• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
, ,

مسلم لیگ ن کی نمبر 1 پوزیشن کو تحریک انصاف کا چیلنج

مسلم لیگ ن کی نمبر 1 پوزیشن کو تحریک انصاف کا چیلنج

رانا غلام قادر

نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف 8 ماہ سے نیب کورٹ میں چلنے والے ریفرینسز فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئے ہیں ۔ لندن فلیٹس کیس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا ۔ یہ فیصلہ حق میں آئے یا خلاف بہر حال اس کے الیکشن پر اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ نواز شریف فیصلہ سننے کیلئے خود عدالت میں موجود ہوں گے یا نہیں ۔ فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں ان کی گرفتاری سے سیاسی صورتحال تبدیل ہوجائےگی ۔ سیاسی ماحول تلخ ہو جائے گا ۔ مسلم لیگ ن ہمدردی کا ووٹ لینے کی کوشش کرے گی ۔امن و امان کی صورتحال زیادہ بگڑی تو الیکشن کا انعقاد بھی خطرے میں پڑسکتا ہے ۔ انتخابی دنگل سج چکا ہے امیدواروں کی حتمی فہرست کے اجرا ہونے کے بعد انتخابی مہم اب عروج پر ہے۔ سیاسی منظر نامہ اب واضح ہو رہا ہے مسلم لیگ (ن) اپنی نمبر ون پوزیشن کھو رہی ہے۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ تھا اور Electables کی اکثریت اس کے پاس تھی۔ صورت حال کو بھانپتے ہوئے بہت سے Electables نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب ہجرت کر لی۔ پی ٹی آئی والے پہلے انہیں پٹواری کہتے تھے اب سینے سے لگا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو آخری جھٹکا آخری دن لگا جب پنجاب اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر شیر علی گورچانی سمیت کئی امیدواروں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ واپس کر دیئے۔ 2018کے الیکشن کا نتیجہ اب دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے مسلم لیگ (ن) کو خود اس کے قائد محمد نواز شریف نے یہاں تک پہنچایا ہے۔ انہوں نے عدلیہ اور فوج کے ساتھ بلاوجہ مہم جوئی کی۔ انہوں نے آج تک خواب میں دیکھا کہ وہ نظریاتی لیڈر ہیں اور سویلین بالا دستی کے انقلاب کا نعرہ لگا دیا اگر وہ یہ ادراک نہیں کر سکتے کہ سویلین بالا دستی کے لئے حالات کس قدر ساز گار ہیں اور ان کے ساتھ سیاسی قوتیں کس حد تک ہم رکاب ہیں تو پھر ان کی سیاسی بصیرت اور دوراندیشی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہیں دھکا دینے والے محمود خان اچکزئی ، پرویز رشید اور خود ان کی صاحبزادی مریم نواز ہیں۔ نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ ان کا بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے اور اس کے بعد وہ لندن جا کر بیٹھ گئے۔ یہ درست ہے کہ ان کی اہلیہ کلثوم نواز علیل ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں لیکن یہ علالت نئی نہیں ہے۔ پھر ان کے دو صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز ماشا اللہ برطانیہ کے شہری ہیں اور والدہ کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز ان کی عیادت کر کے واپس آسکتے تھے۔ انتخابی مہم کا آغاز اصولی طور پر نواز شریف کو کرنا چاہیئے تھا۔ نواز شریف کی غیر حاضری نے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے حوصلے پست کر دیئے۔ چوہدری نثار علی خان کا ایشو حل ہو سکتا تھا۔ شہباز شریف کی خواہش تھی کہ چوہدری نثار علی خان کو راضی کر لیا جائے ان کو ساتھ لے کر چلا جائے مگر نواز شریف اور مریم نواز اپنی ضد پر اڑ گئے۔ شہباز شریف اور پارلیمانی بورڈ نے فیصلہ بھی کیا کہ چوہدری نثار علی خان جن حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں انہیں اوپن چھوڑ دیا جائے مگر نواز شریف نے یہ فیصلہ ویٹو کر دیا۔ یہ جمہوریت ہے یا شخصی آمریت اس کا فیصلہ تو خود نواز شریف کریں لیکن اس کے بعد اب پارٹی کے ساتھ جو ہو رہا ہے اور جو ہونے والا ہے وہ سب دیکھیں گے۔ چوہدری نثار علی خان نے جیپ کا انتخابی نشان الاٹ کرا لیا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ جن مسلم لیگی امیدواروں نے آخری دن ٹکٹ واپس کیا ان سب نے جیپ کا نشان الاٹ کرایا ۔ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی قیادت میں ایک آزاد گروپ بننے جا رہا ہے۔ پیر پنکی کی کرامت ہے یا خلائی مخلوق کی مدد بہر حال پی ٹی آئی 2013کی نسبت اب اپنا گراف اوپر لے جانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ عوام میں یہ تاثر ہونا پی ٹی آئی کی پہلی جیت ہے کہ الیکشن 2018میں مسلم لیگ (ن)کی نہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت بنے گی۔ اس الیکشن میں سب سے فیورٹ ٹکٹ پی ٹی آئی کا رہا ہے۔ بے شک عمران خان یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ٹکٹوں کا مرحلہ ایک عذاب تھا۔ بنی گالہ اور زمان پارک میں انہیں ناراض کارکنوں کے دھرنے کا سامنا رہا لیکن اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہےکہ ٹکٹ کے خواہش مندوں کی تعداد زیادہ تھی۔ پی ٹی آئی عملی طور پر اب ملک کی نمبر ون سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے ٹکٹ واپس ہونا نواز شریف اور شہباز شریف کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے پیپلزپارٹی کی صورت حال اس سے بھی خراب ہے پنجاب میں اس کے سیاسی امیدوار پورے نہیں ہیں بلکہ ان کے لیڈرز آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں علامہ حامد سعید کاظمی اور منظور وٹو اس کی مثال ہیں۔ مسلم لیگ (ن)کے شیر علی گورچانی، حفیظ الرحمن دریشک، امجد فاروق کھوسہ، سردار محسن علی کھوسہ، خالد غنی، منیب علی ڈوگر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ لیہ میں بہادر خان سیہڑ گروپ نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ واپس کر دیئے اور آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن اور دوست محمد کھوسہ بھی آزاد الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ الیکشن 2018میں آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کامیاب ہو گی۔ یہ آزاد گروپ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پی ٹی آئی بھی اتنی نشستیں حاصل نہیں کر سکے گی کہ تنہا حکومت بنا سکے اس لئے مخلوط حکومت بنے گی۔ آزاد گروپ فاٹا گروپ، جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی اس کا حصہ ہوں گے۔ عمران خان ہو سکتا ہے کہ خود وزیراعظم نہ بن سکیں وہ کنگ میکر کا کردار ادا کریں گے اور انہیں مجبوراً کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح نواز شریف ضدی ہیں تکبر کے مارے ہوئے ہیں خود پسند ہیں ، ماشا اللہ عمران خان بھی انہیں اوصاف کے حامل ہیں۔ وہ خود پرستی، رعونت اور ضدی طبیعت کے مالک ہیں ان کابے لچک رویہ اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ وہ پرعزم ہیں فائٹنگ سپرٹ رکھتے ہیں ان سے نواز شریف کو گرانے کا ٹاسک پورا کرا لیا گیا۔ وہ 2013 سے 2018تک اس وقت تک مسلسل جدوجہد کرتے رہے جب تک نواز شریف وزارت عظمیٰ سے باہر نہیں ہوئے۔ پارٹی صدارت کے لئے نااہل ہو گئے نیب میں ریفرنس کا سامنا کر رہے ہیں، ان کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ان کی جائیدادیں خطرے میں ہیں۔ آنے والے دن ان کے لئے بہت مشکل ثابت ہوں گے۔2018کے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت سے انہیں کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ ابھی تو انتخابی مہم نے مزید زور پکڑنا ہے سوشل میڈیا اس بار انتخابی مہم کا ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔ یہ نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ امیدواروں کا گھیرائو کیا جاتا ہے اور ان پر تنقید کی ویڈیو چند لمحوں کے بعد وٹس ایپ کے ذریعے لاکھوں لوگوں میں پھیل جاتی ہے بلکہ الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن جاتی ہے۔ عمران خان جو ایچی سن کے پڑھے ہوئے ہیں آکسفورڈ یونیورسٹی جانے کا اعزاز رکھتے ہیں لیکن پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزاز پر اپنی بیگم کے ہمراہ درگاہ کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکنا ان کے لئے مسئلہ بن گیا ہے۔ عمران خان اپنی بیگم پیر پنکی کے اس قدر زیر اثر ہیں کہ جیسے ہپناٹائز کر دیئے گئے ہوں۔ وہ وزیراعظم بننے کے لئے ہر حربہ آزما رہے ہیں خدانخواستہ اگر وہ وزیراعظم نہ بن سکے تو شاید ہی وہ ذہنی طور پر یہ صدمہ برداشت کرسکیں۔ سیاست کی اپنی جہتیں ہیں، یہ بے رحم کھیل ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ جو پاور بروکرز انجینئرنگ کرکے نواز شریف کو بادشاہت کے تخت سے نیب کورٹ کے بینچ تک لے آئے ہیں وہ اپنے کارڈز آسانی سے ظاہر نہیں کرتے۔ وہ اپنا نیا صادق سنجرانی اب تک پٹاری سے نکالیں گے اور اس کے سر پر ہما بٹھا دیں گے۔ نواز شریف سے زیادہ کون اس حقیقت کو جانتا ہے کہ کس طرح اقتدار چھینا اور دلایا جاتا ہے البتہ وہ ماضی سے سبق سیکھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ کاش وہ جمہوری مزاج رکھتے لوگوں کو ساتھ لے کر چلتے تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین