• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

24 جولائی کو ترکی میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں صدر رجب طیّب ایردوان کی شاندار فتح نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے- سولہ سال سے مستقل اقتدار میں رہنے والے ایردوان کی یہ لگاتار دسویں جیت تھی جو کہ ایک ریکارڈ ہے- عالمی مغربی طاقتوں کی بے انتہا مخالفت اور مسلسل تضحیک کے باوجود ایردوان سے ترک عوام کی والہانہ محبت کیوجہ سے آپ نے لگ بھگ پونے تین کروڑ ووٹ حاصل کئے جو کہ کل ڈالے گئے ووٹوں کا 53فیصد حصّہ ہے- آپ نے اپنے قریب ترین حریف محرّم اینجے جنہیں مغربی میڈیا کئی ہفتوں سے ایردوان کا متبادل بناکر پیش کرنیکی کوشش کر رہاتھا کو سوا کروڑ ووٹوں سے شکست دی جس سے انکے دشمنوں میں صف ماتم بچھ گئی- امریکی میگزین دی اٹلانٹک نے تو کھلے عام اس تاسف کا اظہار کیا کہ ایردوان کو کامیاب کرکے ’’ترکوں نے اپنی آزادی کو بیچ ڈالا-‘‘ صدارتی انتخاب سے پہلے اینجے ایک غیر معروف شخصیت تھے مگر انتخابات کے دوران انہیں غیر معمولی پذیرائی ملی اور ترک عوام کے ایک قابل ذکر حصّے کی سپورٹ حاصل ہوئی- اسکے باوجود انکو صدر ایردوان کے مقابلے میں کھڑا کرنا یا زبردستی ترک صدر کی سطح کا لیڈر منوانے کی کوششیں کافی مضحکہ خیز ثابت ہوئیں-
اگر مغربی میڈیا کے تجزیوں پر انحصار کیا جاتا تو ایردوان کافی مشکل حالات میں تھے کیونکہ انکی رپورٹوں کے بقول لوگوں میں انکی ساکھ بہت حد تک گر گئی تھی اور یہ کہ انکے حمایتیوں کی تعداد میں بتدریج کمی واقع ہوئی تھی- اس قسم کے پروپیگنڈے میں امریکی ٹیلیویژن چینلز اور اخبارات سے لے کر یورپ کے لگ بھگ سب ہی رسائل اور جرائد منظم طور پر شامل رہے- برطانوی سرکاری میڈیا بی بی سی سے لیکر سی این این، جرمن سرکاری میڈیا ڈوئچے ویلے اور عالمی سطح کے ہفتہ وار دی اکنامسٹ سب ہی نے ایردوان مخالف پروپیگنڈے میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا- ترک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق مغربی ذرائع ابلاغ کے بڑے حصّے بشمول بی بی سی نے جھوٹی خبریں پھیلائیں تاکہ ترک ووٹروں کی ذہن سازی کرکے انتخابات میں ایردوان مخالف نتائج حاصل کئے جاسکیں- کئی مہینوں تک بڑی پلاننگ کے ساتھ مغربی این جی اوز اور تھنک ٹینک سے تنخواہیں لینے والے ’’مبصرین‘‘ اور ’’تجزیہ کاروں‘‘ کی جانب سے ایردوان مخالف بیانیہ تشکیل دینے کی بڑی کوششیں کی گئیں- اسکے علاوہ ترک عوام کی ایردوان کیساتھ فرضی ناراضی اور بڑھتی ہوئی نفرت کے قصے بار بار بیان کرتے ہوئے انکی تنزلی کی پشیں گوئیاں کی گئیں-
ڈیڑھ دہائی قبل جب ایردوان نے زمام حکومت سنبھالی تو اسوقت کا ترکی بے پناہ مسائل کا شکار تھا- ملک میں سب سے بڑا مسئلہ سیاسی خلفشار کا تھا- کسی بھی سیاسی جماعت کو واضح اکثریت نہ ملنے کے سبب ملک میں بننے والی حکومتیں کئی جماعتوں کے اتحاد سے وجود میں آتی تھیں- مگر یہ گٹھ جوڑ کبھی بھی دیر پا ثابت نہیں ہو سکے اور یوں ملک میں ہمہ وقت ایک انتشار کی کیفیت برپا تھی جس سے ملکی اور سماجی مسائل کا ایک انبار کھڑا ہوگیا تھا- اسکے علاوہ معیشت تنزلی کا شکار تھی اور نظام حکومت اسقدر بوسیدہ ہوچکا تھا کہ اگست 1999 میں ملک میں آنے والے خطرناک زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے حکومت کے پاس نہ تو معاشی وسائل تھے اور نہ ہی افرادی قوت- اس زلزلے میں بیس ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور چالیس ہزار سے زائد زخمی ہوگئے- ڈیڑھ لاکھ کے قریب عمارتیں بشمول رہائشی مکانات تباہ ہوگئے جس سے تین لاکھ سے زائد افراد بےگھر ہوگئے- حکومت کی ناقص کارکردگی نے ترک عوام کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا- یہی وجہ ہے کہ جب ایردوان نے 2001 میں فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (آق پارٹی) کی بنیاد ڈالی تو عوام نے انہیں انکی حسن کارکردگی کی بنیاد پر سراہا اور 2002 کے وزارت عظمیٰ کے الیکشن میں شاندار کامیابی سے ہمکنار کرادیا- آق پارٹی کی حکومت نے معیشت کی بحالی اور جمہوریت کی مضبوطی کیساتھ ساتھ عوامی سطح پر حکومت اور اس سے وابستہ اداروں کا اعتماد بحال کروایا جس میں وقت گزرنے کے ساتھ مزید بہتری پیدا ہوئی- وزارت عظمیٰ کے لئے انتخابات لڑنے سے پہلے ایردوان 1994 سے 1998 تک استنبول کے میئر رہ چکے تھے جس دوران آپ نے اس تاریخی شہر کی کایا پلٹ دی- کسی بھی جدید شہر کی طرح یہاں بھی مسائل کے انبار تھے جن میں پانی سے لے کر ٹریفک اور کوڑاکرکٹ سے لے کر فضائی آلودگی بھی شامل تھی- ایردوان نے پانی کی کمی دور کرنے کیلئے سینکڑوں کلومیٹر کے نئی پائپوں کا جال بچھادیا- فضلے کے بڑھتے مسائل کیلئے جدید ری سائیکلنگ کارخانے لگوائے اور فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے قدرتی گیس پر چلنے والی گاڑیوں کو متعارف کرایا- اس کے علاوہ روز افزوں ٹریفک جام سے نمٹنے کیلئے پچاس سے زائد پل اور نئی سڑکیں تعمیر کیں- کاروبار کو فروغ دینے کیلئے بھی بہت کام کئے گئے جس سے شہر کی خوشحالی میں گراں قدر اضافہ ہوا- اس دوران ایردوان نے کرپشن کے خاتمے کی جانب کافی پیش رفت کی اور نہ صرف استنبول میٹروپولیٹن میونسپلٹی کے دو بلین ڈالر کے قرضے کو نصف سے بھی کم کردیا بلکہ شہر میں مزید چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کروادی- اسی شاندار کارکردگی کی وجہ سے آپ کو پورے ملک میں پذیرائی حاصل ہوئی اور لگاتار انتخابات میں کامیابی ملتی رہی جو ہنوز جاری ہے-
نائن الیون کے حملوں کے فورا بعد مغربی طاقتوں کیجانب سے ترکی اور وزیراعظم ایردوان کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی- ترکی کے ماڈل کو عالم اسلام میں جمہوریت کے فروغ کیلئے آئیڈیل گردان کر اسے کافی پروموٹ کیا گیا اور ایردوان کو عظیم جمہوری رہنما اور اسلامی دنیا کے نمائندے کے طور پر شناخت کیا جانے لگا- اس دوران پورے یورپ میں بھی ترکی کے حق میں حالات سازگار ہوئے اور اسکی یوروپی یونین میں شمولیت کے مذاکراتی عمل میں کافی تیزی آنے لگی- مگر حالات نے 2009کے اوائل سے اسوقت پلٹا کھایا جب جنوری میں ڈیووس میں منعقد ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کی ایک تقریب کے دوران اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز اور ایردوان کے درمیان ایک سخت مکالمہ ہوا- ایردوان غزہ میں اسرائیلی قتل عام پر سخت نالاں تھے اور آپ نے ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے تقریب سے واک آوٹ کیا جس سے اسرائیل کی سخت سبکی ہوئی- اس واقعے کے بعد سے مغربی میڈیا ایردوان کے پیچھے پڑنا شروع ہوگیا- جوں جوں فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کے جبر و تشدد میں اضافہ ہوا اور عربوں نے فلسطین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تو ترکی انکا وکیل بن گیا- 2010کا غزہ فلوٹیلا اسی کی ایک کڑی تھی جس میں ترکی کے کئی جہازوں نے حصّہ لیا- بعد میں جب اسرائیلی فوج نے اس پر حملہ کرکے کئی ترکوں کو قتل کیا تو ایردوان نے مغربی دباؤ کو خاطر میں نہ لاکر اسرائیل سے تعلقات کو منجمد کردیا اور تب تک پیچھے نہیں ہٹے جب تک کہ صہیونی حکومت نے مقتولین کو خاطرخواہ معاوضہ ادا نہیں کیا- ابھی حال ہی میں جب اسرائیل نے غزہ میں پھر سینکڑوں نہتے فلسطینیوں کو قتل کیا تو مسلمان رہنماؤں میں صرف ایردوان نے کھل کر اور سخت احتجاج کیا- یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا نے انہیں ڈکٹیٹر اور اسلامی شدت پسند کے القاب سے نوازنا شروع کیا حالانکہ ایردوان نقشبندی سلسلے کے اسکندر پاشا صوفی طریقہ سے وابستہ ہیں-
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین