• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انداز بیاں…سردار احمد قادری
ایران کا انقلاب ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ اس میں بے شمار قربانیاں دی گئیں اور بالآخر عوامی غم وغصہ اس نہج پر پہنچ گیا تھا کہ اس انقلابی تحریک بلکہ عوامی بغاوت کو روکنا نا ممکن ہوگیا تھا۔ یہ کسی ایک طبقے کسی ایک پارٹی یا کسی ایک مخصوص مکتب فکر کی تحریک نہیں تھی بلکہ یہ پورے ایران کی آواز بن گئی تھی۔ آیت اللہ خمینی اس تحریک پر ایک نمایاں اور قد آور لیڈر بن کر ابھرے اور معاشرے کے تمام طبقات نے ان کی سیادت اور قیادت کو تسلیم کرلیا خمینی جو شیلی تقریریں  کرنے والے لیڈر نہیں تھے بلکہ وہ دھیمے لہجے میں اپنا ماضی الضمیر بیان کرتے تھے۔ اگرچہ مسلک کے اعتبار سے وہ اثنا عشری شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے لیکن سیاسی امور پر ان کا نکتہ نظر عالمی استعمار کے خلاف ہوتا تھا اور ان کا پیغام عالم اسلام اور امت اسلامیہ کے لئے ہوتا تھا۔ خمینی نے شہنشاہ ایران کے خلاف بولنا شروع کیا تو شاہ ایران کی ظالم حکومت نے ان کے گرد گھیرا ڈالنا شروع کیا اور انہیں ہراساں کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا لیکن وہ ڈٹے رہے اور جھکے نہیں ان کے قتل کے منصوبے بھی بنائے گئے لیکن ایران میں ممکنہ طورپر ہونے والے احتجاجی اثرات کے خدشات کے پیش نظر انہیں ملک بدر کردیا گیا۔ وہ کچھ عرصہ ترکی میں رہے اور پھر عراق چلے گئے۔ شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ دراصل ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا تسلسل تھا اسے اسلامی ورثے اور اسلامی تاریخ سے زیادہ بت پرست اور آتش پرست ایرانی شہنشاہوں کی ثقافت اور تاریخ سے لگائو تھا۔ وہ مسلک کے اعتبار سے اگرچہ بظاہر شیعہ تھا۔ایک جابر اور مطلق العنان حکمران تھا۔ اس کے وزرا اس کی جنبش ابرو پر نظر رکھتے تھے اور شہنشاہ ایران کی ہر خواہش پر بلاچوں و چراں عمل کیاجاتا تھا۔ ایک بار اس نے اپنے وزیراعظم عباس ہویدا سے وقت پوچھا وزیراعظم نے گھڑی دیکھ کر وقت بتایا تو شہنشاہ نے کہا میری گھڑی تو ایک گھنٹہ آگے بتارہی تھی۔ وزیراعظم نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر کہا آپ کی گھڑی غلط نہیں ہوسکتی۔ ہم سارے ایران کی گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کردیتے ہیں اور آپ کی گھڑی کے مطابق کردیتے ہیں۔ محمد رضا شاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور ایسا ہی ہوا پورے ایران کا وقت ایک گھنٹہ آگے کردیا گیا۔ وہ ذرا سی تنقید بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا اس کے جاسوس پورے ملک میں خونخوار بھیڑیوں کی طرح اس ٹوہ میں لگے رہتے تھے کہ کہیں کوئی شخص شہنشاہ کے خلاف یا اس کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف بات تو نہیں کررہا۔ اگر کوئی ایسا شخص یا گروہ پکڑ لیاجاتا تو اسے ’ساواک‘ کے عقوبت خانوں پر بربریت اور تشدد کا اتنا نشانہ بنایاجاتا کہ یہ لوگ ظلم وتشدد سہنے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اذیت وتشدد کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے گئے کہ اس کی تفصیلات پڑھ کر انسان کانپ جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ تقریبا ہر خاندان میں ایک حکومتی جاسوس ہوتا تھا جو شاہ کا وفادار ہوتا ایسا گھٹن اور حبس زدہ ماحول تھا کہ لوگ بات کرتے ہوئے بھی گھبراتے تھے۔ ان حالات میں آیت اللہ خمینی نے حکومت کو للکارا ، ان کے مدرسے پر حملہ ہوا، ان کا ایک بیٹا شہید ہوا، ان کے ساتھیوں نے جبرو تشدد کا سامنا کیا اور جب انہیں ملک سے زبردستی باہر بھیج دیا گیا تو انہوں نے عراق میں بیٹھ کر علمی اور فکری تحریک کے ذریعے ایرانی عوام میں بیداری کی لہر پیدا کی۔ ان کے پیغام اور خطبات آڈیو کیسٹوں کے ذریعے خفیہ طریقے سے ایران پہنچتے اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ایران میں پھیل جاتے اگرچہ سوشلسٹ گروپ اور فدائین خلق بھی خفیہ طریقے سے شاہ ایران کے خلاف سرگرم عمل تھا لیکن شاہ مخالف تحریک کو خمینی کے علمی اور فکری خطبات سے ایک ولولہ تازہ ملا۔اقبال نے کہا تھا۔
اک ولولہ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاک بخارا وسمر قند
خمینی کے پیغام میں علامہ محمد اقبال کے پیغام کا گہرا اثر تھا۔ خمینی اقبال کی فکر و فلسفے اور حریت وآزادی وخودی کے پیغام کے مداح تھے۔ اقبال کی فکر کی گہرائی کا ادراک اقبال کی فارسی شاعری میں پوشیدہ ہے۔ ایران میں اقبال کا پیغام عوام اور خاص میں یکساں مقبول ہے۔ ایران کے ایک فکری دانشور علی شریعتی نے اقبال پر کتاب کا عنوان ’اقبال وما‘ (اقبال اور ہم) رکھا اور ان کی مقبول ترین کتاب انقلاب کے بعد خمینی نے ایک وفد لاہور بھیجا۔ خمینی کی خواہش پر اس وفد کے ارکان نے علامہ محمد اقبال کے مزار پر حاضری دی اور فرزند اقبال سے ملنے کی خواہش ظاہرکی گورنر ہائوس لاہورمیں جنرل ضیاء الحق کی موجودگی میں ہونے والی اس ملاقات میں جب ایرانی وفد نے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال سے پوچھا کہ آپ کو فارسی آتی ہے ،آپ کے والد گرامی تو فارسی زبان کے عظیم شاعر تھے۔ جاوید اقبال نے جب بتایا کہ وہ فارسی نہیں بول سکتے تو وفد کے سربراہ نے جنرل ضیاء سے کہا کہ آپ فرزند اقبال کو ایران بھیج دیجیے ہم ان کی ایرانی دوشیزہ سے شادی کرادیں گے اس طرح بہت جلد فارسی سیکھ جائیں گے۔ جنرل ضیاء نے کہا کہ آپ ڈاکٹر جاوید اقبال سے خود پوچھ لیجیے! جاوید اقبال نے جواب دیا، ایرانی دوشیزہ سے شادی کرنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر میں اسے شادی کرکے لاہور لے آیا تو کچھ عرصے بعد وہ فرفر پنجابی بولنے میں ماہر ہوجائے گی۔ خیر درمیان میں اقبال کی فارسی شاعری کے حوالے سے بات آگئی۔ دراصل بات یہ ہورہی تھی کہ خمینی کا ایک مسلک تھا اور وہ اس مسلک پر سختی سے کار بند تھے اور وہ اس ملک کے آیت اللہ تھے لیکن ان کی سوچ آفاقی اور ان کی فکر اسلام مخالف قوتوں کو بے نقاب کرنے پر استوار تھی پھر ایک دن ایسا آیا ان کی فکر کو ایران کے عوام نے تسلیم کیا اور شہنشاہ ایران کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔ یوں ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کا خاتمہ ہوا۔ امام خمینی سرجھکائے خاموشی سے سیڑھیوں سے تہران ائر پورٹ پر اترے تو پورا تہران اسقبال کے لئے موجود تھا۔ انہوں نے کوئی تقریر نہیں کی خاموشی سے ایک ویگن پر بیٹھ کر اپنے مدرسے کے حجرے میں چلے گئے اور وہیں سے بیٹھ کر ایران کے لئے ایک نیا دستور بنانے کا حکم دیا ۔ وہ مدرسے کے حجرے میں جاکر مملکت کے امور سے بالکل تعلق نہیں ہوگئے وہ خود کسی حکومتی منصب پر فائز نہ ہوکر ’’جہاں گیری‘‘ اور ’’جہاں بانی‘‘ کے اصولوں سے آگاہ تھے۔ ملک کا صدر اور وزرا اور مسلح افواج کے سربراہ ان کی منظوری کے بغیر اپنے منصب پر فائز نہ ہوسکتے تھے۔ انہوں نے ولایت فقیہ کا تصور دے کر ایران میں ایک نیا تصور دیا جسے روحانی سربراہ کہاجاتا ہے اور یہ پوری مملکت کا روحانی سربراہ ہوتا ہے اور تمام شعبے اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں پاکستان میں ہر گلی محلے میں ایک روحانی سربراہ ہے اور ہر بڑے شہر میں ایک انقلابی قائد ہے بلکہ الیکشن کے دنوں میں تو انقلابی قائدین کی بہار آجاتی ہے۔ امام خمینی کی طرح انقلاب لانا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ نکتہ بھول جاتے ہیں کہ جب تک انقلابی لیڈر خود قربانیاں نہ دے یا انقلاب کا خواب شر مندہ تعبیر نہیں ہوسکتا، یہ قانون قدرت ہے اور یہ ہمیشہ سے نافذ ہے، رجب طیب ایردوان والے جمہوری انقلاب کی کہانی مختلف ہے ایردوان اپنے ذاتی حلیے میں مذہبی رہنما نہیں لگتے لیکن وہ ترکی میں سرکاری سرپرستی میں قائم ہونے والے امام وخطیب سکول کے فارغ التحصیل ہیں۔ قرآن کریم کے قاری ہیں ان کی خوبصورت قرات سننے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ ایک غریب اور متوسط خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان کے والد ایک چھوٹے دکان دار تھے اور گھر میں مفلسی اور سادگی تھی لیکن صبر وشکر کا ماحول تھا ایردوان نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کالج اور یونیورسٹی میں بھی پڑھا اور ڈگری حاصل کی۔ مولانا شاہ احمد نورانی کے دوست نجم الدین اربکان کی ویلفیئر پارٹی سے اپنا سیاسی سفر شروع کیا۔ قدرت نے انہیں استنبول شہر کے میئر کے منصب پر فائز کرکے اپنی قیادت اور سیاسی بصیرت کے ذریعے استنبول کو ایک مثالی شہر بنانے کا موقع فراہم کیا۔ رجب طیب ایردوان نے دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں سے ایک استنبول کو چند برس میں دنیا کا پُرکشش اور سیاحوں کے لئے جنت جیسا شہر بنادیا، وہ شہر جو جرائم کی آماجگاہ تھا، امن کا گہوارہ بن گیا پھر یہاں سے رجب طیب ایردوان کی مسلسل انتخابی کامیابی کا جو سفر شروع ہوا وہ کامیابی وکامرانی کی طرف ہی بڑھتا رہا انہوں نے ایک مقروض قوم کو خوشحال قوم اور معاشی طور پر مستحکم بنادیا۔ آج 2018 میں رجب طیب ایردوان ترکی کے انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کرکے ترکی کے جدید آئین کے تحت بااختیار صدر بن چکے ہیں۔ وزیراعظم کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے۔ سیاسی اور عسکری مخالف قوتیں ان خلاف کچھ نہیں کرسکتیں، وہ اب سلطان ایردوان کے ٹائٹل سے یاد رکھے جائیں گے۔
تازہ ترین