• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج آپ بادشاہ ہیں، مختار ہیں، آپ منصف ہیں، کوتوال ہیں، فریقین کے دلائل آپ نے سُن لئے، جزئیات پہ غور کر لیا، اب فیصلہ فرمائیے، زندگی یا موت؟
یاد رکھیے کہ آپ اس روئے زمین کی سب سے بڑی عدالت ہیں، آپ کے فیصلہ کے خلاف کوئی اپیل نہیں کی جا سکتی، آپ کا فیصلہ آخری فیصلہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقدمہ کے حقیقی مدعی بھی آپ ہیں، یہ آپ ہی کا مقدمہ ہے، آپ ہی تماشا ہیں آپ ہی تماشائی۔ کسی نے آپ کے ساتھ نیکی کی ہے تو اُسے جزا دیں، کسی نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اسے سزا دیں، کسی نے ناانصافی کی ہے تو اسے سبق سکھائیں، دست ِقاتل کو قطع کرنے کا حکم صادر فرمائیں، کسی طاقتور نے آپ کی بے بسی کا مذاق اُڑایا ہے، آپ کی توہین کی ہے، آپ دل ہی دل میں کُڑھتے رہے ہیں، ’’منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے‘‘ بڑبڑاتے رہے ہیں تو آپ کو مبارک ہو، آج آپ کا مقدمہ آپ کی اپنی عدالت میں پیش ہو گیا ہے۔ آج آپ بادشاہ ہیں، آپ منصف ہیں، جو چاہے فیصلہ کیجئے، زندگی یا موت!
آپ کس پارٹی کو ووٹ ڈالیں گے؟ دوستوں سے یہ سوال پوچھنے میں کوئی ہرج نہیں، لیکن کسی دوست کو یہ کہنا کہ تم اِس پارٹی کو ووٹ نہ دو اُس پارٹی کو دو، ہماری رائے میں ایک Vulgarعمل ہے، یہ رویہ غالباً اُس گھر اور ماحول کی عطا ہے جس میں ہم نے پرورش پائی۔ منظر ملاحظہ فرمائیے:والد صاحب علیہ رحمہ سیّد ابوبکر غزنوی کی محفل میں معروف مصور و خطاط صادقین بھی شامل ہیں۔ نمازِ مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ والد صاحب صادقین کی قلبی کیفیت بھانپ کر مشورہ دیتے ہیں کہ ’’آپ کی کرسی باغ میں لگوا دی گئی ہے، آپ غُروبِ آفتاب کے منظر سے رنگ کشید کیجئے، اس دوران ہم نماز سے فارغ ہو جاتے ہیں‘‘۔ صادقین مسکراتے ہوئے بیٹھک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ باغ میں وہ کرسی سیّد صاحب کے چھوٹے بیٹے حماد غزنوی نے رکھی تھی۔شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے انتخابات میں ہمارے گھر کے ووٹ کسی ایک پارٹی کو نہیں گئے تھے۔اور آج اگر ایک پارٹی کو جا رہے ہیں تو اُس کی وجہ بھی آزادی ٔرائے ہی ہے۔ اور آزادیٔ رائے کا تقاضا ہے کہ پارٹیوں سے قطع نظراُن اصولوں پہ بات کی جائے جنہیںہم مقدم جانتے ہیں،ہم اپنے ملک کے خدوخال کیسے دیکھنا چاہتے ہیں اورہم اپنے بچوں کے لئے کیسا معاشرہ تخلیق کرنا چاہتے ہیں۔سیاسی جماعتوں کو فنا ہے، اصولوں کو نہیں، اصول دائمی ہوتے ہیں، انسانی مساوات کا اصول، قانون کی حکمرانی کا اصول، احترامِ آدمیت کا اصول۔یہ بات سینہ تان کر کہی جا سکتی ہے کہ ان اصولوں کو ووٹ دیجئے۔آج اگر ہمارے پیارے وطن کا حلیہ بگڑ چکا ہے تو فقط اس لئے کہ ہم نے یہ اصول مسلسل پامال کئے ہیں اور بلا خوفِ تعزیر پامال کئے ہیں۔ آج اس سلسلے کو روکنے کا موقع ہے، یہ موقع ضائع نہیں جانا چاہیے۔
آج قائد اعظم کے منشور کو ووٹ دیجئے یعنی آئین کی بالا دستی کو ووٹ دیجئے۔ قائد ِاعظم کوئی کمانڈو نہیں تھے، پاکستان کسی گوریلا جنگ کے نتیجے میں ظہور پذیر نہیں ہوا تھا۔ قائد کی تمام سیاسی و جمہوری جدوجہد کا محور آئین و قانون کی سربلندی ہی تو تھا۔کس قدر افسوسناک حقیقت ہے کہ آج پاکستان میں آئین کی بالا دستی کی بات کرنے والے کوشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جب کوئی یہ کہتا ہے کہ اداروں کو اُن کی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے تو کئی ابروپھڑکتے ہیں، کئی تیوریاں چڑھتی ہیں۔پھڑکنے دیں، چڑھنے دیں، وہ اپنا کام کر رہے ہیں آپ اپنا کام کریں، جائیں جا کر قائد ِ اعظم کو ووٹ دیں، آئین کی بالا دستی پہ مہر لگائیں اور نیا پاکستان بنائیں۔
آج مادرِ ملت کے اصولوں کو ووٹ دیجئے یعنی آئین کی سربلندی کو ووٹ دیجئے۔قوم کی ماں کو گوشہ نشینی پہ مجبور کیا گیا، سرکاری ذرائع ابلاغ کے دروازے اُن پہ بند کر دئیے گئے اور انہیں ’انڈین ایجنٹ‘ قرار دیا گیا۔آخر کیوں، کیا گناہ تھا اُن کا، اس قدر طاقت ور لوگ کیوں ڈرتے تھے اُس بوڑھی، نہتی عورت سے؟ اس لئے کہ وہ آئین کی حرمت کی بات کرتی تھیں، آئین توڑنے والوں کوللکارتی تھیں، اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک مہذب ملک چھوڑ کے جانا چاہتی تھیں۔ قوم کی ماں کو ایک جعلی انتخابات میںایک مارشل لا ڈکٹیٹر نے جعلی شکست دی۔ آج آپ کے پاس تاریخ کایہ ٹیڑھ دور کرنے کا مثالی موقع ہے، اُٹھیں، اپنے گھروں سے نکلیں اور مادرِ ملت کے نشان پہ مہر لگائیں، آئین کی بالا دستی پہ مہر لگائیں اور نیا پاکستان بنائیں۔
آج آپ کے پاس موقع ہے کہ آپ ہر آئین شکن کے خلاف ووٹ ڈالیں، آرٹیکل چھ کے ہر مجرم کے خلاف ووٹ ڈالیں۔ اگر بات سمجھ میں آ جائے تو کوئی آپ کی آنکھوں میں دُھول نہیں جھونک سکتا، ووٹ ڈالنے کا فیصلہ انتہائی آسان ہو جاتا ہے ۔اچھا چلئے فرض کیجئے کہ آج کہ انتخابات میں دو فریق ہیں، ایک طرف محمد علی جناح اور فاطمہ جناح، اور دوسری طرف ایوب خان اور یحییٰ خان، آپ کسے ووٹ ڈالیں گے؟ یا یوں کہ لیجئے کہ آج کا انتخاب ذوالفقار علی بھٹواور ضیاء الحق کے درمیان ہو تو آپ کسے ووٹ ڈالیں گے؟ یہ بھی کوئی سوچنے کی بات ہے۔ یاد رکھیے ، تاریخ کی صحیح سمت پہ کھڑا ہونا بذاتِ خود خوش قسمتی کی بات ہے۔آپ تاریخ کو جواب دہ ہیں، اپنے گھروں سے نکلئے، آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی پہ مہر لگائیں اور ایک نیا پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔
ایسا پاکستان جس میں طاقتور کے لئے بھی وہ ہی قانون ہو جو ہم جیسے کروڑوں کے لئے ہے، ایسا پاکستان جس کا سپریم لا توڑنے والامشرف جام بدست و محوِ رقص نہ ہو بلکہ سلاخوں کے پیچھے ہو، ملک کا ہر مقبول سیاسی رہنما ـ’غدار‘ نہ ہو، گردن زدنی نہ ہو، جسٹس منیر اورجنرل مشرف کا کوئی جانشیں نہ ہو، ایسا پاکستان جس میں نفسا نفسی نہ ہو مارا ماری نہ ہو۔ اگر آپ ایسا پاکستان چاہتے ہیں تو آج آپ کے پاس ایک بہترین موقع ہے، پولنگ اسٹیشنز جائیے، قانون کی حکمرانی پہ مہر لگائیے اور صحیح معنی میں ایک نیا پاکستان بنانے میں اپنا کردار ادا کیجئے۔
اس انتخاب میں اپنا ووٹ کرپشن کے خلاف استعمال کیجئے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ایک دفعہ بجٹ کی تفصیلات پہ نظر ڈال لی جائے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارا لگ بھگ 75فیصدبجٹ اہم ضروریات اور قرضوں پہ سود کی مد میں چلا جاتا ہے، اور جب حکومت سرکاری ملازموں کی تنخواہ ادا کر چکتی ہے تو اس کے پاس بجٹ کا سات آٹھ فی صد بچتا ہے، پھر ان پیسوں میں سے موٹر ویز، ریل ویز، ایئر پورٹس، بندر گاہیں، بجلی کے منصوبے، میٹرو بسیں، ہسپتال، سکول کالج یونیورسٹیاں، وغیرہ وغیرہ بنتی ہیں اور کرپشن بھی ہوتی ہے۔اپنے ستّر سال کی سالانہ بجٹ شیٹس کو غور سے دیکھئے اور کرپشن کے خلاف ووٹ ڈالئے اور ایک نئے کرپشن فری پاکستان کی بنیاد رکھیے۔
نیا پاکستان بنائیے ، جس میں اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پہ سوار ہو کر،ملک کے پانچ سو گدّ ی نشینوں، سجادہ نشینوں اور درجنوں الیکٹبلز کے جھرمٹ میںکوئی شخص پرانے، گلے سڑے، فرسودہ نظام کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار انتخابی فریقین کے چہرے اس قدرواضح نظر آ رہے ہیں۔ ہم حقیقی تبدیلی کی دہلیز پہ کھڑے ہیں، گھروں سے نکلئے اور اللہ کا نام لے کرنئے پاکستان پر مہر لگائیے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین