خدمات بھٹو صاحب کو پیش کردیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو جنت نصیب کرے ان کے ایٹمی پروگرام کی ابتدا اور سرپرستی نے اس ملک کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بیرونی جارحیت سے محفوظ کردیا۔ ہاں اندرونی طور پر ہم اب خود ہی اس کو توڑنے اور تباہ کرنے میں مصروف ہیں اور کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ کراچی سے تعلق کی وجہ سے میرا دل کراچی میں رہتا ہے۔ میری والدہ، تین بھائی، ایک بھابھی، ایک بھانجی، بھائی کا ایک پوتا وہیں دفن ہیں۔ اس وقت وہاں میری دو پیاری بہنیں، ایک بھائی اور ان کے اہل خانہ سکونت پذیر ہیں اور اسی وجہ سے میں باقاعدگی سے وہاں جاتا ہوں اور اپنے عزیزوں اور نہایت پیارے مخلص دوستوں سے بھی ملاقاتیں کرتا ہوں۔ وہاں تین یونیورسٹیوں کے بورڈ آف گورنرز کا ممبر بھی ہوں اور اس طرح جانے کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔
19/اکتوبر کو ایک خاص تقریب میں شرکت کی دعوت پر کراچی گیا۔ ڈیفنس میں ایک نہایت عزیز دوست، بڑے بھائی کے بھی عزیز دوست اور پڑوسی اور کراچی میں ادبی اور سوشل سرگرمیوں کے روح رواں جناب ظفر اقبال نے ’بزم کرن‘ کے تحت جس کے وہ پریذیڈنٹ ہیں ایک محفل مباحثہ منعقد کی۔ بزم کرن ایک سوسائٹی ہے جو معاشرے میں آوارگی اور بیہودگی کے ادراک کے لئے کام کررہی ہے۔ اس محفل کا عنوان تھا کہ کس طرح آوارگی کوکنٹرول کیا جائے اور اس کا انتظام ڈیفنس سینٹرل لائبریریمیں کیا گیا تھا۔ میرے نہایت ہی عزیز محترم، مخیّردوست ایس ایم منیر (منیر بھائی) نے اس مجلس کی صدارت کی اور میں مہمان خصوصی تھا۔ آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا تھا اور باہر لان پر بھی سیکڑوں خواتین و حضرات موجود تھے۔مقررین میں جناب زاہد ملک چیف ایڈیٹر پاکستان ٹائمز، سینیٹر عبدالحسیب خان (حسیب بھائی) ،مشہور مذہبی اسکالر اور عزیز دوست انیق احمد، مذہبی عالم مولانا محمد یوسف حسین جو مسجد بلال ڈی ایچ اے کے امام ہیں اور عزیز دوست اور مقتدر تاجر و صنعت کار جناب مہتاب الدین چاؤلہ قابل ذکرہیں اور اگر پروگرام کی رہنمائی کرنے والے جناب خالد العزیز کا تذکرہ نہ کروں تو بڑی ناانصافی ہوگی۔ انہوں نے نہایت خوبصورت طریقے سے یہ پروگرام چلایا۔ تقاریر کے بعد بزم کرن کے نائب صدر جناب ارشد انیس نے شکریہ ادا کرنے کا فرض ادا کیا۔ برادرم کرنل اطہر علی خان بزم کرن کے جنرل سیکرٹری ہیں انہوں نے نہایت جامع الفاظ میں بزم کرن کی قابل تحسین سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔
یہ مباحثہ نہایت اہم ثابت ہوا۔ مقررین نے معاشرے میں اس وقت بڑھتی ہوئی آوارہ گردی، بے حیائی، لاقانونیت وغیرہ کی جانب توجہ مبذول کرائی اور سخت پریشانی و فکر کا اظہار کیا۔ چند باتیں جو زیادہ توجہ کا باعث بنیں ان کا تذکرہ یہاں کرنا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ موجودہ دور میں یہی ٹی وی، اخبارات کی سرخیاں بنی رہتی ہیں۔
تمام مقررین نے ذرائع ابلاغ کی کارکردگی کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کی خبروں کو ہر دوسری خبر پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر کہیں ایک دھماکہ ہوجائے تو پھر گھنٹوں ہر ٹی وی اسٹیشن پر بریکنگ نیوز بن جاتا ہے۔ فلاں روڈ پر دھماکہ ہوا، دو افراد زخمی ہو گئے اور اب یہ آٹو ریورس بن جاتا ہے۔ پچھلے دنوں سیف اور کرینہ کی شادی کیا ہوگئی کہ پاکستانی میڈیا ان کی اشتہار بازی میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے لگے۔ اب یش چوپڑا کا انتقال ہوا تو ہمارے اخبارات کے صفحہ اوّل پر یہ خبر لگائی گئی۔ ملالہ پر نہایت قابل مذمت حملہ کیا گیا (اسلام کسی عورت، بچوں پر حملہ کی اجازت نہیں دیتا) تو پورے پاکستان میں ٹی وی اسٹیشن اس بارے میں خبریں لگانے میں بازی جیتنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ اُسی وقت ڈرون حملہ میں18 شہری مارے گئے تو ایک لائن کی خبر آئی اور غائب ہوگئی۔ کراچی میں درجنوں بے گناہ افراد قتل کئے جارہے ہیں اور چھوٹی خبر بن کر غائب ہوجاتے ہیں۔ جب میں نے یہ بات ایک دوست ٹی وی کے اینکر پرسن سے کی تو انہوں نے بتایا کہ مالکان یہ پالیسیاں طے کرتے ہیں اور ڈائریکٹروں کو ہدایت دے دیتے ہیں اور ان پر عمل درآمد شروع ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک عام روایت یہ بن گئی ہے کہ دہشت گردی، ظلم وغیرہ کے واقعات کو مسلسل دکھایا جاتا ہے اور جو کہانیاں یا فلمیں واقعات کو دہرانے کے لئے پیش کی جاتی ہیں وہ پہلے لمحہ سے ہی ظلم و زیادتی سے شروع ہوتی ہے۔ پولیس کے مقدمات، ایف آئی آر وغیرہ پروگرام کبھی ”انسپکٹر کولمبو“ یا پولیس کمشنر راک ہڈسن کی طرز کے یا کوجک کی طرز کے دلچسپ وغیرتشدد کی طرح نہیں دکھائے جاتے۔ یہ وہ فلمیں تھیں جو آپ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھتے تھے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہاں فلم شروع ہوتے ہی کسی کا گلا گھونٹتے یا کاٹتے دکھاتے ہیں، تیزاب پھینکا جاتا ہے، قتل و غارتگری کی جاتی ہے۔ ایک ٹی وی اسٹیشن پر ہر گھنٹے خبر یا خاص پروگرام سے پہلے دو مرغوں کو لڑتے دکھاتے ہیں اور ان کے پر ہوا میں اُڑتے ہیں۔ اس ادارہ کے سرکردہ میرے اچھے بھلے دوست ہیں اور ذی فہم ہیں ۔ میں نے بذات خود ان کو فون کرکے درخواست کی کہ خدا کے واسطے یہ شدت انگیز، جارحانہ نظارے نہ دکھائیں، آپ اس کی جگہ بلی کو اپنے بچے کو چاٹتے، یا چڑیا کو بچے کو دانہ کھلاتے دکھا دیا کریں مگر وہ منظر آج بھی جوں کا توں جاری ہے۔ ہماری نفسیات میں ہمارے دماغوں پر شدت پسندی، تشدد مسلط کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ کتوں کی لڑائیاں،نقل مکانی کرنے والے پرندوں کا شکار اور لاشیں ایک عام کلچر کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ لوگ ان کو دیکھ کر نہ ہی برا مانتے ہیں اور نہ ہی اس پر اعتراض کرتے ہیں۔
کراچی کے بزم کرن کے فنکشن میں کراچی والوں نے حسب معمول گرمجوشی اور محبت کا اظہار کیا اور غیر متوقع طور پر مجھے ایک خوبصورت اصلی سونے کا میڈل پیش کیا۔ یہ جناب سردار یٰسین ملک کی جانب سے تھا۔ جناب ظفر اقبال نے کہا کہ میری ملکی خدمات کے اعتراف میں یہ چھوٹا سا تحفہ ہے۔ یہ 66 واں گولڈ میڈل ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر سے سر جھکاتا ہوں۔ فنکشن میں عزیز دوست اور محبوب ِوطن جناب شیخ انعام الٰہی بھی موجود تھے۔ یہ بڑے صنعت کار ہیں اور ملک کو کروڑوں روپیہ کا زرمبادلہ دیتے ہیں۔ وہاں نہایت عزیز دوست فخر کراچی و پاکستان ڈاکٹر عبدالوہاب بھی موجود تھے ان کی IBA کی مناسبت سے شہرت سے کون واقف نہیں اور نہایت خوشگوار ملاقات بریگیڈیئر غزالی سے ہوئی، اب خوبصورت داڑھی رکھ لی ہے اور روشن چہرہ ہے۔ 28 مئی 1998 کو جب علی الصبح اسلام آباد اےئر پورٹ سے ڈاکٹر اشفاق احمد اور میں ایک خصوصی جہاز سے دالبندین روانہ ہوئے تو بریگیڈیئر صاحب جو اس وقت کرنل کے عہدہ پرفائز تھے ہمیں لے کر گئے تھے۔ انہوں نے موقع کی اہمیت کو جان کر ہم دونوں سے آٹوگراف لے لئے تھے، آج وہ یقینا قیمتی سرمایہ ہے۔ بریگیڈیئر صاحب DHA کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور اب وہیں قیام پذیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام دوستوں کو تندرست و خوش و خرم رکھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجلس کے اختتام پر منیر بھائی نے بصیرت انگیز باتوں کے علاوہ چند نہایت دلچسپ مزاح انگیز لطیفے سنا کر محفل لوٹ لی۔ اللہ انہیں تندرست ، خوش و خرم رکھے، حفظ و امان میں رکھے اور عمر دراز کرے،آمین۔ ذرائع ابلاغ سے مودبانہ درخواست ہے کہ خدا کیلئے تشدد، دہشت گردی کے واقعات کو ہمارے اعصاب پر سوار نہ کیجئے۔ پوری قوم نفسیات کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ ثقافتی، تعلیمی، روحانی واقعات پر بھی پروگرام کیجئے اور ہماری سنہری تاریخ کے واقعات بھی مختصراً بیان کردیا کیجئے، شکریہ۔
تازہ ترین