• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترکی میں منعقدہ حالیہ قبل از وقت صدارتی انتخابات میں طیب اردوان نے ایک بار پھر فتح حاصل کر لی ہے، میں نے اپنے آج کے کالم کیلئے یہ موضوع اسلئے منتخب کیا کہ پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ قریبی تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، آج پاکستان کو بھی کم و بیش انہی مسائل کا سامنا ہے جو کبھی ترکی میں ہوا کرتے تھے، اگر ترکی میں طیب اردوان اپنی ایمانداری، نیک نیتی اور عوام سے محبت کے نتیجے میں ملک کو آئی ایم ایف اور بیرونی قرضوں سے نجات دلاسکتے ہیں تو پاکستان کو بھی ترکی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قرضوں سے چھٹکارا پاکر خودمختار پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ترکی میں انتخابی شیڈول کے تحت الیکشن کا انعقاد آئندہ برس نومبر 2019ء میں کیاجانا تھا لیکن صدر اردوان نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرکے عوام کے پاس جانے کا اعلان کردیا۔ بطور میئر استنبول سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرنے والے طیب اردوان نے آخر وہ کونسی پالیساں اپنائیں جس کی وجہ سے عوام نے انہیں اپنا قائد تسلیم کرلیا، میں ان تمام امور کو زیربحث لانا پاکستان میں آئندہ الیکشن کے تناظر میں بہت ضروری سمجھتا ہوں۔ طیب اردوان اس سے قبل وزیراعظم کے عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں، انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں وزیراعظم کا عہدہ ختم کرکے ترک صدر کو امور ریاست چلانے کیلئے نائب صدور اور اپنی کابینہ نامزد کرنے کا حق دیا گیا ہے، ترکی کے انتخابی قوانین کے مطابق صدارتی انتخابات میں فتح کے حصول کیلئے امیدوار کو پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں جس میں طیب اردوان کامیاب رہے، اگر کوئی ایک امیدوار یہ ہدف حاصل نہ کر سکے تو پھر زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ انتخاب کا انعقاد کیا جاتا ہے، ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بیک وقت منعقد ہوئے جس میں عوام نے ایک ووٹ صدر اور دوسرا رکن پارلیمان کے انتخاب کیلئے کاسٹ کیا، طیب اردوان کی جماعت کو پارلیمان میں بھی واضح برتری حاصل ہوگئی ہے۔ مغربی میڈیا میں طیب اردوان کے مستقبل کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی کی جارہی تھیں لیکن عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا، ترک میڈیا کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ87فیصد رہا۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی کامیابی کا اعلان ہوتے ہی طیب اردوان کے حامی سڑکوں پر جشن منانے نکل آئے، نومنتخب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ترک عوام نے مجھے بڑے مینڈیٹ سے نوازا ہے، ملک سنوارنے کا وقت آگیا ہے۔ ترکی کی سیاست میں گزشتہ پندرہ برسوں سے چھائے ہوئے کرشماتی لیڈر طیب اردوان پر عوام کا اعتماد اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ انکی پالیسیاں لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکی ہیں، وہ ایک قوم ایک پرچم کا نعرہ بلند کرتے وقت اس حقیقت کا بھی برملا اظہار کرتے ہیں کہ اس وقت ترکی کے عوام کو متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ ترک رہنما کی ساری زندگی عوامی ایشوز کے حل کیلئے پرامن سیاسی جدوجہد پر مشتمل ہے، انہوں نے جب لوکل باڈی الیکشن کے نتیجے میں گورنر استنبول کا عہدہ سنبھالا تو اس وقت شہر کو پانی و بجلی کی قلت، کچرے کی تلفی اور امن و عامہ کے سنگین مسائل کا سامنا تھا، طیب اردوان کی انتھک محنت کی بدولت بہت جلد استنبول کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں ہونے لگا۔ وہ ترکی کے قومی لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے تو انکی توجہ کا محور ترکی کا استحکام، معاشی صورتحال میں بہتری اور عالمی برادری میں قائدانہ کردار بن گیا، وہ ترکی جو کبھی آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا بہت جلد بیرونی قرضوں سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوگیا۔ انہیں ترکی کو مضبوط ترین بنانے کی جدوجہد کے دوران بے پناہ مخالفتوں اور چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا، بطور میئر استنبول طیب اردوان کی ایک تقریر کو جواز بناتے ہوئے معزولی اور قید کی سزا سنائی گئی، دو سال قبل کچھ جمہوریت دشمن قوتوں نے بغاوت کی کوشش کی تو ترک عوام اپنے ہر دلعزیز قائد کیلئے سڑکوں پر نکل آئے اور یوں طیب اردوان ایک بار پھر اپنے آپ کو عوامی قائد ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ گزشتہ دور حکومت میں عوام کا حق حکمرانی یقینی بنانے کیلئے صدر منتخب کرنے کا اختیار ڈائریکٹ ووٹ کے ذریعے عوام کو دیا گیا۔ طیب اردوان کے مطابق اگر ہم بطور ایک قوم اور ملک کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلی ترجیح ایک مستحکم اور اہل حکومت کا قیام ہونا چاہیے جس میں اختیارات اور ذمہ داری کا درست تعین بہت ضروری ہے ورنہ سیاسی عدم استحکام اقتصادی و سماجی بحران کا باعث بنتا ہے، طیب اردوان کا ماننا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کو اپنے مزاج کے مطابق طرز حکمرانی اختیار کرنے کا حق حاصل ہے، صدارتی نظام حکومت کے حق میں وہ دلیل دیتے ہیں کہ اصل مقصد اپنے ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکی کے قومی اہداف کا حصول یقینی بنانا ہے۔ فلسطین کا معاملہ ہو یا برما میں بسنے والے رہنگیاؤں کا، ترکی حکومت مظلوموں کے ساتھ عملی طور پر کھڑی نظر آتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حالیہ انتخابات نے ترکی کو عالمی منظرنامے میں اسی طرح نمایاں کردیا ہے جیسے ٹھیک آج سے ایک سو سال قبل گزشتہ صدی میں ترکی عالمی سیاست میں چھایا ہوا تھا، ایک طرف تین براعظموں پر پھیلی ہوئی سلطنت عثمانیہ تھی تو دوسری طرف مغربی حمایت یافتہ قوم پرست اور مذہب بیزار قوتیں۔ ایسے کڑے وقت میں برصغیر کے عوام انگریز سامراج کے شکنجے میں جکڑے ہونے کے باوجود ترکی کی حمایت میں پیش پیش تھے، تحریکِ خلافت کو برصغیر میں جدوجہد آزادی کیلئے اہم سنگ میل کا درجہ حاصل ہے جس کی بدولت ہندوستان کا چپہ چپہ انگریزوں کے خلاف نعروں سے گونج اٹھا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، علامہ اقبال سمیت ہندو راہنما مہاتما گاندھی جی تحریک خلافت کے پرجوش حامیوں میں شامل تھے، اس زمانے میں ترکی سے عقیدت و احترام کے رشتے نے برصغیر کے تمام باشندوں کو بنا مذہبی تفریق ایک دوسرے کے قریب کردیا تھا، کہا جاتا ہے کہ ترکی کو عملی مدد فراہم کرنے کیلئے برصغیر کی خواتین نے اپنے زیورات تک ترکی بھجوا دیئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد تیزی سے دونوں ممالک میں قریبی تعلقات حکومتی اور عوامی سطح پر پروان چڑھے، ترک حکومت روزاول سے کشمیر ایشو پر پاکستان کے دیرینہ موقف کی حامی ہے۔ اگر پاکستانی عوام کے دل ترکی سے ساتھ دھڑکتے ہیں تو ترکی میں بسنے والے پاکستانیوں کو برادر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، ہماری قومی زبان کانام ’’اردو‘‘ بذات خود ترک زبان کا لفظ ہے، ترکی میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اورشاعر مشرق علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے مختلف شاہراہیں، پارک اور مقامات انکے ناموں سے منسوب ہیں، اسلام آباد میں بھی ایک مشہور شاہراہ اتاترک ایونیو کے نام سے موجود ہے۔ بطور سیاستدان ہمارے لیے طیب اردوان کی کامیابی اس لحاظ سے سبق آموز ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں اصل طاقت عوام کے پاس ہوتی ہے، ایک سچے اور ایماندار سیاستدان کو اپنی عوامی جدوجہد میں بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ اپنے بلند مقصد کے حصول کیلئے حکمت عملی تو بدل سکتا ہے لیکن نظریہ نہیں۔ میری نظر میں ایک سیاسی لیڈر عوام کا رول ماڈل ہوتا ہے اور اسکی شخصیت میں ایمانداری، عوام سے محبت، جذبہ، درست حکمت عملی اور پراعتمادی جیسی اعلیٰ خوبیوں کا ہونا لازمی ہے۔ گزشتہ ستر سالہ ملکی تاریخ میں پاکستان نے بھی بہت سے سنگین بحرانوں کا سامنا کیا ہے جسکی بڑی وجہ درست قیادت کا نہ ہونا تھا لیکن ہمیں ترکی سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ موجودہ مہینہ الیکشن کا ہے جس میں عوام کو اپنے ووٹ کی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے، وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اب ملک سنوارنے کی طرف توجہ دیں۔ میری نظر میں ان فیصلہ کن لمحات میں ہمیں پاکستان کو درست سمت میں گامزن کرنے کیلئے اپنی لیڈرشپ کے انتخاب کا صحیح اور بروقت فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ ہمارا پیارا وطن بھی بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرکے ایک کامیاب، خوشحال اور خودمختار ملک کے طور پرتیزی سے آگے بڑھ سکے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین