2018ء کے عام انتخابات میں پانچ روز باقی ہیں آئندہ ملک کی قیادت کون سنبھالے گا جلد فیصلہ ہو جائے گا دو جماعتی نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ افسوس عوام مختلف نظریات اور گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہیں قومی یک جہتی و حدت سرے سے ہی مفقود ہو چکی ہے سوال یہ ہے کہ انتخابات کے بعد مزید پیچیدگیاں اور خرابیاں پیدا ہونگی کہ ملک ترقی اور روشن راہوں پر چل نکلے گا۔ یہ انتخاب بہت سے خدشات خطرات ساتھ لے کر آرہا ہے۔ انتخابات کے صاف شفاف غیر جانبدارانہ انعقاد پر ابھی سے انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ایک پارٹی کو الیکشن مہم کی اجازت ہے باقی مشکلات کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنی شکایت کچھ اس طرح بیان کی ہیں کہ مخصوص سیاسی جماعتوں کو مواقع اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر پارٹیوں کو الیکشن سے روکا جارہا ہے۔ اے این پی اور بعض دیگر جماعتوں کے تحفظات بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ تاثر گہرا ہوتا جارہا ہے کہ ان انتخابات میں سب کو برابری کا موقع حاصل نہیں۔ عوامی لیفٹ فرنٹ کی ایک قرارداد سامنے آئی ہے کہ قبل از انتخاب دھاندلی روکی جائے۔ اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ بعداز انتخاب کا منظر دھندلا غیر واضح اور مایوس کن ہے۔ استحکام کے بجائے انتشار کی باتیں زیادہ ہورہی ہیں۔ صاف شفاف غیر جانبدارانہ انتخابات ملک اور عوام کی ضرورت ہیں اس کے لئے ہر سطح پراقدامات کرنا ہونگے تاکہ کسی جماعت کو کوئی شکایت نہ رہے یہ تاثر دور ہونا چاہئے کہ کوئی طاقت مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں آنے سے روکنا چاہتی ہے۔ اگر یہ تاثر راسخ ہوگیا تو قومی وحدت اور سالمیت کو ایسا دھچکا لگے گا جس کی تلافی برسوں نہ ہوسکے گی۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں زیادہ مقبول جماعت ہے اس کے حامی کبھی بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ذہن کے نہیں رہے جبکہ بدقسمتی سے دیگر صوبوں میں اس طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں جب نوازشریف کا 1999ء میں تختہ الٹا گیا تھا اور ان پر طیارہ ہائی جیکنگ کیس بنایا گیا تھا اس وقت تختہ الٹنے والوں سے ناراضگی پیدا ہوئی تھی لیکن اس دفعہ اس نارضگی میں بے حد شدت صاف محسوس کی جارہی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اقتدار کی بساط کسی کو بچھا کر اس کے حوالے کی جارہی ہے جو کہ ناقابل قبول ہے۔ اقتدار کی بساط بچھانے والوں کے لئے کھیل بہت آسان اور سادہ ہوگیا تھا جب نوازشریف کو سزا سنا دی گئی اور وہ لندن چلے گئے لیکن حیرت انگیز طور پر ان لوگوں کا کھیل بگڑ گیا۔ جب نوازشریف اور مریم نواز نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا ٹھنڈے ٹھار مسلم لیگیوں میں جان پیدا ہوگئی۔ ان کے تن آسودہ میں بجلی سی دوڑ گئی ۔ 13جولائی کو عام انتخاب سے دو ہفتے قبل جیل جانے کے لئے باپ بیٹی کی آمد ایک بڑا واقعہ ہے۔ اس کے اثرات ملکی سیاست پر تادیر رہینگے۔ نوازشریف کا بیانیہ پھر ابھر کر سامنے آگیا، جیل جانے کا فیصلہ دراصل ایک ایسا بیج ہے جو کہ جمہوری سرزمین پر بویا گیا ہے بالآخر یہ بتدریج ایک تن آور درخت بن جائے گا اور نوازشریف کے جیل جاتے ہی ان کا سیاسی جمہوری اکائونٹ کھل گیا اب اس میں کیش آتا رہے گا اور مناسب موقع پر یہ کیش ہو جائے گا۔ مسلم لیگوں کو سزا کے بعد جو تاویل دلیل اور سیاسی توجیہہ نہیں مل رہی تھی اب انہیں سب کچھ مل گیا ۔مخالفین کے ساتھ وہ اب شرمندہ اور خائف ہوئے بغیر بحث اور گفتگو کرسکتے ہیں، شہباز شریف کا بیانیہ ویسے بھی کام نہیں کررہا تھا ان سے اکثر سوال کیا جاتا ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بنا کر رکھنے کے موقف سے آپ کو کتنا فائدہ ہوا؟ تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ شہباز شریف پر آج نیب کی مختلف پیشیاں اور دیگر مقدمات ان کا پیچھا کررہے ہیں اگر ان کے بیانیے سے ان کو فائدہ حاصل ہو جاتا تو ’’مصلحت پسند‘‘ مسلم لیگی صبر شکر کر کے اس پر اکتفا کر لیتے اور نوازشریف کے مصائب اورمشکلات کے بیانیے کو شاید چھوڑ دیتے لیکن شہباز شریف کا تو اس شعر کے مصداق حال ہوا کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
13جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کی وطن واپسی پر ایک بڑا بھرپور شو ہوا، مسلم لیگیوں کو لاہور ایئرپورٹ پر استقبال کی کال دی گئی تھی لیکن نگران حکومت سمیت یہ فیصلہ آیا کہ مسلم لیگیوں کو استقبال کرنے سے روکا جائے گا اس کیلئے ہر طرح کے غیر جمہوری غیر آئینی اور غیر قانونی حربے استعمال کئے گئے۔ پاکستان میں جمہوریت اور آئین و قانون کے لئے ایک سیاہ دن تھا، آئین پاکستان کی دفعہ 15اور 16کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوئی جو شہریوں کو نقل و حرکت اور پرامن سیاسی سرگرمیوں کا حق دیتی ہے۔ میڈیا پر ایسی پابندیا کبھی دیکھنے میں نہیں آئی کہا گیا کہ ایک مجرم کو الیکٹرونک میڈیا پر نہ دکھایا جائے۔ یاد رہے کہ ایک سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی تمام تر کامیابی پھانسی پانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی مرہون منت ہے۔ ابھی بھی ان کے میڈیا اور ٹی وی پر اشتہار بھٹو کی تصویر تقریر کے بغیر ادھورے ہوتے ہیں۔ 13جولائی کو مسلم لیگیوں نے تمام تر مشکلات پابندیوں رکاوٹوں کے باوجود جاندار شو کیا اس کامیاب شو سے لاہور کے انتخابی حلقوں کے مسلم لیگی امیدواروں کو کافی فائدہ پہنچے گا یہ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انتخابی مہم کے آخری دنوں میں لاہور آنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپنے امیدواروں کو سہارا دے سکیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ماضی کے برعکس پارٹی پوزیشن ا ور امیدواروں کی مقبولیت کا اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے اس کی وجہ سیاسی اور انتخابی ماحول ہے جو کہ پہلے ہونے والے انتخابات سے قدرے مختلف ہے۔ عمران خان کے جلسوں کے علاوہ کسی دوسری جماعتوں کے تواتر کے ساتھ جلسے پنجاب میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پہلے کارنر میٹنگوں اور سرگرمیوں سے بھی امیدواروں کی مقبولیت اور نتیجہ کا کچھ اندازہ ہوتا تھا اب وہ ماحول صحافتی لحاظ سے ناپید ہے اسی لئے درست اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے یہ تاثر مہلک اور خطرناک ہے کہ ’’فیصلے‘‘ ہو چکے ہیں۔ اگر فیصلہ یا فیصلے ہو چکے ہیں تو ان فیصلوں کو تسلیم کرنا بھی مشکل کام ہے۔
سیاسی فضا میں غیر یقینی پن بڑھتا جارہا ہے۔ عام انتخابات کے بعد کی گھمبیر صورتحال کا کوئی ادراک یا پیش گوئی کرنے سے قاصر ہے۔ گزشتہ چھ آٹھ ماہ کی غیر یقینی صورتحال نے ملک کی معیشت اور اقتصادیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے آئندہ حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو سنبھالنا ہوگا لیکن اگر انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کئے گئے تو حکومت معیشت کو سنبھالے گی کہ اپوزیشن کو سنبھالے گی اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی بھی نگران حکومت اور جن کی سرپرستی میں وہ قائم کی گئی ہے پر انگلیاں اٹھا رہی ہے گو کہ وہ اس کام میں تاخیر کر گئے۔ آصف زرداری صاحب سینیٹ کے حوالے سے دی گئی اسائیمنٹ بخوبی پایہ تکمیل تک پہنچا گئے ہیں لیکن جی ڈی اے کا سندھ میں اتحاد پھر جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کا تحریک انصاف میں انضمام نے ان کو نقصان پہنچا ہے اب وہ اس کے احتجاج اور واویلے کے قابل بھی نہ رہے۔ اسی طرح اب پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) اے این پی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں صورتحال کے پیش نظر قریب آنے پر مجبور ہونگی۔