• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:ملک کی قومی سیاست نواز شریف کے گرد گھومتی رہے گی

اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)ملک عزیز کی قومی سیاست نواز شریف کے گرد گھومتی رہے گی،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نوازشریف ان سرکردہ سیاسی عمائدین میں سے ایک ہیں جنہیں سمجھنے میں سنگین غلطی کا ارتکاب کیا گیا ہے، سبکدوش وزیراعظم اورپاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف اور ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کو جن حالات میں اڈیالہ جیل میں محبوس رکھا جارہا ہے ان کے بارے میں نوع بنوع کی گفتنی و ناگفتنی حکایات منظرعام پر آرہی ہیں نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز نے بتایا ہے کہ ان کے والد کو سونے کےلئے بستر فراہم نہیں کیا جارہا جبکہ باتھ روم اس قدرغلیظ ہیں جیسے وہ طویل عرصےسے صاف نہ کئے گئے ہوں ،نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے نگران وزیراعظم اورپنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کو اپنے مکتوب کے ذریعے ان حالات پرروشنی ڈالی ہے جن میں نوازشریف کو پابند سلاسل رکھا جارہا ہے ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم اوردومرتبہ وزیراعلیٰ رہے شخص کو ذاتی معالج سے بھی باقاعدگی کے ساتھ ملنے نہیں دیا جارہا حالانکہ نوازشریف عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اورپیچیدہ جراحت کا سامنا کرچکے ہیں ان کے دل کے دومرتبہ آپریشن ہوئے ہیں پہلے آپریشن میں تو وہ موت کے منہ کو ہاتھ لگاکرواپس آئے تھے اپنی اس جسمانی صحت کے باوجود پیرانہ سالی میں نوازشریف نے اپنے سیاسی نظریے کی سربلندی کےلئے جدوجہد کاراستہ اختیار کیا ہے انہیں بخوبی علم تھاکہ نے ان کے بارے میں کیا ارادہ کررکھا ہے اس بارے میں پاناما مقدمے کا فیصلہ آنےسے پہلے جولائی 2017 دیر میں ایک جلسہ عام میں کہہ گئے تھے کہ انہیں معلوم ہےکہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے اس ضمن میں وہ متعدد مرتبہ اشارہ بھی دے چکے تھے واقفان حال کو علم تھاکہ نوازشریف کو تیسری مرتبہ حکومت سنبھالنے کےبعد اپنے نشانے پر رکھ لیا گیا تھا وہ نوازشریف کے تیور دیکھ رہے تھے کہ وہ ملک کی خدمت اورعوام کی خوشنودی کےلئے مسلسل مصروف عمل تھے یہ رویہ منصوبہ سازوں کےلئے ناقابل برداشت تھا۔ پاناما کے نام نہاد مقدمے کے ایام میں انہیں مشورہ دیاگیا کہ وہ فیصلہ ہونے سے قبل مستعفی ہوجائیں اور دس سال کی مدت کےلئے بیرون ملک چلے جائیں اس عرصے میں وہ سیاست سے بھی لاتعلق رہیں۔نوازشریف نے اس تجویز پر غور کرنے سےبھی انکار کردیا بدقسمتی سے ان کے ساتھ چونتیس سال کی دوستی کا دعویٰ کرنے والے بھی نہ صرف اس تجویز کی تائید کرنےوالوں میں شامل تھے بلکہ وہ بسا اوقات پیامبر کا کردار بھی ادا کررہے تھے بعد کے برسوں اورمہینوں میں نوازشریف نے ہر وہ کام کیا جسے نہ کرنے کی ان سے ’’فرمائش‘‘ کی گئی تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میںنوازشریف ان سرکردہ سیاسی عمائدین میں سے ایک ہیں جنہیں سمجھنے میں سنگین غلطی کا ارتکاب کیا گیا ہے اور ان سے مزید غلطی یہ ہورہی ہے کہ جسے متبادل خیال کررہے ہیں وہ ان کے اورملک کے لئے بدترین ثابت ہوگا۔نوازشریف کو جب دس سالہ جلا وطنی کا مشورہ دیا جارہا تھا تو اس کےپہلو بہ پہلو انہیں اپنی زندگی کے سلسلے میں لاحق خدشات سے بھی آگاہ کیا جاتا رہا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ نوازشریف نے سلامتی کے سلسلے میں جاری شدہ انتباہ کو کمال آسانی کے ساتھ نظرانداز کردیا۔اس حقیقت سے اغماض نہیں برتا جاسکتا کہ نوازشریف کا جب تک جسم و روح کا رشتہ برقرار ہے ملک عزیز کی قومی سیاست ان کے گرد گھومتی رہے گی۔ ان کی کردار کشی کےلئے چلائی گئی مہم اور ایک چھیاسٹھ سالہ’’ نوجوان‘‘ کی ان کے خلاف غوغا آرائی منصوبہ سازوں کی کارستانی کا شاہکار ہے ان منصوبہ سازوں کونوازشریف کےسبھی مخالفین کی اصلیت سے کماحقہ آگاہی حاصل ہے۔ نوازشریف اور ان کی حوصلہ مند صاحبزادی کے ساتھ جیل میں روا رکھے جارہے سلوک سے ملک کے ان کروڑوں شہریوں کی بھی دل آزاری اورتوہین ہورہی ہے جو انہیں اپنا رہنما تصور کرتے ہیں۔واضح رہے کہ نوازشریف ،مریم نواز اور کیپٹن صفدر جیل کے قواعد کی روسے بھی بہتر سلوک کے قانونی حقدار ہیں انہیں دی گئی سزاوں کو حتمی حیثیت اس وقت ہی حاصل ہوسکے گی جب وہ اپیل کے تمام مراحل طے کرلیں گے اس دوران انہیں عدالتی تحویل میں ہی شمار کیا جائے گا۔

تازہ ترین