• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محسنِ اُردو زبان و ادب، محمد عمر میمن

محمد حمید شاہد

  مجھے یاد ہے ، وہ ادبی جریدے ’’آج‘‘ کراچی کا دوسرا شمارہ تھا، جو چیک ادیب میلان کنڈیرا کی تحریروں کے انتخاب پر مشتمل تھا۔ اس میں ناول ’’خندہ اور فراموشی کی کتاب‘‘( The book of laughter and forgetting )کے ایک حصے کا ترجمہ ڈاکٹرآصف فرخی کا تھا، جبکہ محمد عمر میمن کا جو ترجمہ اس پرچے کا حصہ بنا، وہ اسی ناول کے چوتھے حصے سے تھا اور ’’گم شدہ خطوط‘‘ کا عنوان لیے ہوئے۔ میمن صاحب کے دو مزید تراجم اس شمارے کا حصہ بنے ، جن میں سے ایک میلان کنڈیرا کے ناول ’’وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘( The unbearable lightness of being)کے چھٹے حصے سے’’ گرانڈ مارچ‘‘ تھا اور ایک انٹرویو بھی، جو میلان کنڈیرا سے فلپ راتھ نے کیا تھا۔ محمد عمر میمن کا نام یہیں سے میرے ذہن میں چپک گیا تھا، جہاں کہیں اُن کا نام دیکھتا، اُن کے کام کو توجہ سے پڑھتا ۔ پھر ہم بے تکلف دوستوں کی طرح ایک دوسرے کے قریب ہوتے چلے گئے ۔ جب وہ ماریو برگس یوسا کی کتاب ’’Letters to a Young Novelist‘‘کا اردو میں ترجمہ کر رہے تھے تو ہمارے درمیان ای میل کا تبادلہ ہونے لگا۔ فکشن ہم دونوں کا محبوب مشغلہ تھا، لہٰذا اس مکالمے نے ایک بے تکلفی کو راہ دی اور ہم ایک دوسرے سے اتفاق یا اختلاف کرتے اپنا اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے گئے ۔ یوسا کے خطوط والی کتاب اوراس کے ترجمے کے طفیل ہمیں اس موضوع پر ایک اور کتاب مل گئی ؛’’کہانی اور یوسا سے معاملہ‘‘ ۔ یہ ہمارا مکالمہ تھا، جسے محمد عمر میمن نے مرتب کیا، جب وہ اسلام آباد آئے تو ہماری ملاقاتیں تواترکے ساتھ ہونے لگیں ۔ باتیں شروع کرتے تو ختم ہونے میں ہی نہ آتیں۔

ایک باراُنہوں نے بتایا کہ اُن کی ماں ڈھنگ سے اُردو نہیں بول سکتی تھیں،کیوں کہ گجراتی اُن کی مادری زبان تھی۔ یہ تو اُردو سے بے پناہ محبت تھی کہ وہ اس زبان و ادب کے زندگی بھر اسیر رہے۔ اُردو میں افسانے لکھے ، اس زبان کے ادب اور بہ طور خاص فکشن کو انگریزی میں منتقل کرکے مغرب میں متعارف کرایا، دوسری زبانوں کے بہترین ادب کو اُردو میں منتقل کرکے اِس زبان کا دامن مالا مال کیا۔محمد عمر میمن کی ترجیحات میں مسلسل مطالعہ نمایاں مقام پاتا رہاہے۔ ایک بار اُنہوں نے کہا تھا’’اگر مجھے زندگی میں صرف ایک کام کرنے کی اجازت ہو اور باقی کچھ بھی کرنے سے روک دیا جائے تو میں کتابیں اُٹھا کر پڑھنے میں جُت جائوں گا‘‘ ۔ پڑھنے کا یہ جنوں ، اُنہیں اپنے والد علامہ عبدالعزیز میمن سے عطا ہوا تھا، اپنے بچپن کو یاد کرکے اُنہوں نے بتایا تھا کہ ایک سہ پہر وہ گھر سے نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ والد صاحب ایک نیم کے پیڑ تلے ، ایک کتاب پر نظریں جمائے، ارد گرد سے بے نیاز بیٹھے تھے۔ میں متجسس ہوا کہ نہ جانے اس کتاب میں کیاہے، جس میں وہ مگن ہیں ۔ دبے پائوں اُن کے قریب ہو تا چلا گیا ۔ والد صاحب کی نظریں کتاب پر جمی رہیں، مگر میرا دھیان کتاب سے ہٹ کر اُن کے بازو کی طرف ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک سیاہ بڑی چیونٹی اُن کے بازو بری طرح چمٹی بڑے مزے سے اُن کا لہو پی رہی ہے ۔ میں نے وہاں اُبلتے خون کا قطرہ، ایک سرخ موتی کی طرح چمکتے دیکھا ،مگر والد صاحب ، اس سے بے پروا کتاب پڑھنے میں مگن تھے ۔ لگ بھگ پڑھنے کا ایسا ہی جنوں، محمد عمر میمن کو بھی تھا، جس نے اُنہیں لوگوں سے الگ کرکے کچھ زود رنج سا بنا دیا تھا ۔

رضا علی عابدی نے اپنے ایک کالم میں محمد عمر میمن کو بڑے باپ کا بڑا بیٹا لکھا ہے ۔ عربی کے جید عالم عبدالعزیز میمن مارچ 1951ءمیں شعبۂ عربی،مسلم یونیورسٹی علیگڑھ سے طویل خدمات سر انجام دینے کے بعد اکتوبر 1956ء میں کراچی آگئےتھے اور حکومتِ پاکستان نے اُنہیں ادارۂ تحقیقات اسلامی میں ڈائریکٹر بنا دیاتھا۔ جب کراچی یونیورسٹی میں عربی کا شعبہ قائم ہوا تو اس شعبے کے صدر بنا دیئے گئے ، جہاں وہ 1959ء تک خدمات سر انجام دیتے رہے۔ ایوب خان کی صدارت کے زمانے میں علامہ میمن کو اُن کی علمی خدمات کے اعتراف میں تمغۂ’’ حسنِ کارکردگی‘‘ کا حق دار ٹھہرایا گیا ۔ اپنے والد صاحب کی طرح وسکانسن یونیورسٹی ، میڈیسن ، امریکا میں عربی اور اُردو ادب پڑھاتے رہے ، وہاں سے دی اینویل آف اردو اسڈیز کی ادارت کی اوریونیورسٹی میں لگ بھگ 38 سال خدمات انجام دینے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے، لیکن لکھنے پڑھنے کا چسکا ایسا تھا کہ زندگی کے آخری لمحات تک اس میں مگن رہے۔ آصف فرخی نے اطلاع دی ہے کہ آخری ایاّم میں اُنہوں نے اپنے کچھ تراجم کے مسودات حوری نورانی کو طباعت کے لیے بھیجتے ہو ئے کہا تھا ، انہیں چھاپ لیجئے، ممکن ہے میں ان کی طباعت تک نہ رہوں ۔ وہ 4 جون کو امریکا میں وفات پاگئے ۔ وہ ہم میں نہیں رہے، مگر اُن کا قابلِ قدر کام ہم میں رہے گااور اسی کام کے طفیل ہم انہیں بھول نہ پائیں گے۔ محمد عمر میمن افسانہ نگار بننا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے افسانے بھی لکھے ، جو’’ تاریک گلی‘‘ کے نام سے چھپے اور ادبی حلقوں کو متوجہ کیا ۔ محمد سلیم الرحمن نے لکھا ہے کہ وہ کراچی سے لاہور آتے تو انہیں افسانوں کے پلاٹ سناتے، جو انہیں لکھنا تھے۔ گویا افسانہ لکھنے کا جنون تھا، اُنہوں نے افسانے لکھے بھی،بہ قول اُن کے اُنہوں نے 1980ء کے قریب قریب آخری کہانی لکھی تھی، جو کہیں چھپی نہیں ،پھر وہ ہاتھ جھاڑ کر الگ ہوگئے ۔کیوں؟میں نے ایک بار پوچھا تو کہنے لگے کہ’’ میں نے اتنا عمدہ فکشن پڑھا ہے کہ مجھے اپنے افسانوں پر اطمینان نہیں ہوتا تھا ، یوں لگتا جیسے جو بات میں کہنا چاہتا تھا، اس سے بہتر انداز میں کہی جا چکی تھی ۔‘‘ خیر ، مجھے یوں لگتا ہے کہ مسلسل مطالعے نے انہیں تراجم کی طرف دھکیل دیا تھا اور یہ عجیب بھول بھلیاں تھیں کہ اس میں داخل ہوئے تو خود افسانہ لکھنے سے بے نیاز ہو گئے۔ اُنہوں نے اُردو کے جن محبوب لکھنے والوں کو مغرب میں متعارف کروایا ،اُن میں منٹو، انتظار حسین اور نیّر مسعود نمایاں ہیں۔ میلان کنڈیرا، گبرئیل گارسیا ماکیز، اورحان پامک، امین مالوف، طاہر بن جلون،علائی الاسوانی، البیر کامیو، فرانسوا ساگاں، بپسی سدھوا،تشی ہیکو از تسو ،شاندورمارئی ؛وہ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اعلیٰ متون تلاش کرتے رہے ۔ عربی کے وہ عالم تھے ، فارسی بھی سمجھتے تھے ، انگریزی سے اُردو اور اُردو سے انگریزی میں تراجم کیے چلے جانا، اُن کا جنون ہوگیا ، سو وہ اس میں آگے بڑھتے گئے ، اسی میں اتنا کام کر گئے کہ اُردو کا دامن مالامال ہو گیا اور اُن کے کام کو سب قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ 

تازہ ترین